"MABC" (space) message & send to 7575

سچ کی تلاش مشکل تو نہیں

سات جولائی 2018ء کو لیفٹیننٹ جنرل حمو د الزماں خان نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا کو تفصیلی بریفنگ میں انہیں یقین دلایا کہ آرمی الیکشن سپورٹ سنٹر 25 جولائی 2018ء کو ملک بھر میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے پر امن انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کے جار ی کردہ تمام احکامات کی تعمیل کرے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل حمود الزماں خان نے چیف الیکشن کمشنرسردار رضا کو آرمی چیف کی جانب سے یقین دہانی کرائی کہ الیکشن کمیشن ملک میں غیر جانبدار اور تشدد سے پاک انتخابات کے انعقاد کیلئے جو کوششیں کر رہا ہے ملک کی دفاعی قوتیں اس کیلئے الیکشن کمیشن اور قوم کے ساتھ ہیں اور اس سلسلے میں انہیں مجاز حکام سے جو بھی احکامات جاری کئے جائیں گے انہیں ہر ممکن طریقے سے انجام دیا جائے گااور ملکی افواج عوام کو اپنی مرضی کی قیا دت منتخب کرنے کیلئے پر امن ماحول فراہم کریں گی اور اپنی ان قومی ذمہ داریوں کو جو الیکشن کمیشن انہیں سونپے گا پورا کرتے ہوئے تمام نگران صوبائی حکومتوں سمیت سب سے مکمل تعاون کرے گی۔ لیفٹیننٹ جنرل حمودالزماں خان اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا کی اس ملاقات کی خبریں8 جولائی کے تمام اردو اور انگریزی اخبارات میں نمایاں ہیڈ لائن کے ساتھ شائع ہوئیں ۔اس لیے ایک بات واضح ہوجانی چاہیے کہ2018ء کے انتخابات میں پولنگ سٹیشنوںکے اندر اور باہر امن و امان کیلئے فوج کی تعیناتی اپنی مرضی یا کسی سیا سی شخصیت کی ذاتی خواہش پر نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر کے حکم سے کی گئی تھی۔اس لیے مولانا فضل الرحمن‘ بلاول بھٹو زرداری ‘میاں شہباز شریف‘محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کا آزادی مارچ کے شرکا سے یہ کہنا کہ عمران خان کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوجی تعینات کئے گئے‘ انتہائی گمراہ کن اور صریحاًجھوٹ پر مبنی الزام کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ عوام کے ووٹوں سے شکست کھانے کے بعد قومی اداروں پر الزام تراشی پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘۔
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلا ول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولنگ بوتھ کے باہر فوجی جوانوں کی تعیناتی تو درست تھی ‘لیکن پولنگ سٹیشنوں کے اندر جوانوں کی تعیناتی سمجھ سے بالا تر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولنگ سٹیشن کے اندرکسی فوجی کو تعینات نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان بھر میں جب بھی انتخابات ہوئے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے جانے والوں کو1977ء سے 2018ء تک پولیس کے علا وہ اس وقت کی حکمران جماعتوں کے کارکنوں پر مشتمل ایک سپیشل فورس بھی نظر آتی رہی ہو گی اور ہر الیکشن میں مقامی پولیس اور یہ کارکن حکمران جماعتوں کے امیدواروں کے حکم سے اپنی مرضی کی پولنگ سکیم جاری کراتے رہے ہیں۔2013ء کے انتخابات میں جب فوج صرف پٹرولنگ تک محدود تھی توہم لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن پر جا کر قطاروں میں لگ گئے‘ سخت گرمی کے با وجودخواتین ایک گھنٹے سے قطاروں میں کھڑی انتظار کر رہی تھیں ‘جبکہ دوسری جانب ایک خاتون جس کے ہاتھ میں ایک تھیلے میں شناختی کارڈ بھرے ہوئے تھے‘وہ کوسٹروں میں لائی ہوئی خانہ بدوش خواتین کو پولیس کے ایک سب انسپکٹر کی نگرانی میں لیگی امیدوار کیلئے ووٹ کاسٹ کرا رہی تھی ‘جبکہ قطار میں کھڑی خواتین جن کے ہاتھ میں تحریک انصاف کے امیدوار کی انتخابی پرچیاں تھیں‘ انہیں دیر تک کھڑا رکھا گیا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے کہ پولنگ سٹیشنوں میں فوج کی تعیناتی پاک فوج کی قیادت کے حکم پر نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر کے حکم سے ہوئی تھی۔ اگر بلاول بھٹو زرداری مناسب سمجھیں یا ان کے تقریر نویس چاہیں تو8 جولائی کے قومی اخبارات یا چیف الیکشن کمیشن کے دفتر سے اس کی معلومات لے سکتے ہیں کہ پولنگ سٹیشن کے اندر فوجیوں کی تعیناتی کسی سیا سی جماعت کی خواہش تھی یا چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کے اس حکم کے تحت کی گئی جس میں انہوں نے آرمی الیکشن سپورٹ سنٹر کے جنرل حمود الزماں خاں کو کہا تھا '' The Army would be deployed in and outside 85,000 polling stations across the country‘‘۔ پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج کی تعیناتی کے احکامات کے تحت پاکستان بھر میں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں اپوزیشن میں شامل ان تمام جماعتوں نے حصہ لینے کے بعد کامیابیاں حاصل کیں‘ کیا(ن) لیگ کو این اے56 اٹک‘این اے103 فیصل آباد‘این اے124 اوراین اے131لاہور اورپی پی27 جہلم کی کامیابیاں یاد نہیں؟ سندھ میں چیف الیکشن کمیشن کی جانب سے دی جانے والی فوج کی تعیناتی کے با وجود پی پی پی بھی شاید صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں اور این اے205 گھوٹکی کی کامیابیاں بھول چکی ہے۔اور جیسے ہی تحریک انصاف کے معظم عبا سی لاڑکانہ سے بلاول کے تقریر نویس جمیل سومرو کو شکست دے کامیاب ہوئے تو چلانا شروع کر دیا گیا کہ فوج پولنگ سٹیشن کے اندر کیوں تعینات کی گئی؟ اگر آپ سب کو اعتراض ہے تو سپریم کورٹ چلے جائیے کہ آئندہ انتخابات میں صرف ان کی پولیس کو کھڑے ہونے کی اجا زت دی جائے‘تاکہ ان کے امیدوار جب چاہیں پولنگ بوتھ پر تعینات مرد اور خواتین انتخابی عملے کو بلا لحاظ تھپڑوں سے سیدھا کرنا شروع کر دیں۔ 
عجب تماشا ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ کھڑے ہو کر کسی تیسرے شخص کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ قتل اس نے کیا ہے۔قلعہ عبداﷲ بلوچستان سے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار صلاح الدین نے محمود خان اچکزئی کے حاصل کئے گئے19989 ووٹوں کے مقابلے میں 37971 ووٹ حاصل کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی کو انہی انتخابات میں‘ جسے اب یہ دونوں لیڈرز فراڈ الیکشن کہہ رہے ہیں‘2 1778 ووٹوں کے واضح فرق کے ساتھ شکست سے ہمکنار کیا ۔اسی نشست سے اسفند یار ولی خان کے امیدوار اصغر خان نے21417 ووٹ حاصل کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی سے1428 زائد حاصل کئے اور کنٹینر پر مولانا کے دائیں بائیں کھڑے ا سفند یار ولی خان اور اچکزئی کی شکست پر مولانا فرما رہے ہیں کہ یہ فراڈ الیکشن تھے‘ ان انتخابات کے متعلق محمود خان اچکزئی کو شکست دینے والے جمعیت کے لیڈر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی میں فوج نے اس سے بہتر شفاف انتخابات کبھی کرائے ہی نہیں۔ مولانا کی سادگی دیکھئے کہ کنٹینر پر ان کے ایک جانب پاکستان کا وہ شخص کھڑا ہے جس نے ایک وفاقی وزیر کے رتبے پر فائز شخصیت کی حیثیت سے دو سال ہوئے دارالحکومت اسلام آباد میںا فغانیہ نام کی نئی آزاد ریا ست قائم کرنے کا اعلان کیا‘ مفروضہ طور پر جس میں نصف بلوچستان‘ میانوالی‘ بھکر‘ اٹک تک کے علا قے شامل کئے گئے اور آج یہی اسلام آباد میں کھڑے ہو کر فوج کے خلاف نعرے لگانے والوں کو مزید اکسا رہا تھا ‘ جبکہ مولانا کی دوسری جانب منظور پشتین کا ٹولہ کھڑا تھا جو کراچی سے اسلام آباد تک بسوں اور ٹرکوں کی چھتوں پر بیٹھ کر ملک کے حساس اداروں کے خلاف نعرے لگاتا چلا آ رہا تھا۔ اب بھی اگر کوئی آزادی مارچ کی آڑ میں کھیلے جانے والے پس پردہ ڈرامے سے آگاہ نہیں تو پھر سوائے افسوس کے اور کیا رہ جاتا ہے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں