اسد عمر کے بی بی سی کے ہارڈ ٹاک انٹرویو کو جس طرح بلوچستان ا ور کراچی کیلئے راکے سٹیشن چیف بھارتی نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیوکے نام اور گرفتاری تک کی جانے والی دہشت گردی کی متعدد وارداتوں کے حوالوں کو کانٹ چھانٹ کر نشر کیا گیا ‘اس سے ہمارے ان ترقی پسندوں اور فوج کے دشمنوں کی نظریں شاید ہی شرم سے جھکی ہوں گی‘ لیکن ہر پاکستانی کی آنکھ یقیناََ کھل چکی ہو گی جو آنکھیں بند کر کے بی بی سی سمیت دوسرے بین الاقوامی اداروں کی خبروں کو سچ ماننا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ سب پر یہ واضح نہیں ہوا کہ بی بی سی جیسے یہ سب میڈیا ادارے بھارت کی آکاش وانی جیسے ہی ہیں۔ اب یہ بھی آپ جان چکے ہوں گے کہ شہید ایس پی طاہر خان داوڑ پر بی بی سی کی رپورٹ کس قدر جھوٹی تھی اور یہ بھی پتہ چل گیا ہو گا کہ منظور پشتین بی بی سی کی آنکھوں کا تارا کیوں بنا ہوا ہے۔ بی بی سی کی طاہر خان داوڑ کی شہا دت پر تبصرے کس قدر متعصبانہ تھے۔شہید ایس پی طاہر خان داوڑ کو اپنے وطن کے دفاع کے'' جرم‘‘ میں اسی طرح قربان ہونا پڑا ‘جیسے کراچی میںایس پی چوہدری اسلم اِن دی لائن آف ڈیوٹی دہشت گردوں کانشانہ بنے ۔یہ دونوں پولیس افسر وطن دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہے تھے۔
پشاور رورل میں تعینات ایس پی طاہر خان داوڑ کے اسلام آباد سے اغوا اور فاٹا میں مولانا فضل الرحمان کے نہایت ہی قریبی رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور کابل سے طاہر خان کی میت طور خم چیک پوسٹ تک پہنچانے والے امتیاز وزیر اور افغان صدر اشرف غنی کے قریبی تعلقات اس بربریت سے بہت سے پردے اٹھادیتی ہے ۔محسن داوڑ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کا اسی طرح سخت خلاف ہے ‘جس طرح افغانستان اور مولانا فضل الرحمان ۔امتیاز وزیر‘ جو پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے کوئٹہ اور کے پی کے میں پشتون نوجوانوں کو'' مرکز کی غلامی سے آزاد رہ کر پشتونستان کی علیحدہ پہچان ‘‘کا شدت سے درس دیتا چلا آ رہا تھا‘ 2013ء کے انتخابات میں اسفند یار ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کا امیدوار تھا اور گذشتہ ایک برس سے وہ منظور پشتین کے جانشین کے طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے فوج اور ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہا تھا۔
امتیاز وزیرافغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈیفنس سکیورٹی کیلئے ‘اپنے زمانہ طالب علمی کے دور کی عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ PSF کے سابقہ ساتھیوں سے رابطے بڑھاتے ہوئے انہیں بہت سے فوائد کے ساتھ منظور پشتین کیلئے کام کرنے کی ترغیب دے رہا تھا۔اس پر تو شک کی گنجائش ہی نہیں کہ محسن داوڑ اس وقت مکمل طور پر بھارت اور افغانستان کے اس ایجنڈے پر کام کر رہا ہے‘ جس کا مقصد فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو ناکام کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی کے اعلان کر دہ افغانیہ کی آزاد سلطنت کے مشن کا ساتھ دینا ہے ۔ 31 اگست2018 ء کو نیشنل سالیڈیریٹی فار پشتون اور 6اکتوبر2018 کو امتیاز وزیر کا PSF کے زیر اہتمام کوئٹہ میں کی جانے والی تقاریر اور پھر کرم ایجنسی میں پاکستان کی سالمیت کے خلاف اگلا جانے والا زہر اس کی پاکستان دشمنی کا واضح ثبوت ہیں۔طورخم بارڈر پر امتیاز وزیر کسی طور بھی طاہر خان کی میت پاکستانی حکام کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہو رہا تھا‘ تین گھنٹے بعد جب محسن داوڑ نے دیکھا کہ پاکستان اور دنیا بھر کے میڈیا پر اب تک اس کی داستانیں پہنچ گئی ہیں تو اس نے بادل نخواستہ امتیاز وزیر کے کان میں نہ جانے کیا سرگوشی کی کہ اس نے طاہر شہید کی میت حکومت پاکستان کے حوالے کر نے کی افغان حکام کو اجا زت دے دی۔کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ پوری افغان حکومت امتیاز وزیر کے ماتحت کام کر رہی ہے۔کابل نے طورخم چیک پوسٹ پر شہید طاہر خان کی میت پاکستان کے سرکاری وفد کی بجائے محسن داوڑ کے حوالے کرنے کیلئے تین گھنٹے تک اصرارکیوں کیا ‘جو کہ بین الاقوامی اور سفارتی اصولوں اور روایات کے خلاف تھا؟ افغانستان کی بد نیتی اور مشکوک کردار اس طرح بھی سامنے آتا ہے کہ ایک پاکستانی پولیس افسر کی میت حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے ایک ایسی شخصیت کے حوالے کرنے پر اصرار کیا جاتا رہا‘ جس کے متعلق زمین و آسمان جانتے ہیں کہ وہ اس مملکت کی سالمیت کے خلاف کام کر رہا ہے ۔شاید کابل اور بھارت کی خواہش تھی کہ طاہر خان کی میت محسن داوڑ کے حوالے کرتے ہوئے اسے پشتون قوم میں مزید مشہور اور مقبول بنا دیا جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طاہر خان کے اغوا سے بہیمانہ قتل اور پھر میت کو طورخم تک پہچانے میں امتیاز وزیر اور این ڈی ایس افغانستان کا کردار مشکوک ہو رہا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ اور منظور پشتین کا نام ایک دن اچانک اس وقت اچھل کر سامنے آتا ہے‘ جب آصف علی زرداری کے سب سے زیا دہ منظور نظر اور با اعتماد ساتھی ایس ایس پی رائو انوار جیسے پولیس افسر کے گروپ کے ہاتھوں پشتون نوجوانوں میں مقبول نقیب اﷲ محسودپولیس مقابلے کے نام پر کراچی میں بہیمانہ طور پر قتل کر دیا جاتا ہے۔یہ بھی سوچئے کہ وہی رائوانوار جس کا نقیب اﷲ محسود کے قتل کے ساتھ شور مچ گیا تھا‘ اب عدالتوں سے بری بھی ہو چکا ہے‘کیونکہ ہر گواہ اور تفتیش سندھ حکومت کے پاس تھی‘ جہاں آصف علی زرادری بلا شرکت غیرے حکمران ہیں۔ پاکستان کے کسی اہم پولیس افسر کا اغوا کوئی معمولی واقعہ نہیں‘ اس میں یقیناََ حکومتی کوتاہیاں بھی شامل ہیں‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ اغوا کرنے والوںکے رابطے پاکستان کے اندر بہت ہی گہرے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کیا داعش کو اس اغوا کیلئے استعمال کیا گیا؟ کیا منظور پشتین کی مدد کیلئے بھی داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال اس وقت دنیا بھر کے دہشت گردی کے خلاف کا م کرنے والے فورمز میں زیر بحث ہے ‘کیونکہ جبISIS( داعش) کو افغانستان میںلایا گیا تھا تو اس کے ذمے بنیادی ٹاسک افغانستان میں امریکہ ‘ نیٹو اور افغان فورسز کے خلاف کام کرنے والے طالبان کے خلاف امریکہ اور NDS کی مدد کرنا تھا اور اس کیلئے تحریک طالبان پاکستان کے منتشر گروپ اس کے ساتھ کر دیئے گئے ‘جن میں نو عمر لڑکوں پر مشتمل متعد خود کش بمبار بھی شامل تھے‘ جو شمالی اور جنوبی وزیرستان سے افغانستان لائے جا چکے تھے‘ اسی لئے طاہر خان کے اغوا اور بہیمانہ قتل میں افغانستان کی نیشنل ڈیفنس سیکورٹی اورRAW کے مشترکہ ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ۔شاید اس لئے کہ طاہر خان کے پاس بحیثیت ڈی ایس پیSTD کچھ ایسے مخبر ہوں جو آج اپنا رخ کسی دوسری جانب کر چکے ہوں ۔
طاہر خان کا اسلام آباد سے اغوا کیوں ہوا؟ اس کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ اسلام آباد کس لئے آئے تھے؟یہاں پہنچنے کے بعد ان کی ملاقات کن لوگوں سے ہوئی؟اگر ان کے اسلام آباد جیسے شہر سے اغوا کی بات کریں تو ان کا موبائل ریکارڈ بھی بہت کچھ بتائے گا‘ لیکن یہاں سے انہیں افغانستان لے جانا اس لئے کوئی مشکل نہیں کہ پشتون معاشرے کی کچھ سخت روایات بھی پولیس چیک پوسٹوں پر مجرموں کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتی ہیں!