بنگلہ دیش کی ویمن کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان کا اعلان سنتے ہی بھارتی سرکار کے پیٹ میں شدید قسم کے مروڑ اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے سری لنکن کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان کو رکوانے کیلئے بھی بھارت نے کئی کوششیں کیں۔ یہاں تک کہاگیا کہ سری لنکن ٹیم کی زندگیاں خطرے میں ہوں گی اور اس سلسلے میں لنکن کھلاڑیوں اور ان کے خاندانوں کو بھی پاکستان میں ممکنہ خطرے سے خوف زدہ کیا گیا‘ لیکن سری لنکن حکومت نے سخت موقف اپناتے ہوئے سری لنکن کرکٹ بورڈ کو ہر صورت میں دورۂ پاکستان کیلئے تیار کیا ۔بے شک یہ دورہ مختصر عرصے کیلئے کیا گیا‘ لیکن پرُ سکون ماحول میں جس طرح کراچی اور لاہور میں دونوں ٹیموں کے دوران ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچ کھیلے گئے‘ اس کے اثرات پاکستان کی کرکٹ کیلئے بے حد حوصلہ افزاء رہے۔یوںپاکستانی کرکٹ شائقین تو لطف اندوز ہوئے ‘ لیکن بھارت مہمان ٹیموں کے ساتھ پاکستانیوں کے بہترین رویے اور انتظامیہ کے ترتیب دیئے گئے فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کی وجہ سے اپنے ارادوں کی ناکامی دیکھ دیکھ کر جیسے کانٹوں پر لوٹتا رہا‘ کیونکہ سارک کے دو اہم ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے دورۂ پاکستان نے گویا بھارت کی دن رات کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
کچھ روز قبل جب بنگلہ دیش کی ویمن کرکٹ ٹیم کا دورۂ پاکستان جاری تھا‘ تو بھارت نے نیپال اور بنگلہ دیش میں پاکستان کے دو اتاشیوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ان اتاشیوں کے ذریعے بنگلہ دیش اور نیپال سے جعلی انڈین کرنسی کشمیر اور بھارت فلوٹ کر رہا ہے‘ تاکہ کشمیر میں جدو جہد آزادی کیلئے بھیجے گئے‘ مجاہدین اور کشمیر کی بہت سی دوسری انڈر گرائونڈ تنظیموں کی فنڈنگ کر سکے اور پاکستان کے اتاشی جو ڈھاکہ اور کھٹمنڈو کے پاکستانی سفارت خانوں میں بطورِ ڈیفنس اتاشی تعینات ہیں‘ وہ بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کی صورتحال کو مبینہ طور پربگاڑنے کیلئے کروڑوں روپے جعلی کرنسی کی صورت میں وہاں بھارتی فوج پر حملے کرنے والے دہشت گردوں اور مختلف سیا سی گروپوںتک پہنچاسکیں ‘تاکہ اس سے بھارت کے اندرونی حالات کو خراب کیاجا سکے۔نریندر مودی کی مکار اور مسلم دشمن ذہنیت نے اسی پر بس نہیں کیا‘ بلکہ نیپال میں پاکستانی سفیر مظہر جاوید پر بھی الزامات لگادیئے کہ وہ کھٹمنڈو اور نیپال کے دوسرے حصوں میں تعلیم یافتہ ‘ ہیومن رائٹس تنظیموں اوراس کے دانشوروں کے مختلف گروہوں سے رابطے کرتے ہوئے‘ ان کے ذہنو ں اور دلوں میں بھارت کیخلاف نفرت اور غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔ مہاراج گنج کھٹمنڈو میں واقع سفارت خانے میں 27 ستمبر کو پاکستانی سفیر مظہر جاوید نے ہیومن رائٹس سے متعلق مختلف تنظیموں کے30 سے زائدسفارت کاروں اور دانشوروں کو مدعو کیا ہوا تھا‘ یہ سب لوگ تو سفارت خانے کی عمارت میں خوش گپیوں سمیت دنیا بھر میں ہونے والے مختلف واقعات پر تبصرے کر رہے تھے‘ جبکہ مہاراج گنج کی اس عمارت کے باہر اور نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے آئی بی اور راء کے افسران اپنے ماتھوں پر بہنے والے پسینے کو بار بار صاف کر رہے تھے اور چند روز بعد نئی دہلی سے نیپالی حکومت سے سخت احتجاج کیا گیا کہ پاکستانی سفیر مظہر جاوید کو ناپسندیدہ شخص قرار دے دیاجائے ‘کیونکہ وہ نیپالی عوام کے دلوں میں بھارت کیخلاف کشمیر سمیت دوسرے مسائل اور صورت حال پر جھوٹے منا ظر اور فلمیں دکھا کر نفرت اوراشتعال پیدا کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ایک یورپی ملک کے سفارت کار کے اُس محفل میں بولے گئے اس جملے سے ہوئی‘ جس سے وہاں موجود حاضرین بھی محظوظ ہوئے:
With brazen annexation of IOK, India has left no ambiguity in radiating her true colour to the world.
اب یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ بھارت جیسے بڑے ملک کی وہاں مدعو مہمانوں میں سے کسی ایک تک رسائی نہ ہو ئی ہو‘ جس نے یہ فقرہ بھارتی سرکار تک پہنچایا ‘ جس سے بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی آگ بگولا ہوگیاا ۔بعد ازاں جیسے ہی بھارت کی جانب سے نیپال میں پاکستانی سفیر کی جانب سے دیئے گئے اس عشائیہ پر ایک لمبی چوڑی خفیہ رپورٹ بنا کر نیپالی حکومت کے سامنے لائی گئی‘ تو دنیا بھر کے سفارتی حلقے اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد بے ساختہ ہنسنا شروع ہو گئے اور نیپال میں مغربی ممالک سمیت بہت سے دوسرے سفارت کاروں نے بھارت کی اس بچگانہ قسم کی حرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا '' دنیا کے ہر ملک کے سفیر کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے ملک کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات پیدا کرے‘ اپنے ملک کیلئے بزنس سمیت ہیومن رائٹس کی تنظیموں میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرے اور یہی پاکستانی سفیر مظہر جاوید نے27 ستمبر کو اپنے سفارت خانے کی عمارت میں نیپال میں موجود سفارت کاروں‘ دانشوروں سمیت ہیومن رائٹس کی تین درجن سے زائد تنظیموں کے عہدیداروں کو مدعو کر کے کیا۔کیا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارت کے کسی بھی سفارت خانے میں وہاں کے دانشوروں‘ ہیومن رائٹس کی تنظیموں‘ سفارت کاروں اور میڈیا ہائوس کے مالکان اور صحافیوں سمیت مزدور لیڈروں کو کبھی مدعو نہیں کیا گیا؟ کیا اسلام آبادمیں بھارتی ہائی کمیشن کی عمارت میں اس قسم کی سوشل تقریبات نہیں ہوتیں؟اگر نیپال مین مقررپاکستانی سفیر مظہر جاوید نے اسی قسم کی سوشل تقریب ترتیب دی تو یہ جرم کیسے ہو گیا؟اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے قبل اور اس کے دوران وہاں موجود سفارت کاروں نے کیا یہ فرائض ا نجام نہیں دیئے؟کیا ہر سفارت کار اپنی اپنی لابیاں بنانے کی کوششیں نہیں کرتا ہے؟ ۔
جب یہ سب ایک معمول ہے تو کسی ایک سفارت کار کے عشائیہ پر اعتراض کیوں؟بھارت نے کشمیر پر72 برس سے جو جبری فوجی تسلط جما رکھا ہے‘9 لاکھ سے زائد فوج اور دو لاکھ کے قریب بارڈر سکیورٹی فورس ‘ سینٹرل ریزرو پولیس اور ریاستی پولیس کے ساتھ ہر کشمیری کے گھر کو گھیرے میں لے رکھا ہو‘ کیا اس ظلم اور بر بریت کے خلاف پاکستان اتنا بھی نہیں کر سکتاکہ وہ دنیا بھر کے انسان دوست لوگوں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سفارت کاروں کی بھارت کے اس ظلم و جبر کی جانب متوجہ کرے۔
سب سے مضحکہ خیز اور گھٹیا قسم کا الزام جو نیپال اور بنگلہ دیش کے پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات فوجی اتاشیوں پر یہ کہتے ہوئے لگایا جا رہا ہے کہ نریندر مودی حکومت کی معیشت کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بھارت اور کشمیر میں جعلی کرنسی کی بھر مار کر رہا ہے‘ جس سے ایک جانب وہ کشمیرمیں آزادی کی تحریک چلانے والے مختلف گروپوں کی مدد کر رہا ہے‘ تو دوسری جانب بھارت میں افراط زر پیدا کرتے ہوئے بھارتی اکانومی کو تباہ کر رہا ہے‘ جس کابھارت کی معیشت پر انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے‘ جبکہ بھارت‘ پاکستان سے برآمد ہونے والی اشیاء کو روکنے کیلئے کئی بار حیلے بہانوں سے سہارا لیتا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ رواں سال فروری میں پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستانی برآمدات پر 200فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کردی تھی اور پاکستان کی موسٹ فیورٹ نیشن ( ایم ایف این ) کی حیثیت بھی ختم کردی تھی ‘جس کے نتیجے میں پاکستان سے بھارت کو جانے والی سینکڑوں سیمنٹ کے ٹرک رک گئے تھے ‘اسی طرح اپریل میں بھی بارڈر سے جانے والی اشیاء کو یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ ان اشیاء کی آڑ میں اسلحے اور جعلی کرنسی کی سمگلنگ کا خدشہ ہے۔