وے بلھیا اج مر گیا توں...تیری قبر تے نہ وجے ڈھول
تیرے شہر قصور دے شمراں نے... فیر اک زینب دتی رول
بلھے شاہ جی! آپ کی نگری میں ایک ننھی پری‘ معصوم کلی شیطانیت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ آپ نے دیکھا اور سنا نہیں کہ آپ کے قریب رہنے والی زینب کس قدر پاک اور مقدس تھی کہ ہر آنکھ اس کے غم میں چھلک پڑی۔ دیکھنے اور سننے والا ہر شخص کانپ کر رہ گیا۔ ہر گھر زینب کے غم میں سڑکوں پر نکل آیا، پاکستان کے چیف جسٹس اور آرمی چیف زینب کے سفاکانہ قتل پر چیخ اٹھے۔ ملک کی ہر بار کونسل سراپا احتجاج بن گئی۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے، اس ملک کا ہر فنکار اور کھلاڑی آپ کے شہر کی زینب کے درد پر تڑپ اٹھا اور کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے شہر قصور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ‘ ہر انسان زینب کی آواز بن کر حکمرانوں کی بندوقوں کے سامنے ڈٹ گیا اور تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ شہر قصور خوف اور قہر کی علامت بن کر پولیس کے ضلعی سربراہ کے دروازے تک جا پہنچا اور بلھے شاہ جی کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ جو پولیس کے ڈنڈے سے کانپ جایا کرتے تھے‘ کس طرح گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ڈر کر بھاگنے کی بجائے اپنی بیٹی اور بہن زینب کو انصاف دلانے کی خاطر اپنی جانیں قربان کر تے رہے؟
بلھے شاہ جی آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے پڑوس میں رہنے والی ننھی پری زینب جب شیطانیت کی بھینٹ چڑھی تو اس کے ماں باپ فرمانِ خداوندی کے مطابق عمرہ کی سعادت کے لئے رب عظیم کے حضور حاضر تھے، وہ محبوبِ خداﷺ کے شہر مدینہ کی زیارت کے لئے گھر سے دور تھے۔ شمر کی فطرت رکھنے والے قاتل نے سوچا کہ اس بچی کا اب کون ہے لیکن بلھے شاہ جی آپ نے دیکھا کہ صرف قصور کی ہر بیٹی، ہر بیٹا، ہر ماں اور ہر باپ ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہر گھر زینب کی موت کا ماتم کرنے لگا؟ زینب پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت اور وحشت کا ماتم کرنے کے لئے باہر نکلا۔ لیکن یہاں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، کچھ ایسی بیٹیاں بھی تھیں جنہوں نے فرانس کی ملکہ کی یاد تازہ کر دی کہ جب بھوکے ننگے لوگ‘ فرانس کے بادشاہ کے محل کے گرد جمع ہوئے تو بالکونی سے ملکہ اپنی خادمہ سے پوچھنے لگی کہ یہ لوگ کیوں نعرے لگاتے ہوئے شاہی محل کی جانب پتھر پھینک رہے ہیں؟ خادمہ نے بتایا ملکہ عالیہ! یہ بھوکے ہیں، ان کو روٹی نہیں مل رہی۔ ملکۂ فرانس نے کہا 'ان جاہل اور بیوقوف لوگوں کو بتائو کہ اگر روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھائیں‘‘۔ بالکل اسی طرح رائیونڈ محل سے منسلک ایک رکن قومی اسمبلی ایک ٹی وی چینل پر فرما رہی تھیں کہ ''یہ ماں باپ جو عمرہ کرنے چلے گئے‘ ان کو چاہیے تھا کہ بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہ جاتے، یہ سب ان کی غلطی سے ہوا ہے۔ ان ماں باپ سے پوچھو کہ وہ کیوں گئے؟‘‘۔
ایسا کہنے والے سن لیںکہ زینب کے ماں باپ اسے سڑک پر چھوڑ کر نہیں گئے تھے‘ اس بچی کے بزرگ، رشتہ دار، چچا وغیرہ سب یہیں پر تھے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ زینب جب گھر سے نکلی اور کچھ دیر بعد وہ واپس نہ آئی تو اس کی تلاش شروع ہو گئی۔ اسے ادھر ادھر کے گھروں اور بازار میں ڈھونڈا گیا اور جب سب تلاش کرتے ہوئے تھک گئے تو پولیس کو رپورٹ کر دی گئی۔ اب آگے کا سارا معاملہ اور زینب کی المناک موت کا سلسلہ پنجاب حکومت کی گڈ گورننس اور متعلقہ پولیس تھانے میں اطلاع دینے سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت اگر متعلقہ پولیس تھانے کا ایس ایچ او جو یقینا خود بھی بچوں کا باپ ہو گا، ایک لمحے کے لئے فرض کر لیتا کہ اس کی بھی زینب کی طرح کی ایک ننھی سے بیٹی ہے‘ اگر وہ غائب ہو جائے تو اس کی اور اس کی ماں کی کیا حالت ہو گی؟ اور وہ ایس ایچ او خود کو اس ریا ست کا راجہ سمجھنے کی بجائے ایک باپ اور ذمہ دار پولیس افسر کی حیثیت سے اپنا فرض نبھاتے ہوئے‘ اگر خود نہیں‘ تو کسی اچھے اور تجربہ کار اہلکار کو زینب کے لواحقین کے ساتھ بھیجتا اور وہ سی سی ٹی وی فوٹیج‘ جو بار بار ٹی وی چینلز پر دکھائی جا رہی ہے‘ کی مدد سے زینب کی تلاش شروع کرتا، اسی وقت مقامی مساجد میں زینب اور اس کے پہنے ہوئے کپڑوں کا رنگ بتاتے ہوئے مسلسل اعلانات کرا ئے جاتے تو شاید زینب کے غائب ہونے کے چند گھنٹوں بعد‘ اسے تلاش کر لیا جاتا یا کم از کم اس کی لوکیشن کا کچھ تھوڑا بہت پتا چل جاتا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ بھی پتا چل سکتا تھا کہ کس وقت سفاک شیطان اس جگہ سے زینب کو لئے ہوئے گزر رہا تھا۔ زینب کے گھر کے اردگرد کی گلیوں اور اس وقت کھلی ہوئی دکانوں سے پوچھا جا سکتا تھا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اس وقت سب گلیاں اور بازار سنسان تھے۔ بس یہی وہ غلطی تھی۔ یہی پولیس سٹیشن کے اس ایس ایچ ا و کی لاپروائی تھی جس نے زینب کی جان لی اور پولیس کے محکمے کو مزید بدنام بھی کیا۔ غضب خدا کا! پانچ دن قصور شہر کی پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی‘ بجائے اس کے کہ آج کے دور میں ہر آنے جانے والے کو اٹھا کر وہی سو سالہ پرانی تھرڈ ڈگری کا سہارا لیا جائے، جدید آئی ٹی تکنیک کو استعمال کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ زینب کی لاش پانچ دن بعد کچرے کے ڈھیر سے ملتی ہے۔ قیاس یہ کہتا ہے کہ وہ شخص جس کے ساتھ زینب جا رہی تھی‘ وہ بھی پانچ دن سے گھر سے غائب رہا ہو گا اور اس کے دوست، احباب، جاننے والے بھی ہوں گے تو تھوڑی سی محنت سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اردگرد کی آبادی میں وہ کون سا شخص ہے جو تین‘ چار دن گھر سے غائب رہا۔ وہ کہاں تھا؟ بوری میں بند زینب کی لاش کے بارے میں پتا کیا جا سکتا ہے کہ وہ دن کے وقت پھینکی گئی یا رات کے اندھیرے میں۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ رات کے اندھیرے میں پھینکی گئی ہو گی۔ اگر اس علاقے میں لوڈ شیڈنگ کا کوئی معمول ہے‘ تو ممکن ہے کہ قاتل نے نالے تک جانے کے لئے وہ وقت منتخب کیا ہو؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جگہ سے کتنی دور رہ رہا ہے۔ اگر رات کو اس نے اس جگہ کا رخ کیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ چوکیدار کی اس پر نظر پڑی ہو، اس سے پوچھا جا سکتا ہے۔ لاش کی برآمدگی والی جگہ کے اطراف میں موجود راستوں پر‘ ممکن ہے کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج مل جائے کیونکہ اب تو اکثر لوگوں نے اپنے گھروں میں بھی کیمرے لگائے ہوئے ہیں۔
خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف تسلیم کر لیں کہ پنجاب میں امن عامہ کی خرابی کی اصل وجہ وہ خود اور ان کی پوسٹنگ و ٹرانسفر کی پالیسیاں ہیں۔ جب تک ڈی پی اوز اور ایس ا یس پی رینک کے افسران کی پوسٹنگ کا مکمل اختیار آئی جی پنجاب کو نہیں دیا جائے گا، تب تک ہر ضلع میں قصور جیسے ہی ڈی پی او تعینات ہوتے رہیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جو انکوائری کر رہے ہیں‘ اس میں یہ بھی دیکھیں کہ بطور ڈی پی او قصور تعینات کئے جانے ذوالفقار احمد کا سی وی کیا کہتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ انہیں قصور میں تعینات ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات کے لئے مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کریں تو غلط نہیں ہو گا۔ یہی اصل وجہ ہے کہ چن چن کر تھانوں میں ایسے پولیس افسران لگانے شروع کر دیئے گئے ہیں جن کے نام کی پرچی‘ متعلقہ ایم این اے یا ایم پی اے کی جانب سے تھمائی جاتی ہے۔ وہ ڈسٹرکٹ پولیس افسران جو حکومت وقت کے احکامات کی تکمیل میں دن رات ایک کرنا اپنا فرض اولین سمجھیں‘ انہیں اور ان کے ماتحت اہلکاروں کو زینب کی کیا پروا ہو سکتی ہے؟ نئے ڈی پی او مروت صاحب کو اپنی نیک نامی اور پولیس کی ساکھ بحال کرنے کے لئے قصور کے تھانوں کی پوری لاٹ کو تبدیل کرنا ہو گا!