مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں‘ پہلے گریڈ سے بائیسویں گریڈ تک کے سول، پولیس اہل کاروں اور افسران کی ریٹائرمنٹ کی عمر کیا 36 سے چالیس برس تک ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت سمیت پاکستان میں ان کے ہمنوا دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ 36 برس کی عمر میں ریٹائر ہونے کے بعد فوج کے جوان اپنی باقی ماندہ زندگیاں کس طرح گزاریں گے؟ چھتیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر فوجی فائونڈیشن یا عسکری سیمنٹ انشورنس یا بینک سمیت مختلف صنعتی ادارے افواج پاکستان کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں تو کبھی کسی نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان میں کتنے لاکھ سابق فوجی اور ان کے بچے کام کر رہے ہیں؟ کیا کوئی بھی تین چار بچوں کی فیملی اپنے والدین کے ہمراہ صرف پنشن میں گزارہ کر سکتی ہے؟ کسی بھی سیاسی حکومت نے کسی جنگ، فوجی آپریشن، دہشت گردوں کے حملوں یا کسی حادثے میں زخمی اور معذور ہونے والے افسروں اور جوانوں کی بحالی کے کوئی ادارے قائم کئے ہیں؟ اگر ان کے لیے فوج نے صنعتی یا کمرشل ادارے قائم کئے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ فوج بھی 30-35 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے اپنے ان جوانوں کو بے آسرا چھوڑ دے؟
سچ زیا دہ دیر مخفی نہیں رہ سکتا، اس نے ایک دن ظاہر ہو کر رہی رہنا ہے۔ پاکستان نیوی سے اپنی مشکوک حرکات کی بنا پر نکالی جانے والی بہاولپور کی عائشہ صدیقہ نامی خاتون‘ جو آج دنیا بھر میں فری بلوچستان کے نام سے تحریک چلا رہی ہے، نے آج سے گیارہ برس قبل مارچ 2007ء میں اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف‘ عدلیہ تحریک کے بینر تلے افواج پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے MILITARY INC. کے نام سے لکھی جانے والی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام کیا تھا۔ کل تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ کتاب اس کی اپنی لکھی ہوئی ہے لیکن بھارت سے اب ایک ایسا آرٹیکل سامنے آیا ہے‘ جس سے گیارہ برس پرانے وہ خدشات سچ ثابت ہو رہے ہیں کہ یہ کتاب بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے مرتب کرنے کے بعد پاکستان سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کے نام سے متعارف کرائی گئی تاکہ اس میں شامل کئے گئے فوج مخالف ابواب کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ شہرت مل سکے۔ آج گیارہ برس بعد Military Inc. کا اصل مصنف‘ لومڑی جیسی عیار اور چالاک بھارتی حکومت کی ایک غلطی سے سامنے آ چکا ہے۔ مجرم چاہے کتنا ہی پکا مجرم ہو‘ اس نے اپنے جرم کے ارتکاب سے پہلے اپنے طور پر کتنی ہی احتیاط کیوں نہ کی ہو‘ لیکن وہ موقع واردات پر کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور کر جاتا ہے جو اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ مذکورہ کتاب کی تقریبِ رونمائی کی گئی تو بڑے بڑے وکلا لیڈر‘ جو صبح شام ریاست کو ماں جیسی بنانے کے نعرے اور ترانے گاتے ہوئے قوم کو بیوقوف بنا رہے تھے، نے پی پی پی اور نواز لیگ کے ساتھ مل کر بھارت کی مدد سے ا س کتاب کو اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں پھیلایا۔ اس عمل سے ہی لگ رہا تھا کہ یہ سب بھارت کے ساتھ مل کر فوج کو بدنام کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
اس وقت میں نے ایک قومی اخبار میں لکھے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مذکورہ خاتون نے عدلیہ تحریک کا آغاز ہوتے ہی‘ ملک کے ریاستی اداروں کے خلاف اس کتاب کی لانچنگ کا جو موقع منتخب کیا ہے‘ اس سے صاف لگ رہا ہے کہ اس کے پسِ پردہ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں اس وقت عدلیہ تحریک سے اچانک مشہور ہو جانے والے بعض حضرات اور پاکستان کی چند این جی اوز کے علاوہ ''ترقی پسندوں‘‘ کا گروہ بھی شریک تھا‘ جس نے اس تقریب میں دل کھول کر افواج پاکستان سے اپنے بغض اور مذموم ایجنڈے کا اظہار کیا۔ان کی باتیں سنتے ہوئے لگتا تھا کہ پاکستان میں سب سے ایماندار یہی مقررین ہیں اور ملک بھر میں جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس کی ذمہ داری بیورو کریسی اور سیاستدانوں پر نہیں عائد ہوتی بلکہ کوئی اور ہی جن بھوت ہیں جو ملک کو لوٹ رہے ہیں۔
افتخار چوہدری اور ان کے ہمدردوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے مذکورہ کتاب کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ ہر امریکی اور برطانوی اخبار میں اس کتاب کو نمایاں جگہ دی جانے لگی جس کا سلسلہ کئی ماہ بلکہ کئی برس تک چلتا رہا۔ وجہ سب جانتے ہیں کہ جب معاملہ پاکستانی فوج پر گند اچھالنے کا ہو تو پھر برطانیہ‘ یورپ اور امریکہ سمیت بھارت اور اسرائیل بھی‘ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن برا ہوا بھارت کے ایک ریٹائرڈ جنرل کا جس نے اپنے آرٹیکل میں اس کتاب اور مصنفہ کے گٹھ جوڑ کا بیچ چوراہے میں بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
انڈین آرمی کے ریٹائر جنرل کمال داور کا مشہور انڈین نیوز ویب سائٹ THE QUARTZ میں '' INSIDE PAKISTAN'S BIGGEST BUSINESS CONGLOMERATE; THE PAKISTAN MILITARY‘‘ کے عنوان سے ابھی حال ہی میں لکھاکالم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کی ایک ایک سطر پڑھ کر دنگ رہ گیا کہ بہاولپور کی مصنفہ کی کتاب اور بھارتی فوج کے اس جنرل کے آرٹیکل کے الفاظ اور حوالے‘ ایک ہی ذہن‘ ایک ہی سوچ اور ایک ہی مقصد کی پیدا وار ہیں۔ جو زہر پاکستان نیوی سے برطرف کی جانے والی مصنفہ نے اپنے نام سے شائع کی جانے والی کتاب میں اُگلا ہے‘ اسی کا اعادہ انڈین آرمی کے جنرل دارو نے اپنے آرٹیکل میں کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی فوج کمرشل اور صنعتی یونٹس چلا رہی ہے۔ فوجی فائونڈیشن کسی فضا میں نہیں‘ کسی ہیولے کی صورت نہیں‘ سمندر کی کسی تہہ میں نہیں بلکہ اسی زمین پر‘ سب کے سامنے کام کر رہی ہے۔ یہاں پر بہت سے فنی تعلیمی ادارے ہیں جو سابق اور حاضر سروس فوجیوں کے بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم سے بہرہ مند کر رہے ہیں۔ وہ فوجی جوان اور افسر جو کسی جنگ، آپریشن یا حادثے کی صورت میں معذور یا شدید زخمی ہونے ہر فوج سے قبل از وقت ریٹائر کر دیئے جاتے ہیں‘ انہیں مصنوعی اعضا مہیا کیے جاتے ہیں‘ تاکہ وہ زندگی کے سفر پر باآسانی چل سکیں۔
ایسے سابق فوجی‘ جو معذور ہو جاتے ہیں، انہیں بری‘ بحری اور فضائی افواج کے سکولوں، کالجوں، صنعتی اور کمرشل اداروں میں روزگار مہیا کیا جاتا ہے تاکہ وہ جوانی کے آغاز میں ہی ریٹائر یا معذور ہونے والے اپنے ساتھیوں کے ساتھ باعزت طور پر جی سکیں۔ کبھی کسی پولیس یا سول ملازم نے فوجی فائونڈیشن کا نام سن کر منہ بنانے والوں سے پوچھا ہے کہ آپ تو 60 برس کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں لیکن یہ فوجی سپاہی‘جو 36 برس کی عمر میں ریٹائر ہو رہا ہے‘ اس کا بھی تو خاندان ہے، یہ آپ سے24 برس پہلے ریٹائر ہو رہا ہے۔ آپ نے ابھی لمبی نوکری کرتے ہوئے ترقیاں لینی ہیں، مگر ان نوجوانوں کا کیا ہو گا کہ فوج کی نوکری کے بعد جس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ اسے تو سولجری کے علاوہ اور کوئی ہنر بھی نہیں آتا۔