"MABC" (space) message & send to 7575

جمال خاشقجی کا قتل

استنبول کے سعودی قونصلیٹ آفس میں معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی خبر‘ جیسے ہی دنیا بھر میں بریکنگ نیوز بنی‘ تو جمال خاشقجی کے ساتھ ہی اسلحہ کے مشہور سوداگرعدنان خاشقجی اور لیڈی ڈیانا سے قربت کے نام سے شہرت پا کر لقمۂ اجل بننے والے ڈوڈی الفائد کا ذکر بھی ہونے لگا‘ جن میں سے ایک اس کے چچا اور دوسرے کزن تھے ۔ جمال خاشقجی کے چچا کا نام‘ اس حوالے سے لیا جانے لگا‘ کیونکہ امریکہ نے ایران پر جب سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں‘ تو عدنان خاشقجی ‘ایران کو خفیہ طور پر اسلحہ سپلائی کررہے تھے اور اس طرح وہ دنیا بھر میں اسلحہ کے بڑے ڈیلر کے طور پر مشہور ہو گئے۔ یہ ایک علیحدہ طویل کہانی ہے ‘جس کے متعلق وثوق سے کہا جاتا ہے کہ عدنان خاشقجی تنہا یہ کام نہیں کر سکتا تھا‘ بلکہ امریکہ کی اہم شخصیات کے خاندان اور سی آئی اے کے کچھ ایسے اہلکار‘ جن کا روس کی کے جے بی سے تعلق تھا‘ اس کی پشت پناہی کر تے تھے۔
اب ‘جبکہ اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک صحافی اور اخبار کا ایڈیٹر ہونے کے نا تے جمال خاشقجی کا قتل دنیا بھر کیلئے افسوس ناک ہے‘ لیکن اقوام متحدہ اس وقت کیوں خاموش رہی‘ جب لیڈی ڈیانا اور ان کے دوست ڈوڈی الفائد کے پیرس کی ایک زیر زمین سرنگ کے اندر رات گئے ٹریفک حادثے کو باقاعدہ پلاننگ سے کیا جانے والا قتل کہا جاتا رہا۔
1958 ء میں مدینہ میں پیدا ہونے والے جمال خاشقجی کا تعلق سعودی عرب کے ایک بڑے تاجر خاندان سے تھا‘جو کچھ عرصہ سے امریکہ میں مقیم تھے اور ان کا تعلق سابق سعودی شاہی خاندان کے ساتھ نہایت قریبی تھا اوران کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شاہ عبد اﷲ سے سعودی معاشرے میں خواتین پر عائد سخت پابندیوں کو نرم کروانے میں جمال خاشقجی کا بڑا کردار تھا۔ جمال خاشقجی کی المناک موت کی خبر‘ چونکہ استنبول میں سعودی سفارت خانے کی عمارت کے حوالے سے سامنے آئی ہے‘ تو لا محالہ انگلیاں سعودی عرب کے ولی عہد کی جانب اٹھنے لگیں ‘کیونکہ بین الاقوامی میڈیا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ شاہ سلمان کو تو اس بارے کچھ علم ہی نہیں تھا ۔دوسری طرف یہ تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ترکی سے سعودیہ کے تعلقات میں گرم جوشی نہیں اور اگر انہوں نے جمال خاشقجی کو ٹارگٹ ہی کرنا تھا‘ تو اس کیلئے اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ اس سلسلے میں سعودی پبلک پراسیکیوٹر جنرل کا یہ بیان بھی سامنے آ چکا کہ جمال خاشقجی کا قتل ایک پہلے سے طے شدہ منصوبے سے کیا گیا ‘ جس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ امریکہ اور یورپ بھر میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ابھرتے ہوئے امیج کو نقصان پہنچایا جائے‘جس پر25 اکتوبر کو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل پر خاموشی توڑتے ہوئے ایک بیان میں کہا: سعودی عرب اور ترک حکومت جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے رابطے میں ہیں اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر اس قتل کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ترکی کی خبر رساں ایجنسی انا دولو نیوز کے مطا بق ترک پولیس اور دوسرے خفیہ ادارے سعودی قونصلیٹ کے38 افراد کے بیانات قلمبند کرنے کے علا وہ ان کے بہت سے ٹیسٹ بھی لے چکی ہے۔ 
اس وقت دنیا بھر کی نظریں جمال خاشقجی کے قتل پر لگی ہیں اور اس سلسلے میں امریکی سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا 22 اکتوبر کو انقرہ میں ترک خفیہ ایجنسیTIM سے بھی کچھ معلومات بھی لے چکی ‘ لیکن ایک بات واضح ہے کہ قاتل جو بھی تھے ‘وہ بے خوف تھے‘ انہیں کسی قسم کی گھبراہٹ یا پریشانی نہیں تھی ۔شاید ان کیلئے اس قسم کی بر بریت روزمرہ کا ایک معمول تھا۔سی آئی اے کی ڈائریکٹر GINA HASPEL کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اسے ترک حکام سے سعودی سفارت خانے سے حاصل ایک ایسی آڈیو ملی ہے‘ جس سے قاتلوں تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ سی آئی اے کی ڈائریکٹر GINA ترکی پہنچنے سے قبل وائٹ ہائوس میں سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو سے اس ایشو پر تفصیلی بات کر چکی تھی اور اگلے دو دنوں میں ترکی سے حاصل معلومات پر جمال خاشقجی کے قتل پربریفنگ دینے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کر رہی ہے‘ لیکن دنیا بھر کی نیوز ایجنسیاں‘ جو اس وقت استنبول میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں ‘ ان کی جانب سے متضاد قسم کی خبریں ترک خفیہ اداروں کے حوالے سے پھیلائی جا رہی ہیں ‘جیسا کہ کہا جا رہاکہ ایک سعودی سفارت کار کی گاڑی سے جمال خاشقجی کا بریف کیس بر آمد ہوا ہے۔ترکی کی انا دولو نیوز ایجنسی نے خبر جاری کی کہ سعودی عرب نے ترک پولیس کو قونصلیٹ کی عمارت میں داخلے کی اجا زت نہیں دی‘ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ترک پولیس اور اس کی دوسری ایجنسیاں سعودی قونصلیٹ میں کئی گھنٹے موجود رہ کر اپنا تمام تفتیشی کام مکمل کرتی رہیں۔یہ تو طے ہے کہ جمال خاشقجی کا بہیمانہ قتل انسانیت پر ایک بد نما داغ ہے اور امید ہے کہ جلد ہی وقت بتادے گا کہ قاتل کون ہے ؟لیکن دنیا بھر میں کئے جانے والے اس نوع کے قتل نہ جانے کیوں پرُ اسرار رہتے ہیں‘ جن کے قاتلوں کی نقاب کشائی ‘کبھی بیس تو کبھی تیس‘ چالیس برس بعد اس وقت سامنے آتی ہے‘ جب پرانی فائلوں کی گرد جھاڑنے کا ارادہ ہوتا ہے۔
جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کرتے ہوئے 8برس قبل 19 جنوری2010ء کا وہ دن یاد رکھنا ہو گا‘ جب دبئی کے سب سے قدیم پنج ستارہ بوستان ہوٹل میں حماس کے لیڈر محمود المبوح کو ان کے کمرے میں قتل کیا گیا‘ جو ایک عرصے سے اسرائیلی موساد کے نشانے پر تھے ۔ان پر الزام تھا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے حماس کے ملٹری ونگ کا بریگیڈ انہوںنے تشکیل دیا‘ جس نے اسرائیلی فوج کو نا کوں چنے چبوائے۔ ان پر یہ بھی شک تھا کہ انہوں نے غزہ سے دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کیا اور موساد‘ ان سے بدلہ لینے کیلئے ایک عرصے سے اس کی تلاش میں تھی اور وہ مختلف ناموں سے بنوائے پاسپورٹس پر سفر کرتا‘ لیکن ایک دن اس کی قسمت ہار گئی اور موساد کو اس کے ایجنٹوں نے اطلاع دی کہ محمود المبوح شام سے دبئی جارہا ہے اور وہاں اس کیلئے بوستان کے ہوٹل میں کمرہ بک کرایا گیا ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی موساد نے ریمنڈ ڈیوس قسم کے اپنے دو کنٹریکٹر ز اس کے پیچھے لگا دیئے‘ جنہوں نے بوستان ہوٹل میں اس کے کمرے میں گھس کر اسے بے دردی سے قتل کردیا اور جس طرح آئے تھے ‘اسی طرح خاموشی سے چلے گئے ۔آج تک کوئی انہیں گرفتار نہیں کر سکا‘ جبکہ ان کی مکمل شناخت آج بھی امارات پولیس اور انٹر پول سمیت سب کے پاس محفوظ ہے۔حماس کے لیڈر محمود المبوح کے قتل کی خبر کوئی معمولی بات نہیں تھی‘ کیونکہ ایک وقت میں وہ سعودی عرب کے طاقتور شخص سمجھے جاتے تھے۔ اس لئے امریکہ اور اسرائیل کے زیر کنٹرول میڈیا ہائوسز نے ابتدا میں ہی اِدھر اُدھر کے اشارے شروع کر دیئے‘ لیکن سی سی ٹی وی کیمروں سے لی گئی ویڈیوزنے دبئی ائیرپورٹ سے ان قاتلوں کی امیگریشن کراتے اور بوستان ہوٹل میں داخل ہونے کے بعد لفٹ سے اس کے کمرے تک جانے کے تمام مراحل کی فوٹیج نے قاتلوں کی نشاندہی کر دی۔ اسرائیل کو محمودپر شک تھا کہ دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کرنے کے علا وہ ایران کے القدس بریگیڈ اور فلسطین کے حماس بریگیڈ کا رابطہ محمود کی وجہ سے ممکن ہوا‘ جس سے اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں سخت نقصان پہنچا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں