''آوازِ دوست‘‘ میں مختار مسعود نے لکھا ہے کہ '' جن سرحدوں کو اہلِ شہا دت میسر نہیں آتے ‘وہ سرحدیں مٹ جایا کرتی ہیں‘‘۔ قومیں ہمیشہ اپنے شہیدوں کی وجہ سے قائم رہتی ہیں ۔آج ایسے ہی چند شہیدوں کو یاد کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
بلوچستان بم ڈسپوزل سکواڈ کے ہیروشہید حکم خان نے اپنی زندگی میں ہزاروں بموں کو ناکارہ بنایا اور اگر ان کو ایشیاء میں سب سے زیادہ خطرناک بموں کا ناکارہ بنانے والا واحد سپاہی کہا جائے ‘تو بالکل بھی غلط نہ ہوگا۔ ان کے ساتھیوں اور جونیئرز کے بقول‘ وہ ہر خطرے کا اکیلے مقابلہ کیا کرتے تھے اور مشکل حالات میں اپنے ساتھیوں کو خود سے پیچھے رکھتے تھے۔ انہوں نے دوران ِڈیوٹی اپنی خداداد صلاحیتوں اور دلیری کے ساتھ ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دنیا کو حیران کر دیا۔حکم خان کو اپنے کام میںبے پناہ مہارت اور بہترین کارکردگی کی بناء پر بی ڈی ایس کا انچارج لگایا گیا۔ 1990ء کی دہائی میں لکی مروت کے گمبیلہ پولیس سٹیشن کی حدود میں نامعلوم افراد نے 14 عدد اینٹی پرسنل مائن نصب کر دئیے تھے‘ جن کو ناکارہ بنانے کیلئے ان کو پشاور سے طلب کرلیا گیا۔اس مقام پر پہنچتے ہی انہوں نے کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 13 مائنز کو ناکارہ بنایا دیا‘ جبکہ کام کے دوران آخری مائن زوردار دھماکے سے پھٹ گئی‘جس کے باعث حکم خان بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے محروم ہو گئے۔اس حادثے کے بعد وہ کئی دنوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہے اور صحت یاب ہوتے ہی انہوں نے دوبارہ ڈیوٹی جوائن کرلی۔ اس دوران ساتھیوں نے انہیں کام سے منع بھی کیا‘ لیکن وہ نہ مانے اور اسی طرح وہ آخری دم تک دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملاتے رہے۔پولیس حکام کے مطابق ‘ شہیدحکم خان نے اپنی زندگی میں3 ہزار کے لگ بھگ بموں کو ناکارہ بنایا‘ لیکن 28 ستمبر 2012 ء کو جمعہ کا دن تھا کہ پولیس کو بڈھ بیر کے علاقے میں بم کی موجود گی کی اطلاع ملی‘ جس کو ناکارہ بنانے کیلئے ہمیشہ کی طرح حکم خان خود موقع پر پہنچ گئے‘ لیکن اس بار ان کی قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور لاکھوں زندگیاں بچانے والا یہ مجاہد بم دھماکے میں شہید ہوگیا۔
وطن ِعزیزکے اس نڈر سپوت شہید حکم خان کیلئے خود کش جیکٹس اور تباہ کن بم کھلونوں کی مانند تھے‘ جن کے نزدیک جانا ‘انہیں ناکارہ بنانا‘ اس کی زندگی کا مقصدتھا۔ حکم خان میں خاص بات یہ تھی کہ وہ بم ناکارہ بناتے وقت پہلے خود جاتے تھے ۔ شہادت کے وقت بھی ان کی ٹیم کے دیگر ممبران موجود تھے‘ لیکن وہ خود آگے گئے۔انہیں 31سالہ ملازمت میں ہزاروں بموں کو ناکارہ بنانے کا اعزاز حاصل تھا اور بموں کو ناکارہ بنانے میں پوری دنیا میں ماہر سمجھا جاتا تھا۔ شہیدحکم خان پورے علاقے اور محکمہ پولیس میں ریڈھ کی ہڈی جیسا حیثیت رکھتا تھا۔ شہید حکم خان کے دو بیٹے اکرم خان اور آدم خان بھی محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اپنے شہید والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بم ڈسپوزل یونٹ میں فرائض انجام دے رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شہید باپ کے ادھورے مشن کو آگے بڑھاکر ملک و قوم کی حفاظت پر اپنی جانیں نچھاور کرنا چاہتے ہیں‘ جس قوم کے بچے ایسا جذبہ رکھتے ہیں‘ وہ کبھی بھی شکست نہیں کھاتے‘ بلکہ ہر موڑ پر فتح ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
شہیدحکم خان کے علاوہ سپیشل برانچ کے حوالدارشہید پنہال خان جو صحبت پور کوئٹہ میں ایک طاقت ور بم ناکارہ بناتے ہوئے شہید ہوئے ‘ان کی اپنے فرض سے محبت اور ملک کیلئے سرفروشی کا یہ عالم تھا کہ جیسے ہی انہیں کسی جگہ کسی لاوارث بیک یا کسی جگہ نصب کئے گئے بم کی اطلاع ملتی تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر برق رفتاری سے موقع پر پہنچ کر اسے ناکارہ بنانے لگتے کہ کہیں اس کے ہم وطنوں میں سے کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے اور ایسے ہی ایک مشن میں وہ اپنی جان ‘وطن اور اس کے باسیوں پر قربان کر گئے ۔
27 دسمبر2018ء کو نائب صوبیدار شہزاد خان اور سپاہی کلم خان‘ پاک افغان سرحد کے قریب ضلع مہمند کے قریب جگہ جگہ پلانٹ کی گئی ایک بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کیلئے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچے تو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک زبردست دھماکہ ہونے سے شہادت کے بلند مرتبہ پر فیض یاب ہو گئے‘ اگر وہ چاہتے تو پانچ بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کے بعد واپس آ سکتے تھے‘ لیکن وہ علا قے کا چپہ چپہ چھاننا شروع ہو گئے‘ تاکہ یہاں سے گزرنے والوں میں سے کسی کو نقصان نہ پہنچ سکے اور اس تلاش میں انہوں نے اپنی جانیں‘ وطن کیلئے قربان کر دیں۔
کچھ سال قبل 2014ء میںایک بم کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی دائیںٹانگ کی قربانی عنایت اﷲ خان کیلئے توکچھ بھی معانی نہیں رکھتی‘ کیونکہ اپنے وطن کیلئے اس کے ایک ایک فرد کی حفاظت کیلئے چھ مرتبہ سخت زخمی ہونے کے با وجود دشمنوں کیخلاف مصروفِ عمل عنایت خان کہتے ہیں کہ مجھے اگر اپنے جسم کے ایک ایک ٹکڑے کی قربانی بھی دینا پڑے تو یہ میرے لئے سعادت کا باعث ہو گی۔امسال مارچ میں جب بم ڈسپوزل سکواڈ کے ٹائیگر عنایت اﷲ خان کو مصنوعی ٹانگ لگائی جا رہی تھی ‘تو اس کا ایمان اور وطن کی محبت سے سر شار چہرہ اور فخر سے تنا ہوا سینہ دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ اس قدر خوبصورت ‘ صحت مند اور اتھلیٹ جسم کا حامل شخص ایک ٹانگ سے معذور ہے۔ اس کے ڈائس کی جانب بڑھتے ہوئے قدموں اور چہرے پر چمکتے دمکتے ہوئے اعتماد سے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی جرنیل طویل اور تھکا دینے والی جنگ کے بعد فتح و کامرانی کا پرچم لئے چلتا ہوا آرہاہو۔
الغرض دنیا میں بم ڈسپوزل یونٹ کی تاریخ دیکھیں تو 1874 ء میں برٹش آرمی کے توپ خانے کے میجر سر ویوین ڈیئرنگ کو اطلاع ملی کہ ریجنٹ کینال میں تیرتی ہوئی ایک سامان بردارکشتی میں تیل کے چھ ڈرم اور گن پائوڈر کے پانچ بڑے صندوق لدے ہوئے آ رہے ہیں‘ جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹے‘ جس سے لندن چڑیا گھر کے بہت سے پنجرے اور ایک پل تباہ ہو گیا‘ جس پر توپ خانے کے اس میجر نے بم ڈسپوزل سکواڈ ترتیب دیا اور26 فروری1884 ء کو اس نے اپنی نگرانی میں وکٹوریہ سٹیشن بم دھماکے کیلئے وہاں نصب بم ناکارہ بنائے ۔
امریکی ریا ست نیو یارک میں بم ڈسپوزل یونٹ1972 ء میں قائم کیا گیا‘ جبکہ پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت میں بم ڈسپوزل سکواڈ کو سب سے پہلے پنجاب میں اسے سول ڈیفنس کی شکل میں دیکھا گیا۔1989 ء میں کرنل اشرف چوہدری کی سربراہی میں جب پنجاب میں بڑھتے ہوئے بم دھماکوں کی روک تھام کیلئے انسداد دہشت گردی سیل کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی مدد کو آنے والے بم ڈسپوزل سکواڈ کے پاس گاڑی تک نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی انہیں اس وقت ٹائون شپ جیسے درو دراز علاقے سے موقع پر پہنچنے کیلئے کسی قسم کی سہولت دی جاتی تھی اور ان کی تنخواہیں بھی نہ ہونے کے برا بر تھیں‘ لیکن اب چند برسوں سے پنجاب بم ڈسپوزل سکواڈ کیلئے جدید 12 گاڑیاں فراہم کر دی گئیں‘ جن میں سے 11 گاڑیاں امریکہ‘ یورپی یونین اور برطانیہ‘ جبکہ سابق پنجاب حکومت نے صرف ایک گاڑی فراہم کی اور یہ 12 گاڑیاں اس وقت پنجاب کے مختلف اضلاع میں بم ڈسپوزل یونٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
آخر میں بتاتا چلوں کہ عطیہ بتول پہلی خاتون ہیں‘ جنہیں بم ڈسپوزل سکواڈ راولپنڈی میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے ۔