"MABC" (space) message & send to 7575

کلنٹن کے پانچ ارب ڈالر

پنجاب بھر میں قریباً اپنے ہر جلسے اور جو ہر ٹائون‘ لاہور میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ '' امریکی صدر کلنٹن نواز شریف کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے پانچ ارب ڈالر دے رہا تھا‘ لیکن ہم نے اس کی یہ پیشکش ٹھکرا کر پانچ دھماکے کئے‘‘۔ یہی بات نواز شریف نے امسال 28 مئی کو لاہو رمیں کہی کہ'' اگر میں بے ایمان ہوتا‘ مجھے کرپشن کرناہوتی‘ تو میںامریکی صدر کلنٹن کی ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں پانچ ارب ڈالر کی پیشکش قبول کر لیتا‘‘۔
یہ دعویے کرنے والوںکو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اب سب جان گئے ہیں کہ اگر آپ کو پانچ ارب ڈالر ملتے‘ تو ان میں سے کم ازکم ایک ارب ڈالرتو آپ نے چپکے سے اپنی جیب میں ڈال لینے تھے ۔اورمیاں نواز سے یہ کہنا ہے کہ 22 مئی 1998ء کو بل کلنٹن سے ‘جو بات چیت ہوئی‘وہ آپ کو ایک بار پھریاد کروانے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ دروغ گو را حافظہ نہ باشد ‘ یعنی جھوٹ بولنے والے کا حافظہ نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے تو ایک بار پھر سن لیجئے کہ کلنٹن نے نہیں‘ بلکہ وہ فون خود آپ لوگوں نے اسے کئے تھے۔ جمعہ22 مئی1998ء کی رات دس بجے امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس قوم اور آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور چیلنج کر رہا ہوں کہ اسے غلط ثابت کریں‘ ورنہ خدا کیلئے بہت ہو چکا ‘اب تو جھوٹ بولنا چھوڑ دیجئے۔اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ گفتگو نہیں ہوئی‘ تو ثبوت میرے پاس موجود ہے ہر جگہ حاضر ہوں ۔
امریکی صدر بل کلنٹن سے اس رات سابق وزیر اعظم کی فون پر ہونے والی گفتگو سن کر آپ کے حمایتی بھی فیصلہ کر لیںکہ وہ کون سے پانچ ارب ڈالر تھے‘ جو وہ آپ کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض بطورِ انعام دینے کی پیشکش کر رہے تھے ۔ 22 مئی 1998ء کی رات دس بجے امریکی صدر بل کلنٹن سے فون پر آپ نے کہا : '' جناب صدر! نیک خواہشات اور آداب‘‘ جس پر امریکی صدر بولے: '' جناب پرائم منسٹر آف پاکستان‘ شکریہ! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ سوموار کو آپ سے ہونے والی گفتگو کے بعد بہت مصروف رہا ‘‘۔ آپ نے بل کلنٹن سے کہا : جناب ِ صدر‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دیئے گئے ایجنڈے پر ہو بہو عمل کیا جائے‘ تواس کیلئے میرا پاکستان میں وزیر اعظم رہنا بہت ہی ضروری ہے‘ کیونکہ یہاں پاکستان میں اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو‘ میرے لئے بہت سی مشکلات پیدا کرنے کے علا وہ میرے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں‘ لیکن مجھے امید ہے کہ میں اس دبائو کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہوں‘‘۔ ا ب کسی جاہل سے نہیں‘ بلکہ پاکستان کے ہر با شعور شہری سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب کہاں کے ایٹمی دھماکے اور کہاں میاں نواز شریف‘ امریکی صدر بل کلنٹن سے فون پر امریکی ایجنڈا پورا کرنے کیلئے درخواست کر تے ہوئے بھیک مانگ رہے تھے کہ جناب آپ مجھے پاکستان کا و زیر اعظم رہنے دیں‘ کیونکہ بے نظیر بھٹو مجھے پریشان کر رہی ہیں ۔
میاں صاحب‘ جب آپ نے فون پر امریکی صدر کلنٹن سے خود کو وزیر اعظم کے عہدے پر قائم رکھنے کی درخواست کی‘ تو آپ کو یاد ہو گا کہ اس پر بل کلنٹن نے کہا تھا '' نواز! کچھ چیزیں جن کے بارے ہم نے آج بات کی ہے‘ آپ کو اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے ساتھ بات کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی‘‘۔ اس پر آپ نے بل کلنٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا ''جناب صدر میں آپ سے پھر رابطہ کروں گا‘‘۔
اب بات کرتے ہیں اس مشہور نعرے کی ‘ جس کا اب تک نا جانے کتنی مرتبہ تذکرہ کرتے ہوئے کہا جا چکاہے کہ '' ہم نے امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض پانچ ارب ڈالر‘ ٹھکرا دیئے‘‘۔میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی سمیت کچھ پاکستانی ‘اگر اس کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں‘ تو اس کیلئے کلنٹن ‘نواز گفتگو کے اگلے حصے کو سنئے‘ جس میں امریکی صدر بل کلنٹن ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے میں کیا یہ پانچ ارب ڈالر پاکستان کو تحفے میں دینے کی بات کر رہا تھا‘ جس میں بقول میاں صاحب؛ وہ آسانی سے ایک ارب ڈالر کی خرد برد کر سکتے تھے۔ حقیقت کو سامنے رکھ کر سننے کی کوشش کریں کہ ان پانچ ارب ڈالر کی حقیقت کیا ہے۔
22 مئی 1998ء کی رات دس بجے کلنٹن سے آپ کی فون پرہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ یہ ہے ؛ امریکی صدر بل کلنٹن نے آپ سے کہا '' اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرتے ‘تو مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی سب سے بڑی سکیورٹی کا انحصار پاکستان کی مضبوط معیشت پر ہو گا۔ میں نے اپنے محکمۂ خزانہ کو ہدایت جاری کر دی ہے‘ اس طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں خاص طور پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے رابطہ کر کے اگلے تین سالوں کے دوران تین سے پانچ ملین ڈالرز سرمائے کی اقتصادی معاونت آپ تک پہنچ سکتی ہے‘‘۔ امریکی صدر کلنٹن نے فون پر آپ سے کہا تھا ''اگر آپ کو اس کے علا وہ کوئی باہمی اقتصادی تعاون کی ضرورت ہو تو ہم ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ایجنسی یا اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن سے بھی بات کر سکتے ہیں‘‘۔
بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو کو یہاں روک کر ایک سوال سب سے پوچھ رہا ہوں کہ قرضہ لینا کون سا مشکل ہے؟اگر کسی کے پاس زیور یا گھر ہے یا زمین ہے‘ تو وہ چند دنوں میں کسی بینک کے پاس اسے گروی رکھ کر قرضہ لے سکتا ہے۔کیا یہ ایٹمی دھماکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے ان پانچ ارب ڈالرز ملنے والے قرضوں کی صورت میں دھماکے نہ کرنے کے عوض روکے جا رہے تھے ‘جو اسی وقت نہیں‘ بلکہ اگلے تین برسوںکے دوران ملنے کی توقع تھی؟جناب ! بل کلنٹن سے گفتگو کرتے ہوئے جب آپ نے پاکستان پر واجب ادا قرضوں کی معافی کی بات کی‘ تو اس نے آپ سے یہ کہا تھا ''میں کچھ قرضے معاف کرنے کے امکانات پر غور کر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ کرنا چاہئے‘ لیکن اس کیلئے امریکی قانون کے مطا بق مجھے کانگریس سے اس کی منظوری لینی پڑے گی۔ پچھلے 72 گھنٹوں میں مجھے اتنا وقت نہیں مل سکا کہ میں اس معاملے میں کانگریس کا رد عمل دیکھ سکوں‘اس لئے میں وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں یہ کر سکوں گا۔ہاں !جو میں آپ سے وعدہ کر سکتا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ میں اس کی سفارش کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اس کو کانگریس سے منظور کرا سکوں ‘لیکن پھر کہہ رہا ہوں کہ اس کیلئے آپ کو کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا‘‘۔
جناب نواز شریف ‘اب آپ بل کلنٹن سے اپنی گفتگو کا اگلا حصہ سنئے ‘جس میں کلنٹن نے آپ سے کہا تھا '' اگر پریسلر ترمیم کی منسوخی کی بات کریں تو ہماری یہ درخواست سینیٹ سے گزر کر منسوخ ہو جائے گی ‘تو اس کیلئے ہمیں کانگریس میں بھی اس کیلئے کامیابی ہونی چاہئے ‘مگرمیں آپ کو اس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا‘ کیونکہ کل ہی میں اور سینیٹر ٹرینٹ لاٹ کسی نکتے پر ہم خیال تھے‘ مگر بد قسمتی سے ہمیں سینیٹ میں کامیابی نہ مل سکی‘‘۔
مذکورہ گفتگو کے تناظر میں اب تو پانچ ارب ڈالر ملنے کا واویلا بند کر دیں۔آپ خو د ہی فیصلہ کر لیں کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر بطور انعام بل کلنٹن نے کون سے پانچ ارب ڈالر آپ کے خزانے میں جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا ؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں