ایران کی سکیورٹی کے ذمہ دار ذرائع نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے وہ اسے کسی بھی قیمت پر پاکستان کے افغانستان سے وابستہ مفادات کو بائی پاس کرنے کی سہولیات مہیا نہیں کرے گا۔ ایران کا چپکے سے بھارت کو دیا جانے والا یہ پیغام پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی قیا دت اگر بھارت سے عشق و محبت کو صرف تعلقات تک لے آئے تو امریکہ کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر یہ دوسرا دبائو بھی ختم ہو جائے گا۔ 2013 کے انتخابات کے نتائج اور اقتدار کی منتقلی سے قبل امریکہ اور شریف برادران کے درمیان جو اندرونی اور بین الاقوامی معاملات طے پائے ان میں سے ایک ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے دست برداری بھی تھی۔۔۔ انتخابات میں بعض قوتوں کی خصوصی مہربانیوں سے نواز شریف کامیاب ہو ئے تو تیسرے دن ایک ٹی وی چینل پر مفتاح اسماعیل اینکر کے سوال پر واشگاف الفاظ میں کہنے لگے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ ختم کر دینا ہے۔ کیا یہ تھا اس امریکی ایجنڈے کا ایک حصہ جسے مکمل کرنے کیلئے میاں نواز شریف کو اقتدار سونپا گیا تھا؟ امریکہ نے آئی پی آئی۔۔۔ ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن منصوبے سے سب سے پہلے انڈیا کو علیحدہ کیا جس سے ابتدا میں پاکستان کچھ گھبرا سا گیالیکن امریکیوں نے اسے یہ کہہ کر تسلی دی کہ IPI کے بدلے تمہیںTAPI سے نوازا جائے گا اور اس کیلئے بھی آخر میں پاکستان سے پوچھے بغیر امریکہ نے بھارت کو بھی شامل کرا دیا تاکہ اس منصوبے کی 1814 کلومیٹر تاپی گیس پائپ لائن کے ذریعے انڈیا کو 33 ملین کیوبک میٹر گیس روزانہ مہیا کی جاتی رہے۔ اس وقت امریکیوں نے یقین دلایا کہ2019 کے آخر میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے لیکن اس کیلئے سب سے پہلے افغانستان میں امن قائم کرنا ہو گا ۔۔ دن میں دکھائے جانے والے ان خوابوں کے ذریعے ۔ایران سے گیس کا منصوبہ ختم کرنے کے بعد اب ہم اس انتظار میں ہیں کب افغانستان میں امن قائم ہو اور ہم وہاں سے سستی گیس حاصل کر سکیں۔ افغانستان میں امن کب اور کیسے ممکن ہو گا اس کے متعلق کوئی بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ افغانستان کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال سامنے ہے۔ فرض کریں کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ہے تو پھر یہ پائپ لائن ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور یہاں سے انڈیا تک پہنچائی جاسکے گی۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں پائے جانے والے تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل اکثراختلافات کا باعث بنتے آئے ہیں کیونکہ انفرادی، لسانی گروہ ہوں یا ریاستیں سب کی کوشش رہی ہے کہ وہ ان وسائل پر صرف اپنا کنٹرول حاصل کریں اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ حق ملکیت کی کوشش میں آپس کی لڑائیاں اور جھگڑے شروع ہو جا تے ہیں لیکن اگر ان قدرتی وسائل کو باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے استعمال میں لایا جائے تو اس سے قبیلوں یا ریاستوں میں دیر پا اور بہترین تعلقات پرورش پاسکتے ہیں اتفاق رائے سے ایک دوسرے کی سہولت اور ترقی کیلئے بچھائی جانے والی پائپ لائن کی دوستی کے ثمرات دونوں ملکوں اور قوموں کی ترقی اور خوش حالی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ سعودی عرب، قطر، ایران جیسے مسلم ممالک اگر اپنے اختلافات ختم کر دیں تو ان کے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پاکستان جیسے توانائی کے ضرورت مند وں کیلئے انتہائی معاون ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری قوموں تک یہ سہولت پہنچانے کیلئے ایسے پراجیکٹس کیلئے بھاری سرمائے کی فراہمی ، سیا سی حالات اور سکیورٹی کے مسائل اکثر
رکاوٹ بن جاتے ہیں لیکن اگر اس پر خلوص اور سنجیدگی سے عمل پیرا ہوا جائے تو ان رکاوٹوںسے گزرنے کے بعد اس کے ثمرات سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے سپلائی کے مقابلے میں گیس سمیت توانائی کے دوسرے ذرائع کی طلب میں ہر دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔اور توانائی کے حصول کیلئے پائپ لائنوںکی بات کریں تو آج مراکش سے افغانستان تک یہ ہر ملک کی شدید ضرورت بنتی جا رہی ہے ۔ ۔۔۔لیکن کیا کریں کہ امریکہ توانائی کیلئے ترستی ہوئی اقوام کی پائپ لائنوں پر رکھے گئے اپنے بھاری بوٹ ہٹانے کا نام ہی نہیں لیتا۔
مستقبل میں اگرجنوب مغربی ایشیا میں بچھائی جانے والی گیس پائپ لائن کی افادیت جاننی ہو تو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی پائپ لائنوں کے موجودہ روٹس ملاحظہ کرلیں۔ گو کہ آج لیبیا کے حالات وہ نہیں لیکن توانائی کی اسی پائپ لائن نے اٹلی، لیبیا اور مراکش اور الجیریا کی دوستی بڑھانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔۔۔اور خلیجی ممالک کے ڈولفن پراجیکٹ کی مثال سب کے سامنے ہے ۔آج دہشت گردی کے بعد پاکستان کو اگر کسی عفریت کا سامنا ہے تواس کی زندگی کیلئے درکار توانائی کا حصول ہے۔ کل تک توانائی کا جو منصوبہ IPI ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن کے نام سے وجود میں آیا تھا امریکی حکم سے پہلے IP یعنی ایران پاکستان اور اب صرف ایران تک ہی منجمد کر دیا گیا ہے اور وہ منصوبہ جوTAP یعنی ترکمانستان، افغانستان اور پاکستا ن کے نام سے تشکیل پایا اس کے آخر میں انڈیا کا اضافہ کرتے ہوئے اسےTAPI کا نام دے دیا گیا لیکن اس کا وجود کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ۔ہم اس قدر مجبور اور بے بس ہو چکے ہیں کہ اپنی زندگیاں بچانے کیلئے ادویات اپنے ڈاکٹر کی مرضی سے نہیں بلکہ اس ہسپتال کے مالک کی اجا زت سے استعمال کررہے ہیں۔ یہی غلام قوموں کی نشانی اور آزاد نسلوں کی بد قسمتی ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ترکمانستان میں 7.6 ارب ڈالر لاگت کے تاپی گیس منصوبہ کے افتتاح کے وقت کہا گیا کہ 2019 میں اس کی تکمیل ہونے پر بھارت کو33 ملین کیوبک میٹر گیس ملے گی۔ اس کیلئے سب سے پہلے افغانستان میں امن لانا ہو گا پھر وہاں پر امریکہ کی من پسند حکومت بننے کے بعد پاکستان بھارت تعلقات کو درست کیا جائے گا تاکہ پاکستان سے بھارت تک تاپی لائن پہنچ سکے۔ پھر کہیں جا کر ہم اس سے مستفید ہو سکیں گے اور اس انتظار کیلئے ہمیں ایران پاکستان گیس پائپ لائن جیسے منصوبے سے دور بھگا دیا گیا ہے جس کیلئے دو دہائیوں سے تیاریاں جاری تھیں۔ 2700کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن جو ایران کی گیس فیلڈ پارس سے شروع کی گئی ہے ایران میں گیارہ سو کلومیٹر اور پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ہو گی جبکہ بقیہ چھ سو کلومیٹر گیس پائپ لائن بھارتی علاقے سے گزرنا تھی۔ اگست2008 میں چین نے بھی جب اس منصوبے کا حصہ بننے کی با قاعدہ خواہش کا اظہار کر دیا تو امریکہ جو پہلے ہی گوادر کی وجہ سے کھول رہا تھا مزید سیخ پا ہو گیا ۔ چین نے جب اس منصوبے کیلئے امداد دینے کی بھی ہامی بھر لی تو پھر ہمارے حکمرانوں کا اس سے پیچھے ہٹنا بنتا ہی نہیں تھا۔۔۔ پاکستان کو اس وقت غیر ملکی انویسٹمنٹ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مغرب اور امریکہ حتیٰ کہ عرب ممالک بھی اب پاکستان میں کسی قسم کی سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں اور سوائے چین کے کوئی دوسرا ملک پاکستان میں سرمایہ کار ی کا سوچ ہی نہیں رہا تو ہمیں بھی چاہئے کہ دنیا کی اس بڑی طاقت پر بھروسہ کریں۔!!