گلاسگو‘ سکاٹ لینڈ کے برٹش نیشنل تیس سالہ سکھ جگتار سنگھ جوہل کے خاندان والوں نے اس کی شادی کا فیصلہ کیا‘ جس کے لئے وہ گزشتہ برس اکتوبر کے آخر میں بھارت پہنچا۔ جگتار سنگھ جوہل کو بلایا تو اس لئے گیا تھا کہ اس کا گھر آباد کیا جائے‘ اور اس کی شادی ہو بھی گئی‘ لیکن اس کی شادی کے چند روز بعد چار نومبر 2017ء کو جگتار جیسے ہی لدھیانہ شہر کی مشہور مارکیٹ رام منڈی پہنچا‘ تو اچانک آٹھ دس لوگ اس کی جانب بڑھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے بازوئوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر ایک بڑی بند جیپ میں پھینکا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔ جیپ میں بند وہ یہی سوچ رہا تھا کہ شاید اسے اٹھانے والوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہی سوچ کر اس نے کچھ دیر چیخ و پکار کی‘ لیکن پھر اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا گیا۔ جیپ تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔ جگتار سنگھ کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ساتھ ایک خوفناک کھیل کھیلا جانے والا ہے۔ ایسا کھیل جس سے اس کی شادی کی خوشیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور اس کا پورا وجود بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے ٹارچر سیلوں میں تختۂ مشق بنایا جائے گا۔ اس کا جسم جگہ جگہ سے چھید کر رکھ دیا جائے گا اور اس کی ہڈیاں چیخ چیخ کر اپنی بقا کی بھیک مانگیں گی۔ جگتار سنگھ جوہل عرف جگی کا قصور صرف یہ تھا کہ برطانیہ اور سکاٹ لینڈ سمیت کینیڈا اور امریکہ میں وہ پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں کے خلاف بھارتی فوج، پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس کے ظلم و تشدد اور ماورائے عدالت قتل پر آواز اٹھایا کرتا تھا۔ برطانیہ اور سکاٹ لینڈ میں اس کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا۔ اس کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات سے برٹش حکومت کو جو معلومات ملیں‘ اس کے مطابق وہ سکھوں کے حق میں امریکہ اور لندن میں کئے جانے والے پُرامن مظاہروں میں اکثر شریک ہوتا رہا تھا‘ لیکن اس کے اکائونٹ سے کبھی کوئی رقم بھارت نہیں بھیجی گئی۔چار نومبر کو بھارتی پنجاب کی پولیس نے جب جگتار سنگھ کو گرفتار کیا‘ تو اس وقت تک اس کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ کہیں بھی درج نہیں تھا۔ سات نومبر کو یہ کہہ دیا گیا کہ جگتار سنگھ کے باقی چار ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے ، انہوں نے پنجاب اور ہریانہ میں کی گئی ٹارگٹ کلنگ کا اعتراف کر لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اسلحہ کی خریداری کے لئے انہیں سرمایہ جگتار سنگھ جوہل نے فراہم کیا تھا۔ یہ کوئی نیا الزام نہیں تھا۔ بھارت کا میڈیا اور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ بھارتی فوج اور مرکزی حکومت کی ایجنسیاں اور پولیس آئے دن سکھ نوجوانوں کو ان کے گھروں اور کالجوں‘ یونیورسٹیوں سے اسی قسم کے الزامات کے تحت اٹھا کر لے جا رہی ہیں۔
جگتار سنگھ کا معاملہ چونکہ ایک غیر ملکی شہریت رکھنے والے برطانوی سکھ کا تھا‘ اس لئے جلد ہی اس کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ میں ان کے رشتہ داروں اور دوستوں تک اس کی گرفتاری اور اغوا کی خبریں پہنچیں‘ تو انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے اس پر سخت احتجاج شروع ہو گیا۔ 16 نومبر کو سینکڑوں کی تعداد میں سکھ ''فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس لندن‘‘ کے باہر جمع ہو گئے‘ جہاں انہوں نے جگتار سنگھ کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں کے اراکین پارلیمنٹ سے رابطے کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ جس طرح جگتار سنگھ جوہل کو ایکسٹرا جوڈیشل کارروائی کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے‘ اسی طرح ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کا شکار بھی نہ بنا دیا جائے‘ کیونکہ بھارتی پنجاب اور لدھیانہ میں سکھوں کا اس طرح کا قتل عام ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے اپنے شہری جگتار سنگھ کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس معاملے سے مکمل باخبر ہیں اور اس سلسلے میں بھارت سے رابطے میں ہیں۔ جیسے ہی بھارتی حکومت کو وزیر اعظم تھریسا مے اور برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ کا اپنے حلقے کے شہری جگتار سنگھ کے بارے میں متحرک ہونے کا پتا چلا تو فوری طور پر اس کے خلاف خالصتان لبریشن فورس سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اسلحہ فراہم کرنے کے سلسلے میں رقم فراہم کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ خالصتان لبریشن فورس کے سکھوں کی جانب سے 2016ء میں ہریانہ اور پنجاب میں مشہور ہندو شخصیات‘ جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے لیڈر اور دائیں بازو کے بریگیڈیئر جگدیش اور راوندر گوسین جیسے انتہا پسند بھی شامل ہیں‘کی جو ٹارگٹ کلنگ کی گئی تھی‘ اس میں استعمال ہونے والے اسلحہ کی خریداری کے لئے جگتار سنگھ جوہل لبریشن فورس کی مالی مدد کرتا رہا ہے... اور اس نے یہ سب پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے کہنے پر کیا تاکہ اس طرح ہندو اور سکھ کمیونٹی میں تفرقات پیدا کئے جا سکیں۔
عدالت میں جگتار سنگھ اور اس کے وکلا نے ہریانہ پولیس کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت کہانی قرار دیا اور بتایا کہ اس سے اقبالی بیانات لینے کے لئے جو بہیمانہ تشدد کیا جا رہا ہے‘ عدالت اس کا فوری نوٹس لے اور جگتار کے طبی معائنے کا حکم جاری کرے۔ جگتار سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر وہ پڑوسی ملک کی ایجنسی کے لئے کام کرتے ہوئے خالصتان لبریشن فورس کے لئے اسلحہ کی خریداری کرتا رہا ہے تو پھر اسے بھارت میں آ کر شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا کہنا تھا کہ چونکہ اس کا دامن صاف تھا اس لئے وہ بلا خوف و خطر سکاٹ لینڈ سے شادی کے لئے بھارت چلا آیا۔ اس نے کہا کہ برطانیہ اور سکاٹ لینڈ میں اس کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ بھارت کلبھوشن یادیو کے معاملے میں پاکستان کے خلاف چاروں جانب سے چڑھائی کئے ہوئے ہے کہ اسے قونصلر رسائی کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے‘ لیکن جب بھارت کی عدالت نے حکم دیا کہ جگتار سنگھ سے اس کے وکیل کی ملاقات کرائی جائے تو پولیس اور را نے اپنی عدالت کے حکم کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے اس کی وکیل سے ملاقات کرانے سے انکار کر دیا۔ جب برطانوی ہائی کمیشن نے جگتار سنگھ جوہل کو اپنا شہری ہونے کے ناتے بھارت کی وزارتِ خارجہ سے اس سے ملاقات کی اجازت مانگی تو برطانوی ہائی کمیشن دہلی کو صاف انکار کر دیا گیا‘ اور جب عدالت نے حکم دیا کہ جگتار سنگھ جوہل کا طبی معائنہ کرایا جائے تو بھارتی حکومت نے اس کی اجازت دینے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ یہاں آ کر بھارت کے انسانی حقوق کے تمام معیار اور دعوے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ شاید بھارتی حکمران خود کو ہر قسم کی جواب دہی اور قاعدے قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ جگتار سنگھ کے بھائی‘ جو سکاٹ لینڈ میں سولیسٹر ہے‘ نے بی بی سی کو بتایا کہ جو لوگ جگتار سنگھ کو میڈیا پر کھلے عام گالیاں دے رہے ہیں‘ ان سے انصاف کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ کوئی راز نہیں بلکہ امیگریشن ریکارڈ گواہ ہے کہ جب بریگیڈیئر جگدیش اور آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کو قتل کیا گیا اس وقت جگتار سنگھ بھارت میں نہیں بلکہ سکاٹ لینڈ میں تھا۔
عدالت میں جگتار سنگھ اور اس کے وکلا نے ہریانہ پولیس کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت کہانی قرار دیا اور بتایا کہ اس سے اقبالی بیانات لینے کے لئے جو بہیمانہ تشدد کیا جا رہا ہے‘ عدالت اس کا فوری نوٹس لے اور جگتار کے طبی معائنے کا حکم جاری کرے۔ جگتار سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر وہ پڑوسی ملک کی ایجنسی کے لئے کام کرتے ہوئے خالصتان لبریشن فورس کے لئے اسلحہ کی خریداری کرتا رہا ہے تو پھر اسے بھارت میں آ کر شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟