انڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت جب مقبوضہ کشمیر سے ایجنسیوں کے منتخب کردہ مدرسوں کے طالب علموں کو قرانی آیات کے حوالے سے تشدد پسندی سے دور رہنے کا درس دے رہے تھے تو عین اسی وقت ان کی فوج کشمیریوں کے گھروںاور مساجد کو کیمیکل بموں سے نمازیوں سمیت جلا کر راکھ کر رہی تھی۔ کاش کہ مقبوضہ کشمیر کی سرکار کے بھیجے گئے طلبا کے گروپ کو پندو نصائح کا درس دینے سے پہلے وہ جان لیتے کہ قرآن میں غاصب اور خائن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے کس قسم کے شدید عذاب کا حکم دے رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج 70 برسوں سے کشمیریوں کی آزادی کی بھیک مانگنے کی درخواستوں تو کبھی آزادی کیلئے جدو جہد کرنے والوں کو پیلٹ گنوں سے زندگی بھر کیلئے اندھا کررہی ہے تو کہیں کشمیر کی نوجوان بیٹیوں اور مائوںپر ظلم و بر بریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے کہیں ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں کو ٹارچر سیلز میں موت کی وادیوں میں پھینک رہی ہے تو کہیں فاسفورس بموں سے انہیں اپنے گھروں سمیت جلا کرراکھ کر رہی ہے۔۔۔ کہیں80 ہزار سے زائد کشمیر کی بیٹیوں کی جبری آبرو ریزی کی کالک اپنے چہروں پر مل رہی ہے ۔
بے شرمی کی حد دیکھئے کہ اسی فوج کا سپہ سالار ''پیغام امن‘‘ کے نام سے ایک نیا ڈھونگ رچاتے ہوئے بھارتی فوج اور پولیس سمیت محبوبہ مفتی سرکار کے تعاون سے مقبوضہ جموں کشمیر سے اکٹھے کئے گئے کم عمر ذہن کے طلباء کے گروپ کو بھارت کی اہم اور تاریخی عمارات میںلے جا کر جہاد کے الفاظ کو قرآن سے الٹ ثابت کرنے کیلئے ان کی برین واشنگ کر رہا ہے۔ ایسے ہی طلبا کا ایک منتخب گروپ نئی دہلی میں آرمی چیف کے دفتر بھی لایا گیا جہاں جنرل بپن راوت نے جموں وکشمیر کے ان نوجوان طلباسے اپنی خصوصی ملاقات کے دوران پوچھا کہ آپ میں سے کتنے لڑکوں نے قرآن کا مطالعہ کیا ہوا ہے؟۔ 12 دسمبر کو جنرل راوت کے دفتر میں آئے ہوئے مدرسوں کے طلباء پر مشتمل یہ گروپ جن کی عمریں13 سے22 برس کے درمیان تھیں اور ان میں سے کئی ایسے تھے جو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دہلی دیکھ رہے تھے انہوں نے جنرل راوت کو بتایا کہ ہم سب قرآن پڑھ چکے ہیں اور اب بھی پڑھتے ہیں تو اس پر جنرل بپن راوت نے سوال کیا کہ آپ جانتے ہو کہ قرآن نے مذہبی انتہا پسندی کو سخت ناپسند کیا ہے ‘کاش اس وقت کوئی ایک نوجوان جنرل راوت سے پوچھتا کہ جناب آپ کی گیتا میں ہمارے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر فاسفورس بم مارنے کا کہاں ذکر ہے ۔
جنرل بپن راوت اپنے لہجے کو بڑا نرم اور میٹھا بناتے ہوئے مدارس سے آئے ان طلبا سے کہنے لگے کہ اگر جموں کشمیر کے تمام نوجوان قرآن کی تعلیمات اور پیغام کی روح پر توجہ دیں او ر اپنے دوسرے ساتھیوں اور دوستوں سمیت اپنے خاندان کے بچوں اور لڑکوں کو قرآن کی اصل تعلیمات سے آگاہ کریں تو اس وقت جموں وکشمیر میںمذہبی انتہا پسندی کے نام سے جہاد کے نام سے جو دہشت گردی پھیل رہی ہے اس کا وجود ہی نہ رہے؟
جنرل راوت نے کہا قرآن میں امن اور برداشت کا سبق جس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے بد قسمتی سے آپ لوگ اس پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے اور نہ ہی اس پیغام کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں قران کے امن و آشتی کے پیغام کو آج کی نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ بنا دیا جائے تو کشمیر سمیت اس پورے خطے میں پھیلے ہوئے بہت سے مسائل ہمیشہ کیلئے دفن ہو کر رہ جائیں گے۔ سب سے دلچسپ بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر سے لائے گئے ان طلبا سےGHQ میں آرمی چیف جنرل بپن راوت نے فوجی وردی میں نہیں بلکہ نیلے رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے سول ڈریس میں ملاقات کی تھی۔۔۔انڈین آرمی چیف نے اپنے دفتر میں آئے سب طلبا سے فرداًفرداً ہاتھ
ملاتے ہوئے ہر ایک سے پوچھا کہ آپ نے نئی دہلی اور کشمیر میں کیا فرق محسوس کیا ہے؟۔جنرل راوت کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جگہ جگہ بنے ہوئے فوجی بنکر جو آپ کشمیر میں دیکھتے ہیں نئی دہلی میں ان کا وجود ہی نہیں ہے لوگ یہاں ساری ساری رات امن اور آزادی سے گھومتے ہیں آپ کی فوج کی کوشش ہے کہ کشمیر میں بھی آپ اسی طرح آزادی سے جہاں چاہیں گھومیں پھریں آپ کو نئی دہلی اور کشمیر کا ماحول ایک جیساہی لگے۔۔۔لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ جیسی نوجوان نسل شدت پسندی اور جہادی عناصر کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے ان گمراہ لڑکوں کی نشاندہی کرے تاکہ ان کو بھی آپ کی طرح سیدھی راہ پر لایا جا سکے۔ جنرل راوت سے ملاقات کے بعد ان طلباء کو تاج محل، دہلی کی جامعہ مسجد اور لال قلعہ کی سیر کرائی گئی۔
انڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت نے دینی مدرسوں سے تعلق رکھنے والے مقبوضہ جموں و کشمیر کے 25 طالب علموں پر مشتمل گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کبھی بھیViolence کی ترغیب نہیں دیتا‘ اس لئے آپ جیسے نوجوانوں کو ایسے اداروں اور لوگوں سے دور رہنا چاہئے جو آپ کو جہاد کا درس دیتے ہیں۔۔۔۔لیکن وہ یہ بھول گئے کہ مسلمانوں کا قرآن اور ہندو کی گیتا بے گناہوں کے گھروں پر کیمیکل بم پھینکنے کا حکم بھی نہیں دیتا۔آپ ایسے لوگوں کے ورغلانے پر خود کو اور اپنے خاندان بھر کو تکلیفوں اور پریشانیوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی تعلیم اور درس قرآنی کے بعد کرکٹ اور فٹ بال جیسے کھیلوں کی جانب توجہ دیا کریں تاکہ آپ کی یہ خوبصورت وادی کشمیر امن کا گہوارہ بن کر دنیا بھر کو ایک بار پھر اپنی جانب متوجہ کر لے۔
Part of Integration Tour کے نام سے آئے ان طلبا ء سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل راوت نے کہا کہ قرآن کا پیغام سوائے امن اور آپس میں بھائی چارے کے ا ور کچھ نہیں ۔۔۔ قرآن کو سمجھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مذہبی منافرت کی بجائے Quran has given the lessons on human values اس لئے ذہن نشین کر لیں کہ آپ کو قرآن کے اس پیغام پر ہمیشہ کیلئے کاربند رہ کر زندگی گزارنی ہو گی نہ کہ لشکر طیبہ، حزب المجاہدین اور ISIS کے مذہبی حوالوں پر۔
جنرل بپن راوت نے پنجگرام کے تیرہ سالہ طالب علم عبد الحمید کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا '' میں نے سنا ہے کہ بجائے کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کے Youth play hide - and - seek with weapons۔۔۔ چھپن چھپائی میں ہتھیاروں کے کھیل کی بجائے۔جس دن آپ سب لڑکوں نے کرکٹ اور فٹ بال کی جانب توجہ دینی شروع کر دی تو کشمیر کے ہر گھر میں امن ہو جائے گا۔ جنرل راوت نے اپنے ساتھ ملٹری سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انڈین آرمی کی جانب سے جموں کشمیر کے نوجوانوں کیلئے ہزاروں کی تعداد میں کر کٹ کا سامان اور فٹ بال مہیا کئے جائیں اور جب یہ واپس کشمیر جائیں تو یہ سامان ان کے ساتھ ہو نا چاہئے۔
اپنے اس مضمون کے ذریعے جنرل بپن راوت سے کہنا چاہوں گا کہ جناب امن کا راستہ اگر کرکٹ اور فٹ بال میں ہے تو پھر آپ کی حکومت نے اپنی ٹیم پر پاکستان سے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کیوں لگائی ہوئی ہے؟۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کھیلنے سے دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے تو دونوں ممالک خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک دوسرے کے ہاں جا کر کرکٹ کیوں نہیں کھیلتے؟۔ جب آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ نے بھی قرآن پڑھا ہے جس میں صرف امن اور بھائی چارے کا پیغام ہے تو آپ اس پیغام پر عمل کرتے ہوئے خود اپنی فوج کو کیوں حکم نہیں دیتے کہ ہمارے زیر قبضہ کشمیرکے معصوم بچوں، عورتوں کو کیمیکل بموں سے ہلاک مت کرو؟۔۔!!