دسمبر 1993ء کی ایک سہ پہر مرحوم پیر صاحب پگاڑا کو لاہور سے تعلق رکھنے والے علم نجوم کے ماہر سمجھے جانے والے صادق محمود ملک نے لاہور ائیر پورٹ سے کراچی کیلئے روانہ ہوتے ہوئے‘ فون کر کے ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔ ہاتھوں کی لکیروں کا علم جاننے والے لاہور کے پامسٹ کی پیر صاحب پگاڑا شریف کو زندگی میں یہ پہلی فون کال تھی‘ جو خوش قسمتی سے پیر صاحب مرحوم نے خود ہی وصول کی ۔سلام ودعا کے بعد جب صادق محمود ملک نے پیر صاحب سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے درخواست کی کہ وہ لاہور سے آپ کی زیا رت کرنے اور ستاروں کے علم پر کچھ معلومات لینے کا خواہش مند ہے‘ تو پیر صاحب نے صادق محمود ملک کو کہا: میں نے تمہارا نام سنا ہوا ہے‘ تم اس وقت مجھے بتا سکتے ہو کہــ میاں محمد نواز شریف کل زندہ رہے گا؟
صادق ملک کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی ‘وہ یک دم گھبرا گئے کہ پیر صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا کہ جناب پیر صاحب پگاڑا جیسی‘ قابل احترام ہستی کیا فرما رہی ہیں؟ کیو نکہ یہ سوال ہی ایسا تھا ۔جس نے صادق ملک کے بقول ‘ان کے پیروں تلے کی زمین یک کو کھسکا یا تھا۔ جب پیر صاحب پگاڑا نے دوبارہ پوچھا‘ تو صادق ملک نے جوا ب میں کہا: حضور پیر صاحب‘ زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہوتی ہے‘ میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا‘ لیکن میرے پاس ؛چونکہ میاں نواز شریف کے ہاتھوں کا پرنٹ ہے‘ جسے کئی مرتبہ بغور دیکھ چکا ہوں‘ اس لئے میرے علم کے مطا بق مجھے تو ان کی زندگی کے بارے میں کوئی ایسا خطرہ دکھائی نہیں دیا۔اتنا سننے کے بعد مرحوم پیر پگاڑا نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ اگر تمہاری بات درست نکلی‘ تو پھر کل تم سے بات ہو گی اور پھر اگلی شام پیر صاحب کی گاڑی صادق محمود ملک کو لینے قصر ناز پہنچ گئی‘ جہاں سید مظفر شاہ اور سینیٹر ذوالفقار جاموٹ بھی موجود تھے۔
2 دسمبر1993ء کو لاہور شہر میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے95اور 97 میں ضمنی انتخابات تھے۔این اے 95 سے اسحاق ڈار اوراین اے97 سے مرحوم مغفور درویش صفت انسان میاں عباس شریف ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے حصہ لے رہے تھے۔پنجاب میں منظور وٹو وزیر اعلیٰ تھے‘ جبکہ مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم اور فیصل صالح حیات‘ شمس دوم کے فرائض سنبھالے ہوئے تھے۔ کوئی ڈھائی بجے کے قریب ماڈل ٹائون اپنی رہائش گاہ میں میاں نواز شریف اپنی جماعت کے چند لوگوں اور انتظامی اہلکاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں ایک فون کال آتی ہے‘ جس میں کوئی صاحب بتاتے ہیں کہ حلقہ این اے95 میں دھاندلی کی جا رہی ہے اور نواز لیگ کے امیدوار خاص طور پر خواتین کے ووٹروں کیلئے پریشانیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور مقامی انتظامیہ بھی مداخلت کر رہی ہے‘ جس پر میاں نواز شریف نے اسی وقت این اے95 جانے کا ارادہ کرتے ہوئے اپنے سکیورٹی افسر کو ضروری تیاری کا حکم دیا۔
پندرہ منٹ بعد میاں نواز شریف ‘ان کے انتہائی معتمد خاص سیکرٹری خیام قیصر اور حمزہ شہباز بھی ہمراہ ہو لئے۔ اس طرح یہ قافلہ حلقہ این اے95 کی جانب روانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے لٹن روڈ پر ایک چھوٹے سے دربار یا مسجد سے ملحق خواتین کے سکول پہنچے‘ وہاں پر ایسی کوئی صورت حال نظر نہ آئی۔ خواتین پولنگ ایجنٹ اور مسلم لیگ کے کارکنوں نے سب اچھا کی آواز لگاتے ہوئے کامیابی کے نعرے لگائے۔ وہاں سے بیگم روڈ اور جی پی او مال روڈ سے لکشمی چوک اور وہاں سے نسبت روڈ ‘میو ہسپتال سے واپس ماڈل ٹائون کی جانب چلے ہی تھے کہ یک دم میاں نواز شریف نے سب کو دیال سنگھ کالج کی جانب چلنے کا حکم دیا ۔نسبت روڈ سے گاڑیاں دیال سنگھ کالج کے باہر کھڑی کی ہی تھیں کہ فوری طور پر سکواڈ کی ایک گاڑی سے پرائیویٹ گن مین اپنے ساتھیوں سمیت چھلانگیں بھرتے ہوئے کالج کے اندر داخل ہو گئے‘ جبکہ میاں نواز شریف‘ حمزہ شہباز‘ خیام قیصر باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو ئے تھے‘ پہلے تو کالج کے اندر سے للکارنے کی آوازیں آئیں اور پھر اچانک فائرنگ شروع ہو گئی‘ جو چند سیکنڈ بعد کلاشنکوفوں کی تڑ تڑاہٹ میں تبدیل ہو گئیں ۔اب صورت حال دیکھئے کہ کالج کے اندر اور کالج کی چھتوں سے بے تحاشا فائرنگ اور نیچے سڑک پر میاں نواز شریف کی صورت میں اس ملک کی اہم ترین شخصیت اور میاں شہباز شریف کا لعل حمزہ شہباز شریف کھڑے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔
میاں نواز شریف کے سکیورٹی افسر نے صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوری طور پر میاں صاحب کی گردن کے پیچھے اپنے دونوں ہتھیلیوں کو ایک دوسرے میں سختی سے پیوست کرتے ہوئے اپناپورا جسم ان کی ڈھال بنا لیا‘ جس فٹ پاتھ پر سب کھڑے ہوئے تھے‘ وہاں پکی اینٹوں کا ایک اونچا سا ڈھیر تھا۔ جیسے ہی گولیوں کے چلنے کی آواز نے زور پکڑا‘ تو میاں نواز شریف کے سکیورٹی افسر نے فائرنگ کی آوازوں سے اندازہ لگا لیا کہ یہ فائرنگ اب باہر کی طرف آنے لگی ہے ‘جس پر اس نے فوری طور پر میاں نواز شریف کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے تیزی سے نیچے کی جانب جھکایا اور اسی لمحے ایسے لگا کہ کوئی گرم سی ہوا ان دونوں کے سروں کے اوپر سے گزر گئی ہے اور ایسا ہی ہوا تھا۔ گولیاں میاں نواز شریف اور ان کے سکیورٹی افسر کے سروں کے اوپر سے گزرتی ہوئی سڑک کے دوسری جانب ایک گھر کی چھت پر کھڑے دو بھائیوں کو جا لگیں‘ جن میں سے ایک میو ہسپتال جا کر جاں بحق ہوا ‘تو دوسرا سخت زخمی ہو گیا۔( یہ مکمل واقعہ آج بھی تین دسمبر1993ء کے ملکی اخبارات میں دیکھا جا سکتا ہے)
میاں محمدنواز شریف اور اور حمزہ شہبازکو سفید رنگ کی سوزوکی خیبر میں بٹھانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن پھر انہیں ان کی لینڈ کروزر میں بٹھا کر تیز رفتاری سے نکال کر ڈیوس روڈ پر مسلم لیگ ہائوس پہنچایا گیا ۔میڈیا کو بھی جلد ہی خبر ہو گئی ‘جہاں میاں نوازشریف نے پریس کانفرنس میں اس واقعہ کا ذمہ دار پی پی پی اور منظور وٹو سمیت ان کی نگرانی میں کام کرنے والی طلبا تنظیم ایم ایس ایف کو ٹھہرایا۔ اﷲ غریق رحمت کرے میاں محمد شریف مرحوم نے سکیورٹی انچارج کواپنے گلے لگا کر شکریہ ادا کیاجبکہ '' شاہی محل‘‘ کے سازشی اس واقعہ کے بعد میاں اس سے حسد کرنا شروع ہو گئے‘ جبکہ وہ خود گن مین کے اس طریقہ کار سے بیزار ہو گیا‘ جس کی شکایت میاں نواز شریف سے بھی کی‘کیونکہ للکارتے ہوئے قبضہ گروپ کی طرح دیال سنگھ کالج میں گھس کر فائرنگ شروع کر دینا ‘نواز شریف کے سکواڈ کی شان نہیں تھا‘ بلکہ یہ ایک حماقت اور جاہلانہ اقدام تھا‘ جس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا‘ لیکن شاہی محل میں ان کے مضبوط سر پرست اور ہم راز اس گروپ کی ڈھال بن گئے۔ سکیورٹی انچارج بد دل ہو کر اس کوشش میں رہنے لگا کہ یہاں سے با عزت طریقے سے کسی اور جگہ پوسٹنگ کرا لے‘ لیکن شہباز شریف اور حمزہ شہباز اس کے جانے کے حق میں نہیں تھے۔
کچھ عرصے بعد ہی شاہی محل کی گھریلو سیا ست نادان داماد کے اثر و رسوخ سے جیت گئی اور میاں نواز شریف دیال سنگھ کالج کے باہر ''موت کا وہ منظر‘‘ بالکل ہی بھول گئے اور انہوں نے خبر ہی نہ لی کے‘ ان کے اس محسن کے ساتھ ان کے شاہی محل نے کیا سلوک کیا ہے؟وہ تو اس کی زندگی تھی ‘جو آج تک زندہ ہے‘ ورنہ وہ تو لے دے گئے تھے ۔( باقی کہانی پھر کبھی سہی)