''مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘ فرحت اﷲ بیگ کا لکھا ہوا یہ مضمون 70 کی دہائی تک میٹرک میں اُردو کی نصابی کتب کا سب سے دلچسپ مضمون سمجھا جاتا تھا۔ دوستوں کی چیرہ دستیوں اور زبردستیوں پر مشتمل یہ مضمون بہت کم لوگوں کو یاد رہ گیا ہو گا‘ لیکن ؛ اگر آج کسی پر یہ فقرہ سب سے زیا دہ صادق آسکتا ہے تو وہ خیر سے ہمارے وزیر اعظم عمران خان ہیں‘جن کے گرد نادان اور اوچھے قسم کے دوستوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ عمران خان کو باہر سے اتنا نقصان نہیں‘ جتنا ایسے قریبی دوستوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے پاس پہلے ہی ایسے دوستوں کی کمی نہیں تھی کہ اب خیر سے چند ایک اور کا اضافہ بھی ہو چکا۔ ان میں سے ایک صاحب نے خوشامد کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے انہیں خدا کے بعد بڑی طاقت قرار دے دیا ہے‘ تو دوسرے صاحب نے انہیں نوبیل انعام کا حق دار قرار دلانے کیلئے قومی اسمبلی میں قرار داد جمع کرا نے کا تماشا کرنے ہی والے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایسی کوششوں کو روکتے ہوئے ٹویٹ کر دیا کہ '' نوبیل انعام کے وہ کسی بھی صورت میں حق دار نہیں‘ کیونکہ نوبیل انعام کی اصل حق دار وہ شخصیت ہو گی‘ جو دنیا کو کسی بھی وقت ایٹمی جنگ میں دھکیلنے والے مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی رائے کے مطا بق‘ حل کرانے کیلئے سنجیدگی سے میدان عمل میں اترے گی‘‘۔
وزیر اعظم عمران خان کو اپنے ارد گرد خواہ مخواہ چمٹے ہوئے اس قسم کے بیوقوفوں اور سستی شہرت کے متلاشی خوشامدیوں کی صفائی کرنے کیلئے ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے ‘کیونکہ کچھ عرصے سے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات اور دشمن کی سازشوں کا جس طرح سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘تو حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد کی ہر دیوار اور کونے کی آنکھ ‘کان اور ناک کو بند کردیا جائے۔ کارگل جنگ کے دوران اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز خان کی فون پر نہایت ہی اہم اور سیکرٹ گفتگو کی ریکارڈنگ‘ جس طرح بھارت کے پاس پہنچی ‘وہ آج بھی سوالیہ نشان بن کر ہم سب کے سامنے ہے۔ وہ کون سے ہاتھ تھے‘ جنہوں نے ملک کی سالمیت کو اس قدر نقصان پہنچایا؟ بھارت کے وہ کون سے دوست تھے ‘جنہوں نے کارگل جنگ کے دوران چند روز کیلئے چین گئے ہوئے آرمی چیف کی پاک فوج کےCOGS کے ساتھ کی گئی گفتگو کی ریکارڈنگ کرانے میں معاونت کی اور اس ریکارڈنگ کی کیسٹ بھارت تک کیسے پہنچی‘ جسے میاں نواز شریف نے اپنی کتاب ''غدار کون‘‘ میں من وعن شائع کروایا ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی‘ اس لئے پاکستان کو درپیش سنگین خطرات اور سرحدی صورت حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے لا اُبالی قسم کے مرکزی وزراء کو قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت سے روکنا ہو گا‘ کیونکہ یہ وقت نادان دوستوں سے مشاورت کا بالکل نہیں ہے۔ جن کی کچھ ایسے سینئر ترین صحافیوں سے رازو نیاز ہے‘ جو ملک کے دفاعی اداروں کو ہمہ وقت نشانے پر لئے رکھتے ہیں اور جن کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کا تعلق ایک انتہائی طاقتور ملک کی خفیہ ایجنسی سے ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کو جان لینا چاہئے کہ وہ لوگ‘ جو ان سے ہمدردی رکھنے والوں‘ ان کے وژن اور مشن کا ساتھ دینے کیلئے بے لوث ہو کر ان کاساتھ دیئے جا رہے ہیں‘ ایسے لوگوں کووزیر اعظم عمران خان سے دور رکھنے کی کوششیں ‘ایسے ہی لوگ کر رہے ہیں۔ اس قسم کا گروہ خوشامدیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘ جو نہ جانے کس مشن پر ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کے مخلص دوستوں کو ایک ایک کرتے ہوئے ان سے دور کئے جا رہے ہیں۔ حسن نثار جیسا شخص بھی تنگ آ کر وزیر اعظم عمران خان کے ایسے دوستوں خلاف بول اٹھا‘ جنہیں منانے کیلئے عمران خان کو ان کے گھر تک جانا پڑا ۔ اب یہی ٹولہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے حصار میں لیے ہوا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ خوشامد کا نشہ دنیا بھر کے تمام نشوں سے خطرناک قرار دیا جا چکا ہے اور یہ اچھی بھلی شخصیت کو دیمک کی چاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ ماہ قبل ایک وزیر نے دھماکہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ڈالر ایک سو پچاس سے بھی آگے جا سکتا ہے ‘ جس نے اس ملک کی معیشت کا حشر کر کے رکھ دیا‘ کیونکہ ذخیرہ اندوزوں اور بلیک منی کے کاروبار سے کسی بھی طریقے سے متعلق لوگ جانتے تھے کہ اس وفاقی وزیر کی وزیر اعظم عمران خان سے بہت گاڑھی چھنتی ہے ۔یہی حال پنجاب کی کابینہ کا ہے۔ دو ماہ ہوئے‘ لاہور سیکرٹریٹ کے باہر سخت سردی اور بارش میں پنجاب بھر سے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز‘ اپنے بچوں سمیت دھرنا دے کر بیٹھی رہیں اور متعلقہ صوبائی وزیر سمیت ان کے کسی ذمہ دار شخصیت نے بھی ان بے چاری خواتین کی بات سننے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور پاکستان بھر کا میڈیا دکھاتا رہا کہ کس طرح شدید سردی ا ور بارش میں اپنے ننھے منے دودھ پیتے بچوں کے ساتھ یہ سب مرد و خواتین دو ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی فریاد لئے کانپتی اور ٹھٹھرتی رہیں اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت قائم ہوئے چاہ ماہ ہوئے تھے ۔گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین جب دو ماہ کی تنخواہ لینے کیلئے فریاد کرتی‘ ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کو موسلا دھار بارش اور ژالہ باری میں دیکھ رہی تھیں‘ تو اس وقت تبدیلی کے نام پر ووٹ دینے والے ہر جسم پر لگنے والے ندامت اور غصے کے کوڑے‘ ان سب کو بے چین کئے ہوئے تھے۔
گزشتہ دس دنوں سے لاہور میں گندگی کے وہ ڈھیر لگے ہوئے ہیں کہ اس شہر بے مثال کے نوے فیصد سے زائد شہری گھروں سے قدم نکالتے ہوئے بد بو کے بھبھکوں سے بے حال ہوتے دیکھے جا رہے ہیں ۔یہ کیسا پنجاب ہے ؟یہ کیسی پنجاب حکومت ہے کہ جو ابھی تک شہباز فورس کے ٹی ایم اوز اور میئر کے دفتر سے کی جانے والی کارستانیوں اور سازشوں کو سمجھ ہی نہیں سکی۔ جدھر نظر اٹھائو ‘گندگی ہی گندگی ہے اور اب تو صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ یہ گندگی پوری سڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ووٹ اس گندگی کیلئے نہیں تھے۔ہمارے ووٹ شہر وںکو صاف کرنے کیلئے تھے۔ ہمارے ووٹ گیس اور بجلی کی فراہمی کیلئے تھے ۔ہمارے ووٹ کسی بھی ایسی انتظامیہ کیلئے نہیں تھے ‘جسے یہ پتہ ہی نہیںچل رہا کہ اس کی ناک تلے کیا ہو رہا ہے‘ جسے یہ خبر ہی نہیں کہ مارکیٹ کمیٹیوں اور ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے اس ملک کے اسی فیصد سے زائد لوگوں کے باورچی خانوں کے استعمال کی اشیاء مہنگی بیچی جا رہی ہیں۔
وہ وزراء جو وزیر اعظم عمران خان کیلئے نوبیل انعام کی قرار دادیں پیش کرنے جا رہے تھے‘ وہ یہ بتائیں کہ ایل پی جی کی قیمتیں کون بڑٖھا رہا ہے؟غریب عام کے پانی کے بلوں میں نت نئے ٹیکسوں کا اضافہ کون کر رہا ہے؟ اگر نوبیل انعام لینا ہے‘ تو کسی عالمی ادارے کا نہیں‘ بلکہ اس ملک کے غریب عوام کے دل جیت کر ان کے دعا کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھوں سے انعام لیجئے۔بقول شاعر ''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ ۔