پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر ایک پچھتاوا بن کر اپنے وجود کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے احساس دلاتا رہے گا۔ اس دن ہم نے بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں شکست کھائی‘ جسے بھارت اپنی بہادری اور تاریخی فتح قرار دے رہا ہے۔ ہماری غلطیوں کو استعمال کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں کو ورغلاکر ہمارے خلاف کھڑا کرتے ہوئے ‘بظاہر اس نے ہم سے ہتھیار لیے ضرور تھے‘ لیکن ہم نے وہ ہتھیار ڈالے نہیں تھے‘ ہمیں اپنوں کی بغاوت کی وجہ سے شکست کا سامنا ضرور ہوا‘ لیکن ہم نے شکست تسلیم نہیں کی تھی‘ کیونکہ شکست خوردہ فوج نے صرف چار ماہ بعد لیپا وادی پر ہونے والی خونریز جھڑپ میں اسی دشمن کی فوج سے اپنے سامنے ہتھیار ڈلوا کر اس کے137 فوجی افسروں اور جوانوں کو قید ی بنایا۔ ( اس کی تفصیل انشا اﷲ اپنے کسی اگلے کالم میں قلم بند کروں گا)
16 دسمبر کو پہلی مرتبہ جب ہماری غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکار دشمن نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی صورت میں ہم سے جدا کیا اور دوسری مرتبہ جب آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو اپنے بھیجے گئے دہشت گردوں کے ہاتھوں ذبح کرایا ۔ بھارت کے ہاتھوں لگائے گئے یہ وہ زخم ہیں‘ جو ہر محب وطن پاکستانی کو ہر وقت یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہمارا یہ دیرینہ اور چانکیہ کی تعلیم سے آراستہ مکار دشمن آرام سے نہیں بیٹھا‘ بلکہ پینترے اور روپ بدل بدل کر ہمارے کسی نہ کسی بد خواہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے وہی مشرقی پاکستان والا کھیل رچانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے ۔ اس کی مدد کرنے والے کل تک جو پس پردہ یا کئی پردوں کے پیچھے چھپ کر مکار بھارت کے مشن کیلئے میٹھا زہر بن کی کام کرتے تھے‘ اب کھل کر‘ بلکہ سینہ تان کر دیمک کی طرح ملک کی بنیادوں کو چاٹ رہے ہیں؛ اگر ان کی شکلیں دیکھنی ہیں تو اپنے ارد گرد کبھی نام نہادصحافی‘ کبھی دانشور‘ کبھی این جی اوز‘ تو کبھی سول سوسائٹی ‘ مذہبی فرقے ‘تو کبھی تدریسی عمل اور مدرسوں کے اندر چھپے ہوئے مختلف بھیس میں بکھرے ہوئے مختلف تراش خراش کرنے والوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
16 دسمبر کے مذکورہ دو حوالوں کے بعد اسی ماہ کی 16 تاریخ کو کابل میں پاکستان ‘ چین اور افغانستان کے درمیان دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف ایک سہ طرفہMOU پر بھی دستخط ہونے کی تقریب منعقد ہوئی ‘جس کے تحت چین ‘ افغانستان اور پاکستان افغان طالبان سے اپیل کر یں گے کہ وہ بغیر کسی تیسرے ملک کی مداخلت کے افغانستان سے براہ ارست امن مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ اس باہمی یادداشت کے ایک پیراگراف میں '' کائونٹر ٹیررازم‘‘ میں باہمی تعاون اور اطلاعات کی شقیں انتہائی اہم ہیں اور اگر یہ سہ فریقی معاہدہ بھارت کی سازشوں اور تخریب کاریوں کی بھینٹ نہ چڑھا تو کوئی شک نہیں کہ ایک طویل مدت کے بعد خطے میں امن اور ترقی کی وہ خوش حال راہیں کھلیں گی‘ جس سے ڈیڑھ ارب سے زائد انسان سکھ کا سانس لینے کے علا وہ ایک بہتر اور پر سکون زندگی گزارنا شروع ہو جائیں گے۔
دنیا کے کسی بھی آزاد اور خود مختار ذہن اور سوچ رکھنے والے سیاسی ‘سفارتی اور دفاعی ماہر سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ افغانستان میں بھر پور امن قائم ہونے سے کس کو سب سے زیادہ نقصان اور تکلیف پہنچے گی‘ تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سب کا اشارہ بھارت ہی کی جانب ہو گا اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس سے سب سے زیا دہ کس کو فائدہ ہو گا‘ تو بغیر کسی شک و شبہ اور توقف کے کہا جائے گا : پاکستان اور افغانستان ؛اگر افغانستان اپنی عوام اور ان کی املاک کیلئے امن اور خوش حالی کی خواہش کرے گا تو اسے سب سے پہلے اپنے قریبی ہمسائے پاکستان کے خلاف کسی بھی دوسری طاقت کو اپنی سر زمین استعمال کرنے سے بزور قوت روکنا ہو گا‘کیونکہ افغانستان اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی سر زمین سے بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی علا قوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را ء ا ور افغانستان میں موجود بھارتی فوج کی کئی کمپنیاں دہشت گردوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر علیحدگی پسندوں کے بھیس میں براہ راست حملوں میں ملوث ہو رہی ہیں‘ جس کا نقصان افغانستان کو بلا واسطہ پہنچ رہا ہے۔بھارت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو مسلسل فراہم کیا جانے والا تباہ کن اسلحہ اور گولہ بارود افغانستان کے راستے ہی سپلائی کیا جا رہا ہے‘ جس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
اقوام متحدہ اور اس کے تمام رکن ممالک کیلئے نیٹو‘ ایساف کی صورت میں افغانستان کا میدان جنگ بنے رہنا‘ وبال جان بن کر رہ گیا ہے۔ امریکہ سمیت بھارت کا فنڈڈ میڈیا ‘جس قدر چاہے شور مچاتا رہے کہ پاکستان‘ افغانستان میں امن نہیں چاہتا۔ پاکستان‘ افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے‘ ان کے یہ سب جھوٹ اور مکاریاں اب ایک ایک کرتے ہوئے اپنی قدر کھوتی جا رہی ہیں‘ کیونکہ اقوام عالم کو احساس ہو چکا کہ بھارت کی شکل میں پاکستان کے وجود کا سب سے بڑا دشمن افغانستان ہے‘ جو وہاں اپنی سیاسی‘ فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی صورت میں اپنی طاقت بڑھانے میں اس لئے مصروف عمل ہے‘ تا کہ اپنی مشرقی سرحدوں سے ہٹ کر پاکستان کی مغربی سرحدوں کو اس کیلئے غیر محفوظ کرتے ہوئے اس کے تین صوبوں بلوچستان ‘ سندھ اور کے پی کے میں تحریک طالبان پاکستان تو کہیں داعش کے نام سے سینٹرل ایشیا کی کچھ ریا ستوں سے کرائے کے خودکش بمباروں کے ذریعے دہشت گردی کو بڑھاوا دیتے ہوئے اس کی فوجوں کو یہاں کے میدان جنگ کا ایندھن بنائے رکھے۔ایسے میں جب بھارت کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں‘ تحریک طالبان افغانستان کے خلاف آپریشن میںبراہ راست حصہ لیں گی‘ تو ظاہر ہے کہ جواب میں ان طالبان کا نشانہ بھی پھر وہ سرزمین ہی بنے گی‘ جہاں یہ بھارتی فوجی موجود ہوں گے۔ پاکستان‘ چین اور افغانستان کا دہشت گردی کے خلاف یاد داشت پر دستخط کرنے کے عمل کو سنجیدہ رخ دیتے ہوئے‘ اگر امریکہ کے ساتھ بھارت کی فوجیں بھی افغانستان سے نکل جاتی ہیں‘ تو پھرطالبان ا ور افغا ن حکومت کا بھیانک ٹکرائو کیسا؟ یہی وہ نکتہ ہے‘ جس کو سامنے رکھتے ہوئے افغان طالبان‘ امریکہ اور افغانستان سے امن مذاکرات کیلئے اپنے قدم بڑھا نا تو چاہتے ہیں‘ لیکن اشرف غنی کے ہاتھ کھینچنے والے طالبان کیلئے پرُ امن افغانستان کا وجود برداشت کر ہی نہیں سکتے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر اور برادرانہ تعلقات کے فروغ کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گا اور چین کی خواہش ہے کہ افغانستان بھی پاک چین راہداری کا حصہ بن جائے‘ جس سے افغان عوام کی ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔جیسا کہ اس سے قبل میں اپنے ایک مضمون میں خدشات ظاہر کرتے ہوئے لکھ چکا ہوں کہ سولہ دسمبر کو کابل میں ہونے والے اس سہ فریقی معاہدے سے سب سے زیا دہ تکلیف بھارت کو پہنچے گی ‘تو ابھی یہ معاہدہ ہوا ہی تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں سے منسلک پنجن رائے چوہدری نے آرٹیکل لکھتے ہوئے یہ ٹھونسنے کی کوشش کی کہ چین '' انڈو پیسفک ریجن‘‘ میں مداخلت کر رہا ہے‘‘۔
پنجن چوہدری کے ان الفاظ کا پس منظر بلا وجہ نہیں‘ کیونکہ اس باہمی یادداشت میں تینوں ملکوں نے آپس کے ذرائع آمد و رفت کیلئے آسانیاں‘ روزگار کے مواقع اور ایک دوسرے کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرنے کی حامی بھرلی ہے۔