چند روز قبل امریکہ نے دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی فوج کے افسران کے لئے امریکہ کی فوجی تربیت گاہوں، سکولوں اور اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقع ختم کرتے ہوئے جہاں جدید فوجی نظریات کی سہولت چھینی‘ وہیں کسی بھی ذرائع سے پاکستان کو حاصل ہونے والی مالی امداد کے راستے بھی روکے جا رہے ہیں۔ تاریخ نے ایک نئی کروٹ لیتے ہوئے اپنے اوراق پر دو ایسے ابواب شامل کر لئے ہیں‘ جن کی کل تک توقع ہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ امریکی دبائو کے جواب میں روسی قیادت نے تاریخ کا ایک نیا ورق پلٹتے ہوئے پاکستانی ٹروپس کو اپنی بہترین تعلیمی اور فوجی تربیت گاہوں میں تربیت دینے کی پیشکش کر دی ہے۔ اس معاہدے کو اس لئے بھی تاریخی کہا جا سکتا ہے کہ اس سے صرف ایک دن پہلے امریکہ نے وہ نا قابل یقین فیصلہ کیا تھا‘ جس کے تحت پاکستانی ٹروپس کے لئے اپنی فوجی تربیت گاہوں میں کسی بھی مرحلے کیلئے شامل نہ کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔ اس طرح ایک در اگر بند ہوا تو ساتھ ہی دوسرا در کھل گیا۔ پاکستانی فوجی اب بھی دوسرے ممالک میں خصوصی تربیت حاصل کرتے رہیں گے‘ امریکہ میں نہ سہی‘ روس میں سہی۔ امریکہ کا یہ فیصلہ دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا تھا کیونکہ سی آئی اے اور وائٹ ہائوس پاکستان اور روس کی فوجی قیادت کے باہمی رابطوں اور ان رابطوں کے دوران کئے جانے والے فیصلوں پر مکمل نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ شاید امریکی ان فیصلوں کی نوعیت سے واقف ہو چکے تھے‘ جن کے تحت سے ان دونوں ممالک (پاکستان‘ روس) میں فوجی رابطے بڑھ رہے تھے۔ شاید اسی لئے یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا لگتا ہے۔ اب روس کے لئے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ کل کو پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ٹروپس جب روسی تربیت گاہوں میں خصوصی تربیت حاصل کریں گے تو حاصل کی جانے والی تربیت کے بعد جدید ترین اسلحہ بھی روس سے ہی لیا جائے گا۔
روس کے ساتھ فوجی تربیت گاہوں سے مستفید ہونے کا فیصلہ روس اور پاکستان کی جائنٹ ملٹری کنسلٹیٹو کمیٹی (JMCC) میں ہونے والی طویل میٹنگوں کے اختتام پر کیا گیا۔ روس اور پاکستان کا یہ فیصلہ جس نے بھی سنا وہ حیران رہ گیا‘ جبکہ اس سے ایک روز پہلے امریکی پینٹاگان کا پاکستانی فوجی افسران کو اپنی تربیت گاہوں سے آئوٹ کرنے کے فیصلے پر کسی کو کوئی خاص تعجب نہیں ہوا۔ بلکہ صدر ٹرمپ جس طرح ایک کے بعد ایک پاکستان کے خلاف اقدامات کر رہے تھے‘ امریکہ کی جانب سے یہ اقدام غیر متوقع نہیں رہا تھا۔ روسی حکومت کے اس بڑے فیصلے کے بعد یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ روس اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں اعتماد اور دوستی کا رشتہ اب پہلے سے بھی زیادہ گہرا اور مستحکم ہو جائے گا۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ سلسلہ اب یہیں پر رکنے والا نہیں بلکہ دونوں ملک اب معاشی، سیاسی امور میں بھی ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوں گے‘ کیونکہ پاکستان محسوس کر رہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کا منتخب کیا ہوا وائٹ ہائوس کا سٹاف پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے زمینی اور اندرونی فیصلے پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی کیلئے خطرناک ہوتے جا رہے ہیں‘ اور پہلی دفعہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ امریکہ اس کے وطن کی سالمیت‘ استحکام اور یک جہتی کے خلاف مصروف عمل ہے اور پاکستان کو معاشی، فوجی اور سیاسی طور پر کمزور اور اپاہج کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ ترجیحی اور خصوصی سلوک کر رہا ہے‘ اور یہ گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان اور امریکہ کے مابین جاری ان تعلقات کے بالکل بر عکس ہے‘ جن کے تحت پاکستان نے امریکہ کیلئے نا قابل فراموش خدمات سر انجام دیں۔ پاکستان کا روس کی جانب جھکائو اس امریکی رویئے کا ہی ردعمل ہے جو اس نے چند برسوں سے بھارت کی محبت اور توجہ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ اور لگتا یہ ہے کہ ٹرمپ کی مسلم دشمنی کے ناقابل قبول ایجنڈے میں شاید پاکستان کو احساس ہو چلا ہے کہ وہ اس کا نشانہ بننے کو ہے اور اپنے ان مقاصد کی تکمیل کیلئے وائٹ ہائوس کا بڑھ چڑھ کر بھارت کی بلائیں لینا سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ اقوام عالم اگر یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ آج کی اس دنیا میں شام، لیبیا، عراق اور یمن کی طرح امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستان کو بھارت، اسرائیل، داعش اور افغانستان کی این ڈی ایس کے ذریعے بکھیر سکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ایسا سوچنا بھی دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلتے پھرتے ہر انسان کی بد قسمتی ہو گی۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کے 71ویں یوم آزادی پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ستر برسوں سے ہمارے باہمی تعلقات مستقبل میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوں گے۔ لیکن امریکی انتظامیہ سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ جب آپ بھارت کو سر سے پائوں تک مسلح کریں گے‘ جب آپ اپنی عسکری طاقت، تجارت اور سفارت کے تمام چشمے بھارت کی جانب بہا دیںگے‘ جو پاکستان کی آزادی کو تسلیم ہی نہیں کرتا‘ جو پاکستان کے اندر دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے دریا بہا رہا ہے... تو آپ کے پاکستان کے یوم آزادی پر جاری کئے گئے اس پیغام پر اور آپ کے فیصلوں اور اقدامات پر پاکستان کیسے یقین کرے گا کہ ''آپ کس کے ساتھ ہیں‘‘۔ ذرا سوچئے گا کہ جب پینٹاگان پاکستان کی خواہش پر اس کے فوجی افسران کیلئے جدید فوجی اور عسکری تعلیمی پروگرامز کو ایک دن اچانک ختم کرنے کا حکم جاری کر دے گا تو ان احکامات اور اقدامات سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو جلا کیسے مل سکتی ہے؟ جب امریکہ پاکستان کو اس کی قربانیوں کی سزا دینے کیلئے ایف اے ٹی ایف کی تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑے اس پر وار کرے گا‘ تو اس سے گزشتہ سات دہائیوں کی دوستی کیسے مضبوط ہو سکتی ہے؟ امریکہ اگر پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی کو تسلیم کرتا ہے تو اسے اس کی جانب اٹھنے والے کسی بھی تیز دھار آلے اور بندوق کا دستہ بننے سے دور رہنا ہو گا۔
امریکہ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ اس سے پہلے وہ تین مرتبہ پاکستان پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ پہلے فیز میں 1979-1990ء تک پھر 1990-98ء تک اور تیسرے فیز میں 1998-2001ء تک۔ اب اگر پہلے فیز کی پابندیوں کو سامنے رکھیں جو امریکہ نے پاکستان پر جان بوجھ کر اور بغیر کسی بڑی یا ناقابل برداشت وجہ سے کئی شعبوں میں بہت سی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اکتوبر 1990ء میں امریکی پابندیوں کا دوسرا فیز شروع ہوتا ہے‘ جب امریکی صدر جارج بش سینئر نے یہ کہتے ہوئے ہر قسم کی امداد بند کرنے کے پابندی سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دیئے کہ اسے یقین ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے‘‘۔ اس طرح وقفے وقفے سے پاکستان کی امریکہ اور عالمی امن کیلئے دی جانے والی نا قابل فراموش قربانیوں سے آنکھیں پھیر لی جاتی رہیں۔ احسان فراموش امریکہ نے افغانستان میں روس کو پاکستان کی مدد سے شکست دے کر اسے کئی ٹکڑوں میں بکھیر دیا تو ساتھ ہی توتا چشمی کی انتہا کرتے ہوئے پاکستان سے اس طرح نظریں پھر لیں جیسے اب کوئی اہمیت یا ضرورت ہی نہیں۔
پاکستان پر عائد کی جانے والی معاشی اور فوجی پابندیوں کا تیسرا مرحلہ 1998ء سے شروع ہوا‘ جب پاکستان پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے اکنامک ڈویلپمنٹ امداد، آرمز سیل کنٹرول ایکٹ کے تحت فوجی ساز و سامان سمیت اسلحہ اور ان کے پرزہ جات، کریڈٹ اور کریڈٹس کی گارنٹیاں معطل کر دی گئیں‘ بلکہ شرمناک اقدام دیکھئے کہ امریکی بینکوں نے پاکستان کو پہلے سے دیئے جانے والے قرضوں کی بقایا رقوم کی ادائیگیاں کرنے سے بھی روک دیا۔