کیا دنیا بھر نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دنیا کی بڑی ایٹمی قوت پاکستان کے وزیر اعظم کو جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر امریکی اہل کاروں نے اپنے قوانین کے احترام کے نام پر بے جا تلاشی کے عمل سے گزارا؟۔ وہ منا ظر صرف ہم نے نہیں دنیا بھر نے دیکھے ۔۔۔کیا آج تک کسی بھی ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ اس قسم کا سلوک امریکی ایئر پورٹ پر کیا گیا ہے؟ اگر امریکہ کو اپنے قوانین کا اس قدر احترام ہے کہ ان کی نظروں میں پاکستان اور اس کے وزیر اعظم کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر امریکہ کے جوزف نامی ایک کرنل کو پاکستانی قوانین کے مراحل سے گزرتے دیکھ کر چیخ پکار کی کیا ضرورت ہے ؟۔کیا امریکہ کا ایک عام کرنل پاکستان کے آئینی اور جمہوری طریقے سے منتخب وزیر اعظم سے زیا دہ مقدس ہے؟۔کیا پاکستانی قانون امریکی قوانین کے مقابلے میں ریت کا ڈھیر ہے؟۔ کیا بائیس کروڑ پاکستانیوں پر مشتمل دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ایک امریکی کرنل کے سامنے بے بس ہے؟۔جس طرح امریکیوں کو اپنے دفاعی اتاشی کرنل جوزف کو اسلام آباد سے کہیں باہر جانے کی ممانعت پر غصہ آ رہا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے وزیر اعظم کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر ابھی تک سخت غصہ ہے۔شاہد خاقان عبا سی کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو وہ بے شک خود کو وزیر اعظم نہ سمجھتے ہوں اور ممکن ہے کہ انہوں نے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر یہ بتایا ہی نہ ہو کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔لیکن کیا عبا سی صاحب کے نہ بتانے کے مفروضہ پر چپ سادھ لی جائے؟۔کیا ہم بے خبر ہیں کہ امریکیوں کے پاس اپنے ملک میں آنے والی ہر فلائٹ کے مسافروں کا ڈیٹا پہلے سے ہی پہنچ چکا ہوتا ہے۔۔۔اس لئے کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی تمام ایجنسیوں کو علم تھا کہ جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر سب کے سامنے تلاشی کے عمل سے گزارا جانے والا یہ شخص پاکستان کا وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی ہے اور یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے پاکستان کو رسوا کیا گیا تاکہ پاکستان کو بتا دیا جائے کہ امریکیوں کی آج کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی کیا اہمیت ہے؟۔
17 اپریل کو ایک چینل پر حالات حاضرہ کے پروگرام میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بارے گفتگو کی جا رہی تھی جس میں امریکی دفتر خارجہ کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکی حکومت نے واشنگٹن میں یکم مئی سے پاکستان کے سفارتی اہلکاروں کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کا فیصلہ کیاہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ چونکہ پاکستان نے اسلام آباد میں امریکی سفارتی عملہ کی نقل و حمل پر پابندی لگادی ہے اس لئے ہم نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے ان کے آزادانہ گھومنے پھرنے کو محدود کر دیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے اس پروگرام کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ کا اس میں کوئی قصور نہیں اس سلسلے میں اسے کوئی الزام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ احکامات دینے پر پاکستان نے ہی اسے مجبور کیا ہے۔۔۔۔۔چاہئے تو یہ تھا کہ اس پروگرام میں کوئی غیر جانبدار شخص بھی بلایا جاتا جو اپنے سامعین کو بتاتا کہ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے بالکل غلط ہے۔ پاکستان نے کسی امریکی سفارتی اہل کار کی نقل و حمل پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی سوائے اس کے دفاعی اتا شی کرنل جوزف کے جس نے اسلام آباد جیسے سفارتی شہر میں تیز رفتاری اور سگنل توڑتے ہوئے ٹریفک قوانین کی بد ترین خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نو جوان مو ٹر سائیکل سوار کو کچل کرہلاک کیا اور کرنل جوزف کے خلاف اسلام آباد پولیس میں اس ضمن میں باقاعدہ مقدمہ درج ہو چکاہے۔اس پروگرام میں جس جنیوا کنونشن کا حوالہ دیا جا رہا تھا کاش کہ اس پروگرام کو پیش کرنے والے حضرات یہ بھی اپنے سامعین کو بتادیتے کہ '' جنیوا کنونشن میں درج ہے کہ تمام سفارتی مشن اس ملک کے قوانین کا احترام کریں گے اور کوئی بھی اس ملک کے قوانین سے بالا تر نہیں ہو گا۔ایسے میں پاکستان کے قانون نافذکرنے والے ادارے کرنل جوزف کی لاپروائی سے چلائی جانے والی تیز رفتار گاڑی کے نیچے آ کر کچلے جانے والے نو جوان کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کے بعد اس کی تفتیش اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
1961ء کے ویانا کنونشن کی شق3.4 میں درج ہے '' شراب نوشی اور ڈرائیونگ‘‘ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے3.4.1 میں واضح طور پر درج ہے کہ متعلقہ پولیس افسر اگر چاہے تو کسی بھی ٹریفک حادثے کی صورت میں گاڑی چلانے والے سفارتی اہلکار کا اس شبہ میں طبی معائنہ کر اسکتا ہے کہ کہیں اس نے شراب تو نہیں پی ہوئی تھی۔اور کسی بھی سفارت کار کی وہ گاڑی جو حادثے کا سبب بنی ہو اس میں سوار سفارتی عملے کو استثنا حاصل ہے لیکن اس گاڑی کو نہیں چاہے وہ کسی سفیر ہی کی کیوں نہ ہو۔۔۔پھر اسلام آباد پولیس نے اس گاڑی کو کیوں جانے دیا جس کے نیچے ایک پاکستانی نوجوان بے گناہ کچلا گیا ۔
امریکہ کا دفاعی اتاشی کرنل جوزف کا موٹر سائیکل سوار کو سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی تیز رفتار گاڑی کے ذریعے کچلنا اور پھر ان کو فوری طبی امداد مہیا کرنے کیلئے کسی قریبی ہسپتال لے جانے کی بجائے موقع سے فرار ہونے کی کوشش کرنا۔۔۔قانونی اور اخلاقی طور پر بہت بڑا جرم ہے۔۔ممکن ہے کہ ا س وقت کرنل جوزف شراب کے نشے میں ہوں اور ان سے گاڑی کنٹرول نہ ہو سکی ہو تبھی تو انہوں نے قانون کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹریفک سگنل پر رکنے کی بجائے اندھا دھند موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا۔ ویانا کنونشن کی مذکورہ شق میں بڑی وضاحت سے لکھا ہوا ہے کہ اگر ٹریفک حادثے کے ذمہ دار سفارت کار نے Immunity کلیم بھی کر لی ہو تب بھی وہ پابند ہے کہ پولیس افسر کو یقین دلائے کہ وہ نشے کی حالت میں نہیں اور وہ شراب پئے ہوئے گاڑی نہیں چلا رہا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے کس قانون کے تحت کرنل جوزف کو اس کا طبی معائنہ کرائے بغیر وہاں سے جانے دیا؟۔کیونکہ ویاناکنونشن میں درج ہے کہ ٹریفک حادثے کی صورت میں اس میں ملوث سفارت کار کا کسی سڑک پر معائنہ نہیںہو گا بلکہ ا س کیلئے اسے پولیس سٹیشن لے جا نا ہو گااور اسلام آباد پولیس نے یہ جانتے ہوئے کہ لاپروائی اور تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک شخص ایک نو جوان لڑکے کو ہلاک کر دیتا ہے اور اس کا طبی معائنہ ہی نہیں کرایا جاتا اور اسے وہیں سے گھر جانے کی اجا زت دے دی جاتی ہے بلکہ اسے امریکی سفارت خانے تک اسکارٹ کرتے ہوئے عزت و احترام سے لے جایا جاتا ہے۔
Diplomatic immunity may be intended to keep diplomates from running a foul of local authorities while serving abroad, but some take it as a license to act like JERKS.۔۔۔اب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر سفارت کاروں کو صرف نیو یارک کی اقوام متحدہ آفس سے منسلک پارکنگ کی بات کی جائے تو صرف1996 میں 143508 ٹریفک چالان کئے گئے اور سفارتی اہلکاروں سے15.8 ملین ڈالر جرمانہ وصول کیا گیا۔۔۔ان میں سے صرف روس کے سفارت کاروں کے32 ہزار چالان کئے گئے۔
امریکہ کو شاہ محمد دوست نامی افغان سفارت کار کا 1987ء کا واقعہ یاد ہو گا جب اس نے Queens میں پارکنگ کی جگہ نہ ملنے پر ایک امریکی خاتون پر گاڑی چڑھا دی اور اس کے افغان سفارت کار ہونے کے با وجود اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔۔۔!!