صومالیہ میں بھوک اور نقاہت سے ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں صحرا میں پڑے ہوئے ایک افریقی سیاہ فام بچے کی تصویر آپ نے ضرور دیکھی ہو گی‘ جس سے کچھ دور بیٹھا ایک گدھ اپنی سفاکانہ نظریں اس بچے پر گاڑے ہوئے ہے۔ اس کی تیز چونچ اور خونخوار نوکیلے پنجے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی لمحے بچے پر جھپٹنے ہی والا ہے۔ اس تصویر کو دنیا بھر میں اول انعام کا حق دار قرار دیا گیا‘ لیکن وہ فوٹو گرافر‘ جس نے یہ تصویر اتارنے کے بعد واپسی کی راہ لی‘ زندگی بھر کیلئے نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا۔ اس نے یہ تصویر اتار تو لی لیکن بعد ازاں اس کا ضمیر یہ کہتے ہوئے اسے سونے نہیں دے رہا کہ کاش یہ تصویر اتارنے کی بجائے وہ وہیں رک کر ہڈیوں کے ڈھانچے پر مشتمل اس فاقہ زدہ بچے کو گدھ سے بچانے کی کوشش کرتا‘ اور اسے اول انعام کا حق دار تو بے شک قرار نہ دیا جاتا اور اس کی عالمی سطح پر مقبولیت بھی نہ بڑھتی‘ لیکن وہ افریقی بچہ‘ جو ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں نقاہت کی وجہ سے ایک انچ رینگنے سے بھی قاصر تھا‘ گدھ کے ہاتھوں نوچ نوچ کر نہ کھایا جاتا۔ اس فوٹو گرافر سے جب سوال کیا گیا کہ وہ گدھ کتنا بڑا تھا تو اس نے اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بالکل میرے جیسا‘ میری ہی طرح تھا۔ اس گدھ نے بچے کو نوچنے کے لئے اس کے مرنے کا انتظار کیا اور میں نے اسے اس سلسلے میں مدد فراہم کی تاکہ خونخوار گدھ اسے اپنے تیز اور نوکیلے پنجوں میں اٹھا لے جائے‘ اس لئے اس وقت سے اب تک وہ خود کو اس بچے کو نوچنے میں مدد دینے والا گدھ ہی سمجھ رہا ہے۔ اس نے بتایا: راتوں کو بے چینی اور خود سے نفرت محسوس کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں اور پھر رات بھر نیند نہیں آتی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی اور جیوری کے فیصلے کی روشنی میں پہلے انعام کی حق دار قرار پانے والی یہ تصویر کھینچنے والے فوٹو گرافر کے تاثرات سننے کے بعد میں نے بے ساختہ اپنے اندر اور ارد گرد چھپے ہوئے گدھوں کو دیکھنا شروع کر دیا‘ جو ہمارے ارد گرد بھوک، پیاس، بیماریوں اور مصیبتوں و تکلیفوں کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے انسانوں کو نوچنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ کوئی ڈیڑھ برس قبل میں نے ایک خلیجی ملک میں دو سال تک دن رات اوور ٹائم لگا کر واپس آنے والے نوجوان ارسلان کی کہانی لکھی تھی‘ جس کی ماں نے بھوک اور تین یتیم بیٹیوں کی تعلیم اور ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی آس پر اپنے مرحوم شوہر کی نشانی کے طور پر چھوڑے گئے چھوٹے سے گھر کو ڈھائی لاکھ روپے میں گروی رکھ کر ارسلان کے ویزے کا یہ سوچتے ہوئے بندوبست کیا تھا کہ اس کے بیرون ملک جانے اور وہاں محنت کرنے سے ایک دن یہ گھر واپس آ جائے گا‘ گھر کے اخراجات بھی پورے ہونا شروع ہو جائیں گے اور تین بیٹیاں بھی اپنے اپنے گھروں کو سدھار جائیں گی۔ ارسلان اپنی بیوہ ماں کی جانب سے اپنے غیر ملکی ویزے کے لئے دو برس قبل گروی رکھے گئے اپنے گھر کو واپس لینے کے لئے اپنے ساتھ لائے ہوئے پانچ ہزار سعودی ریال کے بدلے بادامی باغ کے ایک بینک سے حاصل کئے گئے ڈھائی لاکھ روپے لئے گھر کی جانب واپس جا رہا تھا کہ شاہدرہ کے پرانے پُل پر ایک پٹرول پمپ کے قریب عقب سے آنے والے موٹر سائیکل سوار رہزنوں نے اس کی کل متاع ڈھائی لاکھ روپے اسلحے کی نوک پر زبردستی چھیننے کے بعد اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ارسلان کی بیوہ ماں‘ جو شوگر کی مریضہ تھی‘ یہ خبر سنتے ہی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ یہ ایسا صدمہ تھا جس نے اس کی شوگر کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ اب بیوہ اپنی تین جوان بیٹیوں کے ساتھ اس بھری پری دنیا میں اکیلی تھی۔ اس کا کوئی بھی قریبی رشتہ دار نہیں تھا‘ سوائے ایک غریب اور لا چار مزدور شادی شدہ بھائی کے۔
جیسے ہی مجھے ارسلان اور اس کی بیوہ ماں کی کہانی کا علم ہوا‘ میں نے ''گروی گھر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا‘ جسے پڑھ کر خدا کے ایک نیک بندے‘ جس کے دل میں اﷲ نے خصوصی رحم کا جذبہ شاید اسی وقت کے لئے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا یا جس کی نجات کا ذریعہ ہی ارسلان کا یہ گھرانا بننا تھا‘ نے ارسلان کے خاندان کی مدد کے لئے مجھ سے رابطہ کیا اور نہ صرف وہ گروی رکھا گیا گھر ڈھائی لاکھ روپے دے کر واپس کرایا‘ بلکہ اس نوجوان کے قتل کے کوئی چھ ماہ بعد اس کی سب سے بڑی بہن کی شادی کیلئے بھرپور معاونت بھی کی۔ اس دوران کچھ ایسے لوگ بھی تھے‘ جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا‘ لیکن جنہوں نے اس خاندان کی مدد کا تحریری وعدہ کیا‘ لیکن جب ان کی آس پر انتظامات مکمل کر لئے تو انہوں نے مڑ کر خبر تک نہ لی اور وہ اخراجات مجھے اپنی محدود کمائی سے اور اپنی جیب سے پورے کرنا پڑے۔ اس وقت مجھے اس قدر پریشانی ہوئی کہ سوچا‘ یہ میں کیا کر رہا ہوں؟ لیکن شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ میرا شمار ان میں نہیں ہوا‘ جنہوں نے اس خاندان کو گِدھوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا مناسب سمجھا۔
کوئی دس برس قبل لاہور ڈیفنس کے علاقے بھٹہ چوک کے قریب ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو ایئر پورٹ جاتے ہوئے کچھ ڈاکوئوں نے لوٹ لیا۔ اس سے پانچ لاکھ روپے‘ موبائل اور قیمتی گھڑی چھین لی گئی۔ اس وقت کے آئی جی پولیس نے ڈی آئی جی کو یہ راہ زن پکڑنے‘ اور افسر کو اس کی رقم واپس دلانے کا کہا‘ اور لاہور کے ایک سرکل کے تمام ایس ایچ اوز کو سات لاکھ روپے پورے کرکے متعلقہ افسر تک پہنچانے کا حکم دیا۔ اسی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے بھی ''گروی گھر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے اس مضمون میں تجویز پیش کی تھی کہ اس وقت لاہور میں دو ڈھائی سو کے قریب پولیس افسر ہیں۔ اگر وہ ایک ایک ہزار روپے بھی دیں‘ تو ارسلان کا یہ گروی گھر بہ آسانی واپس آ سکتا ہے‘ لیکن ہوا یہ کہ بجائے اس مظلوم گھرانے کی مدد کرنے کے‘ ارسلان کے قتل کی ایف آئی آر درج ہونے کے کوئی چھ ماہ تک پولیس اس بیوہ کے پاس آتی‘ اور یہ کہہ کر اس سے کبھی تین ہزار تو کبھی پانچ ہزار روپے لے جاتی رہی کہ کچھ مشکوک لوگوں کی اطلاع ملی ہے‘ اس کے لئے سرگودھا، شیخوپورہ، نارووال اور گوجرانوالہ‘ حافظ آباد جانا ہے‘ ہمیں گاڑی اور پٹرول کے لئے پیسے دیں۔ اس غریب عورت نے بیٹے کے قاتل پکڑوانے کیلئے گھریلو اشیا تک بیچ دیں۔
ارسلان کی بیوہ ماں کی شوگر کی حد اب 512 تک پہنچ چکی ہے۔ تین دن میو ہسپتال لاہور میں رکھنے کے بعد ڈاکٹروں نے اسے واپس گھر اس حالت میں بھیج دیا ہے کہ اس کے دونوں پائوں کے تلووں اور ایڑھیوں پر سفید رنگ کے ابھرے ہوئے چھالوں کی بھرمار ہو چکی ہے۔ نہ تو وہ چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام کر سکتی ہے۔ مجھے ایک دوست نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: کیوں خواہ مخواہ پریشان ہو کر ان کے لئے اپیلیں کر رہے ہو۔ میں نے ایک لمحے کے لئے اپنا ہاتھ روک بھی لیا لیکن پھر سوچا‘ کیا میں بھی وہ فوٹو گرافر بن جائوں۔ اس وقت دو جوان غیر شادی شدہ بیٹیاں اور شوگر کی خطرناک حد تک پہنچی بیماری کے ساتھ ارسلان کی ماں بے حد مجبور ہے۔ وہ شاہدرہ کے رشید پارک کی اس آبادی میں رہتی ہیں‘ جہاں گلیوں میں منشیات کی منڈیاں کھلے عام کام کر رہی ہیں اور ستم یہ کہ جرائم پیشہ گروہ گلیوں سے گزرنے والی بچیوں کو دن دہاڑے اغوا کر رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں۔ اس قسم کے اب تک کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں‘ جبکہ بہت سے گِدھ اس بیمار بیوہ ماں کی جوان بیٹیوں پر ہوس ناک نظریں گاڑے بیٹھے ہیں اور انہیں نوچنے کیلئے نہ جانے کب سے تاک میں ہیں۔