"MABC" (space) message & send to 7575

13 ہزار میں کس طرح گزارہ کروں؟

میں پنجاب حکومت کے ماتحت پانی کی سپلائی اور نکاس کے محکمے کا ایک ''ورک چارج‘‘ ملازم ہوں اور صوبائی محتسب پنجاب سے لے کر چیف جسٹس آف پاکستان تک ہر با اختیار شخص کے سامنے صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسرے سینکڑوں ورک چارج ملازمین کی بھی تنخواہوں کی فریاد رکھ رہا ہوں۔ ان انتہائی قابل احترام‘ درد مند‘ معزز ہستیوں کے سامنے اپنی گزارشات پیش کرنے سے پہلے اپنے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہر اس شخص کے لئے دعا گو ہوں‘ جس نے میرے لئے عارضی (ورک چارج) ہی سہی‘ نوکری کا بندوبست کیا تاکہ میں اپنے تین بچوں اور بوڑھی بیوہ ماں کے لئے ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی کمانے کے قابل ہو جائوں۔ اگر میں آپ کو یہ بتائوں کہ میری کل تنخواہ 13 ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ ممکن ہے اس پر یقین نہ کریں‘ لیکن یہی حقیقت ہے۔ ہم لوگ گزشتہ تین تین سال سے اس ادارے میں کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ورک چارج ہی ہیں اور وہ تنخواہ جو تین برس پہلے ہمیں دی جاتی تھی‘ اس میں ایک پیسے کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا‘ حالانکہ گزشتہ حکومتوں اور شریف برادران نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہو گی‘ پھر کہا کہ اٹھارہ ہزار روپے ہو گی‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمیں مزدور ہی نہیں سمجھا جاتا‘ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری تنخواہ تیرہ ہزار سے اٹھارہ ہزار روپے نہ کر دی جاتی؟ پنجاب کی 56 کمپنیوں کے بارے میں نت نئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں‘ میں ان کے بارے تو کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ یہ حکمرانوں اور احتساب کرنے والوں کا معاملہ بن چکا ہے‘ لیکن اتنا کہنے یا پوچھنے کی اجازت سب سے مانگتا ہوں کہ پنجاب کی ان 56 کمپنیوں میں تو کسی کی تنخواہ بھی ایک لاکھ سے کم نہیں تھی‘ بلکہ اخبارات میں جو رپورٹس شائع ہو رہی ہیں‘ ان کے مطابق تو ان کمپنیوں میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں ایک لاکھ سے بائیس لاکھ روپے تک مقرر کی گئی تھیں‘ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی گندے نالوں میں کبھی نہیں اترا تھا۔ کسی نے بھی لاہور میں بارشوں کے بعد ندی نالوں کی طرح بہتے اور ابلتے ہوئے پانیوں میں کئی کئی گھنٹے کھڑے ہو کر نہیں دیکھا ہو گا۔
جناب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب! کیا آپ اور آپ کے ساتھیوں میں سے کسی کے دل میں یہ سن کر یا پڑھ کر کہ واسا کے ورک چارج سیور مین اسسٹنٹ پائپ فٹر یا ٹیوب ویل آپریٹر کو صرف تیرہ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے‘ حیرانی نہیں ہو رہی؟ کیا آپ کے دلوں میں ہمارے لئے ہمدردی کا ننھا سا جذبہ بھی بیدار نہیں ہوا؟ کیا آپ میں سے کسی نے ابھی تک نہیں سوچا کہ تیس دن تک اس طرح کے ملازم کس طرح زندگی بسر کرتے ہوں گے؟ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو یہ اپنا علاج کیسے کراتے ہوں گے؟ کیا کسی کا کلیجہ یہ سوچ کر منہ کو نہیں آ رہا کہ یہ سردیوں اور گرمیوں میں اپنے تن کس طرح ڈھانپتے ہوں گے؟ گوشت تو بہت دور کی بات ہے‘ دال روٹی بھی کس طرح پوری کرتے ہوں گے؟ اگر تو حکومتِ پنجاب اپنے تحت کام کرنے والے ان ورک چارج ملازمین کو انسان کا درجہ دیتی ہے تو پھر اسے ان کے ساتھ سلوک بھی انسانوں جیسا ہی کرنا چاہئے۔ جب کوئی حکومت اپنے سالانہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں یا ان کے الائونس اور مہنگائی الائونس کے نام سے کوئی ایڈہاک ریلیف منظور کرتی ہے تو آئین کے تحت وہ کون سی شق ہے جو افسر شاہی کو مجبور کرتی ہے کہ ورک چارج یا ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں پر اس کا اطلاق نہیں کرنا؟ کیا حکومت کو یہ اطلاع تو نہیں دے دی جاتی کہ یہ جو ورک چارج ملازمین ہیں‘ ان کے اور ان کے بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے ساتھ پیٹ کی بجائے پتھر بندھے ہوتے ہیں‘ ان کو نہ تو بھوک لگتی ہے اور نہ ہی ان کے بچے دودھ نہ ملنے پر روتے اور چیختے چلاتے ہیں؟ ممکن ہے میری یہ فریاد پڑھنے اور سننے والے سوچیں کہ شاید میں اپنی بات میں دلچسپی اور اثر پیدا کرنے کیلئے غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کل تک اورنج ٹرین کے لئے 260 ارب روپے اور پنجاب کی تین میٹروز کیلئے 120 ارب روپے خرچ کرنے والے شریف برادران کے دور میں کسی مزدور کو 13 ہزار ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہی ہو اور اب جب تبدیلی کے نعروں اور وعدوں سے اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس ملک کے ساٹھ فیصد سے زائد غریبوں کی زندگیاں بہتر کرے گی‘ تو بھی مختلف محکموں کے ورک چارج ملازمین کو ابھی تک تیرہ ہزار روپے ماہانہ ہی ادا کئے جا رہے ہوں؟۔
سمجھ لیجئے کہ میں ایک ایسا ورک چارج ملازم ہوں جو تین ہزار روپے کے ایک کمرے میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہ رہا ہوں‘ جس کا پانی‘ بجلی اور گیس کا بل شامل کر کے کرائے سمیت کل ماہانہ پانچ ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اب مجھے بتائیں کہ باقی 8 ہزار میں پانچ افراد پر مشتمل میرا (ورک چارج ملازم) کا گھرانہ کس طرح اپنی زندگی بسر کرتا ہو گا؟ اگر ریگولر ملازم اور ورک چارج ملازم کے کام کی نوعیت یکساں ہے‘ اگر ان دونوں کی تعلیمی قابلیت یا اہلیت یکساں ہے تو پھر ورک چارج ملازمین کو گزشتہ حکومتوں کی جانب سے بجٹ میں بڑھائی جانے والی تنخواہ کا حق دار کیوں نہیں سمجھا گیا؟ جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب اور محترم صوبائی محتسب پنجاب‘ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت میری اس فریاد کو قبول کرتے ہوئے اقتدار پر براجمان حکمرانوں کو حکم جاری کریں کہ ورک چارج کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک ہی نوعیت کے کام کرنے والے ان مزدوروں کا معاوضہ الگ الگ ہو۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ اگر یہ چند سطریں پڑھ لیں یا ان کی جماعت کا کوئی ہمدرد انہیں ورک چارج ملازم کی یہ فریاد سنا دے تو وہ اوپنر بیٹسمین عثمان بزدار کو حکم جاری کر دیں کہ پنجاب حکومت میں جتنے بھی ڈیلی ویجر یا ورک چارج ملازمین ہیں‘ ان کی تنخواہیں وہی مقرر کی جائیں جو اس پوسٹ پر کام کرنے والے کسی مستقل ملازم کی ہیں۔ سوچئے چالیس کلو وزن اٹھانے والے دو ملازمین کی تنخواہیں مختلف کیسے ہو سکتی ہیں؟ آٹھ سے دس گھنٹے روزانہ اپنے فرائض انجام دینے والوں کا ماہانہ مشاہرہ ایک جیسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ حضور والا! اگر ہم حق دار نہیں سمجھے جا سکتے تو ایک انسان ہونے کے ناتے سے ہی ہماری اس فریاد کو سن لیجئے۔ ہم ورک چارج ملازمین کو اگر مستقل ملازمین کے برابر تنخواہ مل جائے تو یقین کیجئے پنجاب حکومت کے ماہانہ بجٹ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 25 لاکھ روپے کا اضافہ ہو گا۔ ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کے مطابق اس ملک کا 35 ارب روپیہ باپ کا مال سمجھ کر ہضم کیا جا چکا ہے۔ کیا ڈیلی ویجر یا ورک چارج ملازمین کیلئے پچیس لاکھ بھی نہیں ہیں؟ ہم آپ سے کیک نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی مانگ رہے ہیں!
ورک چارج ملازمین کو اگر مستقل ملازمین کے برابر تنخواہ مل جائے تو یقین کیجئے پنجاب حکومت کے ماہانہ بجٹ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 25 لاکھ روپے مزید خرچ ہوں گے۔ ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کے مطابق اس ملک کا 35 ارب روپیہ باپ کا مال سمجھ کر ہضم کیا جا چکا 
ہے۔ کیا ڈیلی ویجر یا ورک چارج ملازمین 
کیلئے پچیس لاکھ بھی نہیں ہیں؟ ہم آپ سے کیک نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی مانگ رہے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں