بھارت سے مذاکرات کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شرط عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے مقبوضہ کشمیر کی تمام سیا سی قیا دت کو رہا کرنا ہو گا‘ یہ خبر اس قدر چونکا دینے والی تھی کہ یقین ہی نہ آ سکا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ بھارت کو ان حالات میں اس قسم کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ قریشی صاحب کو یہ پیش کش کرنے کی اجا زت کس نے دی ؟ کیا وزارت خارجہ کی دور اندیشی یہیں تک محدود ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ بھارت تو بہت جلد خود ہی کشمیری رہنمائوں کو رہا کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر سے کرفیو کی شرائط نرم کرنے والا ہے؟ پھر آپ نے بھارت سے صرف کشمیری رہنمائوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مذاکرات کی پیش کش کیوں کی؟مذاکرات کے لیے آپ کو ایک نہیں بلکہ کئی شرائط عائد کرنا ہوں گی‘ جن میں مقبوضہ کشمیرسے گرفتار کئے گئے تمام افراد کی غیر مشروط رہائی‘ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بل کی معطلی اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ سے دیے جانے والے حقِ خود ارادیت کا اعلان۔
امن اور دوستی کسے پسند نہیں ‘لیکن مودی جیسے انتہا پسند ہندوئوں کی مسلم دشمنی صدیوں پرانی ہے ۔پاکستان بننے سے ایک برس قبل‘1946ء میں انگریز گورنر‘ وائسرائے ہند کو خط میں لکھتے ہیں '' گڑھ مکتیشر میلے میں جنونی ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے مسلمان خواتین کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا‘جبکہ امریکی جریدے نیوز ویک نے اپنے15 جون1987ء کے شمارے میں بتایا کہ بارہ سال کے ایک بچے نے ہندوئوں کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے فریاد کی کہ اس کے باپ کو نہ ماریں‘ جس پر ہندوئوں نے پہلے اس بچے اور بعد میں اس کے باپ کو قتل کیا۔ مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں سے ہندوئوں کی نفرت اب سرکاری حیثیت اختیار کر چکی ہے‘ جبکہ ہمارے تیز طرار سمجھے جانے والے وزیر خارجہ بھارت سے مذاکرات کے خوابوں میں گم ہیں۔ ہندوستان سے سیا چن اور کشمیر پر پاکستان نے درجنوں مذاکرات کئے‘ کسی کا کوئی نتیجہ نکلا؟ جناب خدا کے لیے اس طرح کی پیشکش کر کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے رک جایئے‘ مذاکرات کی پیشکش کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ کیونکہ وزیر اعظم ہائوس سے ملنے والی معلومات کے مطابق تو وزیر اعظم عمران خان نے تو اس بیان پر انتہائی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔مبینہ طور پر انہوں نے کہاہے کہ جب میں کہہ چکا ہوں کہ اب بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے تو پھر انہیں یہ پیشکش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے حامی چند ایسے وزرا کے خلاف سراپا ا حتجاج بنے ہوئے ہیں ‘لیکن نہ جانے وزیر اعظم عمران خان ان کی کیوں نہیں سن رہے؟ کابینہ کے وہ اراکین جو بغیر کسی کی اجا زت کے کابینہ اجلاس میں کی جانے والی خفیہ باتوں کو کمرے سے نکلتے ہی چسکے لے کر ظاہر کر دیتے ہیں ‘اگر دیکھا جائے تو یہ کابینہ اراکین کے حلف سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ کیبنٹ ڈویژن کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کابینہ میں کی جانے والی باتوں کو افشا کرنا غیر قانونی اور اپنے حلف کی خلاف ورزی ہے‘ لیکن یہاں کسی کو پروا ہی نہیں ۔کابینہ اجلاس کے بعد پہلا کا م ہی ٹویٹ کے ذریعے ہال میں ہونے والی ہر اندرونی گپ شپ اور وزرا اورمشیروں کی باہمی چپقلش کو افشا کرنا فرض اولین سمجھ لیا گیا ہے۔کیا یہ چہرے وزیر اعظم صاحب کے سامنے نہیں؟ کیا کوئی بھی ادارہ عمران خان صاحب کو ایسے وزرا کی نشاندہی نہیں کر رہا؟
محترم وزیر خارجہ صاحب بھارت کی تو شدت سے خواہش ہے کہ پاکستان کو مذاکرات کے چکروں میں مصروف رکھے۔ یہی تو اس کا مکڑی کی طرح کا بنا ہوا جال ہے‘ جس میں وہ پاکستان کو الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ یاد رکھئے گا ‘اب تک بھارت کی کشمیر‘ سیا چن سمیت دوسرے تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کی رفتار کچھوے سے بھی سست ہے‘ جبکہ دنیا کو دکھانے کے لیے پاکستان کی جانب دوستی کا سفر وہ خرگوش کی رفتار سے کرنے کا دعویٰ کرتا ہے‘ لیکن یہ سب بھارت کی مکاریاں ہیں۔ جناب ِ من آپ کو حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب''26/11 ‘ ہیمنت کر کرے اور اجمل قصاب‘‘ کے باب '' شاہ محمود قریشی نئی دہلی میں‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا''26 نومبر کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے وفد کے ہمراہ نئی دہلی پہنچے اور اُسی رات گئے یک دم دنیا بھر میں ممبئی حملوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا‘‘ ۔قریشی صاحب آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان مذاکرات کے لیے امریکہ نے بیک چینل رابطوں کے ذریعے کتنی کوششوں سے راہ ہموار کی تھی ۔آپ امریکہ کی بھر پور کوششوں سے نئی دہلی پہنچے تھے‘ آپ میری کتاب کایہ باب پڑھئے‘ جس میں ممبئی حملوں کے تنا ظر میں گفتگو کرتے ہوئے دنیا بھر کے سامنے سوال رکھا ہے کہ ''سیا چن‘ کشمیر‘سر کریک‘ باہمی تجارت اور بگلیہار ڈیم پر مذاکرات کا ایجنڈا دونوں ملکوں کے سامنے تھا اور اس کے لیے کئی برس سے کوششیں کی جا رہی تھیں توپھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان کئی برس کی درخواستوں اور امریکی کوششوں سے تیار کی جانے والی مذاکرات کی میز کو ممبئی پر حملے کروا کر سب کچھ ملیا میٹ کر دے؟اسی طرح 2007 ء سیاچن کے معاملے پر بات چیت کے لیے جب خورشید قصوری کو انڈیا جانا تھا تو سمجھوتہ ایکسپریس کا سانحہ پیش آ گیاجب سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں کو بم دھماکوں اور آگ پکڑنے والے مادے کے ذریعے تباہ کرتے ہوئے 16پاکستانی مسافروں کو 17 اور 18 فروری 2007ء کی رات زندہ جلا دیا گیا۔ عجب اتفاق ہے کہ اس سے اگلے ہی روز یعنی 19فروری کوپاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھارت سے امن مذاکرات کے لیے نئی دہلی پہنچناتھا۔
ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ نہ کل پاکستان کے ساتھ مخلص تھی ‘نہ آج ہے اور نہ ہی کل ہو گی‘ اور اس وقت تو انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو نیم عسکری تنظیم آر ایس ایس کی شکل میں اپنا نیا اتحادی مل چکا ہے۔ ایسے میں ان سے مذاکرات کی درخواست کرنا دیوار سے سر پھوڑنے سے زیا دہ اور کچھ نہیں۔ یہ وہی بھارتی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے آگرہ میں جنرل مشرف اور واجپائی کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی کاپیاں ایڈوانی کے ذریعے ان کے سامنے پھاڑ کر پھینکوادی تھیں ۔یہ وہی بھارتی اسٹیبلشمنٹ ہے‘ جس نے بھارتی وزیر اعظم گجرال کی اجا زت کے بغیر‘ اسے مکمل لاعلم رکھتے ہوئے پاکستان کی سرحد وںکے بالکل سامنے جالندھر میں میزائل نصب کر دیئے تھے۔ یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے بریگیڈیئر اوم پرکاش نے پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات سے چند گھنٹے پہلے نئی دہلی سے بیان داغ دیا کہ '' سیا چن پر قبضہ لداخ کے دفاع کے لیے اہم ہے۔ اگر ہم نے یہ خالی کیا تو پھر پاکستان یہاں سے نئی دہلی کو ڈکٹیٹ کرنے کے قابل ہو جائے گا ‘‘۔
بھارت کے اس ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ مذاکرات کی بے نتیجہ سرگرمیوں میں مصروف ہو کر خود کو بھارت سے ایک دفعہ پھر ڈسوانے سے بچا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی ایک پالیسی ہونی چاہیے اور حکومت کے سبھی عہدیدار وںکو اسی پر کابند رہنا چاہیے۔ مذاکرات کے نتائج پہلے ہی دیکھ چکے ہیں‘ اب اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ‘ کیونکہ ہمارے رہنماؤں کی جانب سے ایسے بیانات کو بھارت ہماری کمزوری سمجھتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ آخر ہم نے یہ کیوں فرض کر لیا ہے کہ بھارت کو مذاکرات پر راضی کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنی پالیسی کی بنیاد پر کھڑے رہنا ہو گا‘ ہمارا دم خم ہی ہماری طاقت کا مظہر ہے ‘جبکہ مذاکرات کی التجاؤں سے ہماری کمزوری ظاہر ہوتی ۔