وزیر اعظم عمران خان نے وطن ِعزیز پاکستان میں عرصہ دراز سے کرپشن کے ہیبت ناک اژدھے کی بھینٹ چڑھنے والی ملکی معیشت اور اس سے کم وبیش اکیس بائیس کروڑ پاکستانیوں کی ناقابل برداشت زبوں حالی کے حوالے سے فرانسیسی اکانومسٹ فریڈرک کے حوالے سے جو ٹویٹ کیا ہے:
The worst affected from political corruption is the common man.
اس میں کسی مخصوص شخصیت‘ گروپ یا سیا سی پارٹی کی نشاندہی نہیںتھی‘ لیکن بختاور بھٹو زرداری '' چور کی ڈاڑھی میں تنکا‘‘ کے مصداق‘ جوابی ٹویٹ میں یہ کہتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان پر برس پڑیں کہ '' فرانس کے اکانومسٹ فریڈرک کے مقولے کو پہلے اپنی بہن پر لاگو کرلیں‘‘۔
وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان تو سپریم کورٹ اور ایف بی آر کے سامنے اپنے خلاف ریفرنس اور عائد کئے گئے جرمانے کی ادائیگیاں کر چکی ہیں‘ اس لئے بختاور جیسی لندن کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہونے والی ایک لائق اور فائق لڑکی سے اس قسم کے جلے کٹے فقروں کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مریم صفدر‘ حمزہ شہباز‘بختاور یا بلاول بھٹو سمیت تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کے لیڈران سے گزارش ہے کہ کرپشن چاہے کسی نے بھی کی ہو‘ اس شخص کو بری نظر سے دیکھنا یا اسے ناپسند کرنا‘ اس سے نفرت کرنا‘ کوئی گناہ تو نہیں۔ یقین کیجئے ہم نے تو وہ وقت دیکھا ہے جب محلے کے کسی راشی اہلکار کے گھر سے بھیجی گئی کھانے پینے کی اشیاء کو مائیں بچوں کو کھلانے کی بجائے ضائع کر دیا کرتی تھیں۔
قرآن پاک میں راشی کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے'' یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھائو‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘(4النسائ2 )'' یتیم کے مال کے قریب نہ جائو‘‘(6الانعام152 ) '' اے لوگو! تمہاری سرکشی تمہارے لئے مصیبت بننے والی ہے‘ دنیاوی زندگی کیلئے چند فائدے ہیں‘ پھر تم کو آنا تو ہمارے پاس ہی ہے‘ پھر تمہارا کیا ہوا‘ ہم سب تمہیں بتلا دیں گے‘‘(10 یونس23 )
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ بیت المال‘ سوشل سکیورٹی اور دنیا کے مختلف اداروں سے تعلیم‘ صحت‘ وائلڈ لائف‘ ترقیاتی اور فلا حی کاموں کیلئے بھیجی گئی امداد‘ پانی‘ بجلی ‘ گیس ‘ تیل‘ سڑکوں‘ ڈیمز ‘ پلوں کیلئے قرضوں کی صورت میں دی گئی اربوں ڈالرز کی رقم‘ ہر سال لاکھوں پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس سے حاصل ہونے والی زکوٰۃ لوٹنے والوں کومذکورہ آیات مبارکہ پر توجہ دینا چاہیے۔ایک اطلاع کے مطا بق؛ صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘جو اس ملک کی بیوائوں‘ یتیموں‘ غرباء ‘ نادار مریضوں اور انتہائی کم آمدنی والے مزدوروں اور کسانوں کیلئے شروع کیا گیا تھا‘ اس کے کھاتوں سے اب تک کم از کم پچاس ارب روپے سے زیا دہ کی لوٹ مار کی جا چکی ہے۔ یہ لوٹ مار کرنے والوں نے دیہاتوں‘ قصبوں‘ تحصیلوں کے غریب لوگوں کے شناختی کارڈز پر وسیلہ حق روزگار کے نام سے تین سے پچیس لاکھ روپے نکلوا کر اپنے پاس رکھے اور ان غریب شناختی کارڈ ہولڈرز کو پانچ ہزار روپے دینے کے بعد باقی کی دولت حرام کا مال سمجھ کر ڈکار ما رکر ہضم کر گئے۔ 2013ء کے جس روز پی پی پی حکومت کی مدت ختم ہوئی‘ اس دن استعمال کئے گئے اے ٹی ایم کارڈز اور ان سے نکالی گئی رقم ہی ثبوت کیلئے کافی ہو گی۔ یہ چہرے اور بے نظیر انکم سپورٹ کے نئے اور پرانے افسران کے نام سب کے سامنے ہیں‘ لیکن ادارے نہ جانے کیوںان کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈررہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے فرانسیسی اکانومسٹ فریڈرک کے جس قول کا ٹویٹ کیا تھا‘ اسے ذرا غور سے پڑھئے! اور فیصلہ کیجئے کہ اس میں کس کی ذات پرحملہ کیا گیا ہے‘ جس کا پی پی پی نے برا منا لیا ہے۔
When plunder becomes a way of life for a group of men in a society, over the course of time they create for themselves a legal system that authorizes it.
'' کرپشن جیسی موذی بیماری کا علاج ٹرانسپیرنسی کے سوااور کچھ نہیں‘‘ ( جیمز ڈنکن) ''کرپشن طوائف سے بھی بد تر ہوتی ہے۔ طوائف چند لوگ کی اخلاقی طور پر خرابی کا باعث بنتی ہے‘ جبکہ کرپشن سے پورا معاشرہ معاشی ‘سماجی اور اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتا ہے‘‘(کارل کرائوس)''کرپشن ہماری آزادی کے مقاصد کو تباہ کر دیتی ہے‘ جس معاشرے اور ملک کے لوگ کرپشن سے مفاہمت کر لیں ‘ان کی آزادی اور سالمیت زیادہ دیر تک بر قرار نہیں رہ سکتی‘‘ ( ایڈمنڈ بروک)''میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو شخص دوسرے کو رشوت کی پیش کش کرتا ہے‘ در اصل وہ اپنی حمیت میں کمی کا شکار ہوتا ہے اور ایک مرتبہ رشوت قبول کرنیوالا اخلاقی طور پر اس طرح کمزور ہوجاتا ہے‘ جیسے طوائف فراہم کرنے والے کو دام دیئے جاتے ہیں‘‘( گراہم گرین) '' دنیا برے لوگوں کی وجہ سے تباہ نہیں ہوتی‘ بلکہ ایسے لوگوں کو برائی کرتے ہوئے روکنے کی کوشش نہ کرنے سے ہوتی ہے‘‘ ( البرٹ آئن سٹائن)
امریکہ میں ہونے والی خانہ جنگی کے عروج پر فادر آف دی امریکن لٹریچر مارک ٹوین نے1873 ء میں: The Gilded Age: A Tale of Today کے عنوان سے امریکہ میں سیا سی کرپشن کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ '' آج ہم پر ایک بہترین حکومت ہے ‘جسے دولت کسی بھی وقت خرید سکتی ہے‘‘۔( اس کا ہم پاکستان کی سیا سی حکومتوں سے موازنہ کر سکتے ہیں) ۔ مارک ٹوئن نے اپنی کتاب میںامریکیوں کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھاہے ''کسی ملک کی حکومت اس وقت تک بہتر گورننس نہیں دے سکتی‘ جب تک اس کے شہری اپنے اندر مذہبی جذبات اور رسومات کی پابندیوں کی طرح یہ عہد بھی نہ کرلیں کہ وہ اپنے ملک کے قانون کے گارڈین ہیں اور قانون پر عمل کرانے والا عملہ اور افسران فقط ایک مشین ہیں ‘جو اُن کیلئے کام کرتی ہے‘‘۔
آج بحیثیت قوم پاکستانیوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ ان کے سامنے ان کے ملک کے قانون کو مختلف مفادات اور تعلقات کی لاٹھی تلے پیٹا جا رہا ہے اور پوری قوم لایعنی قسم کی خرافات میں ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ہے۔ کسی کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ جس ملک کا قانون موم کی ناک بن جائے ‘اس ملک کی معیشت اور سالمیت نیچے کی جانب سرکنا شروع ہو جاتی ہے‘ جس کی مثال ہماری تباہ حال معیشت اور پی آئی اے ‘ سٹیل مل جیسے قومی اداروں کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
نوبل انعام یافتہ مصنف جان سٹن بک نے1957ء میں انقلاب فرانس کے حوالے سے اپنی کتاب کے ایک مختصر سے اقتباس میں لکھا ہے '' اقتدار کبھی بھی کرپٹ نہیں ہوتا ‘بلکہ اس اقتدار کے اندر ایک خوف ہوتا ہے‘ جو کرپشن کرتا ہے اور وہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ اقتدار ان سے چھن نہ لیا جائے‘‘ ۔وطن عزیز پاکستان میں سوائے چند ایک لیڈروں کے ‘جو لوگ بھی اقتدار میں رہے‘ ان سب کے اندر کا خوف کہ کہیں ان کا اقتدار ختم نہ ہوجائے‘ ہر قدم پر ان لوگوں کو کرپشن اور رشوت ستانی پر مجبور کرتا رہا اور ایسے سیا ستدانوں اور افسروں کو خوف میں مبتلا کر کے ‘ انہیںاپنے اقتدار کے زینے اور طاقت سمجھ کر اور ان کے دلوں میںمچلتے ہوئے لالچ کو مزید ابھارکر ان کو یہ کہتے ہوئے کھلی چھٹی دے دی کہ '' ہم تم سے راضی ‘تم ہم سے راضی‘‘ ۔