اکتوبر1993 ء کے انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں پی پی پی کی حکومت قائم ہوئے ایک ماہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ملک کے ایک بہت بڑے صنعت کار اور بینکر بننے والے کو مرد ِحر کی جانب سے پیغام ملا کہ فورا ''میرے دربار میں حاضری دو۔یہ پیغام ملتے ہی صنعت کار اور نئے نئے بینکر کی بھاگ دوڑ شروع ہو گئی اور انہوں نے ایک ایسے سینیٹر سے جو آج اس دنیا میں نہیں اورجن کے بارے میں سب جانتے تھے کہ گلبرگ میں واقع ان کے گھر میںمحترمہ بے نظیر بھٹو قیام کیا کرتی تھیں، اس صنعتی شخصیت کی درخواست پر مبینہ طور پر16 کروڑ ( دسمبر 1993ء میں) کا سودا طے ہو گیا۔ مقررہ دن اس شخصیت نے جس کا اپنا طیارہ تھا،اس مرحوم سینیٹر کو اپنے ساتھ لے کر اسلام آباد روانگی کیلئے فون کیا تو نہ جانے کیا ہوا کہ عین وقت پر اس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ ساتھ کیوں نہیں گئے ‘ان کا جواب تھا کہ مجھے اچانک خیال آیا کہ ساتھ جانے سے ہو سکتا ہے ،اسلام آباد کے بڑے صاحب کے دل میں آ جائے کہ میں نے لازمی اپنا حصہ وصول بھی کیا ہو گا۔بار بار درخواست کرنے پر سینیٹر کی طرف سے معذرت کرنے پر وہ شخصیت مایوس ہو کر اکیلے ہی اسلام آباد مردِ حر کے دربار میں پہنچ گئی اورجب وہاں سے واپسی ہوئی تو اس سینیٹر سے سخت شکوہ کیا کہ آپ کے ساتھ نہ جانے سے پہلے‘ سے طے شدہ رقم سے ڈبل، یعنی 32 کروڑ روپے ادا کرنا پڑے ہیں ۔ وہ سینیٹر کہتے ہیں کہ چند روز بعد جب اسلام آباد میں مردِ حر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا :تمہارے دوست سے ڈبل اس لئے لیا کہ اس نے نیلامی میں یونٹ بھی تود ولیے تھے؟آپ لازمی جاننا چاہیں گے کہ مردِ حر نے اس صاحب سے بتیس کروڑ روپے کیوں وصول کیے تھے؟اس کیلئے 2 نومبر1992ء نوائے وقت، کراچی میں شائع ،اس رپورٹ کو سامنے رکھنا ہو گا ،جس کے مطابق '' نواز شریف جب 1990ء میں
پہلی بار و زیر اعظم بنے، تو پرائیویٹائزیشن کمیشن نے60 کروڑ میں سیمنٹ فیکٹریوں کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا اور معاہدے کے مطابق متعلقہ خریدار نے کل قیمت کا40 فیصد یعنی 24کروڑ روپے ادا کرنے تھے جبکہ بقایا رقم تین سال بعد ادا کرنی تھی ' خریدار‘ نے18 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی دی، اس طرح' خریدار‘ کے ذمے ادائیگی کی باقی رقم6 کروڑ رہ گئی ۔ اس ضمن میںیہ دلچسپ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بیچی جانے والے اس سیمنٹ فیکٹری کے اکائونٹ میں اس وقت 10کروڑ روپے پہلے ہی سے موجود تھے اس لیے فیکٹری کے ' خریدار‘ نے ا ن دس کروڑ میں سے 6 کروڑ روپے نکلوا کر حکومت کو ادا کر دیئے اور اس طرح اپنے ہاتھ سے ایک پائی بھی نہ دیتے ہوئے 'خریدار‘ کو 1992ء میں چار کروڑ کا مفت میںمنافع بھی گھر بیٹھے حاصل ہو گیااور جب اس سیمنٹ فیکٹری کی نجکاری مکمل ہوگئی، تو فیکٹری کے اندر موجود ٹنوں کے حساب سے موجود سیمنٹ بھی 'خوش قسمتی سے اس خریدار کی ملکیت ‘میں آگیا اور پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دو ہفتوں بعد ہی نواز حکومت کے حکم سے سیمنٹ کی فی بوریی قیمت میں 20 روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔‘‘
یہ ہوتا ہے، خلائی مخلوق کا کمال!ان سیمنٹ فیکٹریوں کی نجکاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں پاکستان کے مشہور بینکر یونس حبیب بھی شامل تھے، لیکن انہیں ہرمرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یونس حبیب جو وقفے وقفے سے پاکستان کی سیا ست میں تہلکہ مچا تے رہے ہیں، ان کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے کہ یونس حبیبـ جب ایک بینک کے صوبائی سربراہ بنا ئے گئے، تودن بدن ان کی شاہ خرچیاں اور من مانیاں بڑھتی گئیں ،جس پر 27 ستمبر1991 ء کو اس بینک کے صدر مقبول سومرو نے یونس حبیب کو بلا کر کہا کہ حکومت کی طرف سے مجھ پر سخت دبائو ہے کہ آپ کو فارغ کر دیا جائے اور پھر چاراکتوبر کو جب یونس حبیب ابھی سکھر میں تھے ،ان کی بر طرفی کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ یہ احکامات ملتے ہی یونس حبیب نے اپنے مربی و محسن جام صادق سے رابطہ کیا ۔جام صادق8 اکتوبر کو اسلام آباد جا کر وزیر خزانہ سرتاج عزیز اور وزیر اعظم نواز شریف سے اس کی سفارش کیلئے ملے اور تب بینک کی انتظامیہ نے یونس حبیب سے رابطہ کیا اور کہا کہ ان کی بر طرفی کا حکم واپس لے لیا گیا ہے، لیکن اس کا پس منظر یہ ہے کہ جام صادق نے مقبول سومرو کے بیٹے کو اغواء کرواکر وزیر خزانہ سرتاج عزیز کو کہا کہ اگر مقبول سومرو کا بیٹا واپس چاہتے ہو،تو یونس حبیب کو بحال کرو۔
تاہم بینک کی جانب سے آئے دن کی پابندیوں سے تنگ آ کر نومبر1991ء میں یونس حبیب نے جام صادق کی مدد سے ایک اور بینک کی بنیاد رکھی اور سپانسر کی حیثیت سے ممتاز کاروباری افراد کو منظم کر کے خود بینک کا چیف آپریٹنگ آفیسر بن گیا حالانکہ اسٹیٹ بینک نے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اس کے نام کی منظوری بطور چیف آپریٹنگ آفیسر نہیں دی تھی ۔اس بینک کا با قاعدہ آغاز بائیس جنوری1992 ء کو ہوا، تو اس وقت اس کا ادا شدہ سرمایہ اور محفوظات کی کل مالیت60کروڑ روپے تھی، جو اس زمانے کی اچھی بھلی رقم تھی۔ اس کے دس فیصد حصص پریمیم پر فروخت ہوئے یوں دوسرے بینکوں پر اسے30کروڑ کی فوقیت رہی سرمایہ حصص سے عوام نے30کروڑ روپے کی خریداری کی جبکہ سپانسرز اور ڈائریکٹرز کے30کروڑ کی سرمایہ کاری کا بندوبست یونس حبیب نے ایک اسلامک بینک سے قرض لے کر پورا کیا۔اس بینک اور یونس حبیب کی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس کی افتتاحی تقریب میں جام صادق کے ساتھ پیر پگاڑا مر حوم بھی تھے۔ یونس حبیب نے پیر پگاڑا سے سیا سی تقریر نہ کرنے کی درخواست بطور خاص کی، لیکن افتتاحی تقریر میں ان کا یہ مزاحیہ جملہ زبردست قہقہوں سے سنا گیا کہ ''یہ بینک شریفوں کا بینک ہے، جو شریفوں کو قرضے دے گا، مگر نواز شریف کو نہیں‘‘ ان الفاظ سے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی ناراضی میں مزید اضافہ ہو گیا کیونکہ وہ تو پہلے ہی یونس حبیب سے سخت ناراض تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ایک منظور نظر بینک کے مقابلہ میں یہ بینک مستحکم ہو ،انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یونس حبیب جس کے ساتھ اس وقت آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی شراکت داری تھی۔ ایک بینک کی نجکاری کیلئے سب سے زیا دہ بولی دینے والوں میں سے تھا، لیکن اس کے با وجود وہ بینک '' اس شخصیت کو دے دیا گیا، جن سے مرد ِحر نے دسمبر 1993ء میں 32 کروڑ روپے اپنے حصے کے طور پر وصول کئے تھے ۔
یونس حبیب کو سیمنٹ فیکٹریوں اور بینکوں کی نجکاری میں حکومتی امیدواروں کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حاصل لینے پر سخت قسم کا دبائو بھی ڈالا گیا، لیکن جب وہ باز نہ آیا، تو1991ء میں اس کے گھر پر حملہ کیا گیا۔ اس کے ملازمین کو مارا پیٹا گیا اور جاتے ہوئے پیغام دیا گیا کہ وہ بینک جسے پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے ،اس کے معاملے سے الگ ہو جائو۔۔۔۔یونس حبیب سے نواز شریف کی ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے بینک نے مختلف صنعتی یونٹوں کی نجکاری میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے حکومتی منصوبوں کو پریشان کر رہا تھا اور حکومت میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کو بری طرح کھٹکنے لگا تھا ۔ ڈی جی خان سیمنٹ، گڑھی وال سیمنٹ، کوہاٹ سیمنٹ اور سندھ انجینئرنگ جیسے پراجیکٹس میں یونس حبیب کا حصہ لینا، اس کا بہت بڑا جرم بن چکا تھا ! !