"MABC" (space) message & send to 7575

سانحہ گیارہ بارہ

وطن ِعزیز اس وقت ہرشعبہ‘ جس اخلاقی گراوٹ کا شکار نظر آتا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ انگریزی کی ''Ego‘‘ اور پنجابی کی ''جھوٹی آکڑ‘‘ہے۔شہر ادب وثقافت‘ لاہور میں واقع امراض ِ دل کے سب سے بڑے ہسپتال پر گزرنے والا سانحہ گیارہ بارہ میری نظر میں اسی جھوٹی آکڑ اور Ego کی وجہ سے رونما ہوا‘ ورنہ وکلا کے پاس پی آئی سی پر حملے کا کوئی جوازنہیں تھا۔ اس حملے میںانسانیت پامال ہوئی اور یہ ایک قابل مذمت اور شرمناک واقعہ ہے۔دوسروں کو قانون کی بالادستی کا درس دینے والوں نے قانون کی دھجیاں بکھیردیں۔ ڈاکٹرز کیخلاف قانونی جنگ لڑنے کی بجائے ہسپتال کو میدان جنگ بنانا‘ کہاں کی اخلاقیات ہے؟ معاشرے کے دونوںپڑھے لکھے طبقات میں عدم برداشت اور بڑھتے ہوئے تشدد کا رجحان اخلاقی گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے بھی اپنی حدودسے تجاوز کیا‘ اگر وہ مقابلے بازی کی بجائے‘ معاملہ پولیس کے سپرد کر دیتے ‘تو سانحہ گیارہ بارہ کبھی رونما نہ ہوتا‘ تاہم یہ صورتحال سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ ایسے کیا حالات پیدا ہو گئے کہ قانون کے رکھوالوں نے نا صرف قانون ہاتھ میں لیا ‘بلکہ شرف انسانیت کے تمام تقاضے بھی فراموش کر دئیے۔
امراضِ قلب کے اہم ترین ہسپتال پر حملہ آور ہونا ویسے ہی انتہائی شرمناک اقدام ہے کہ دو ممالک کی جنگ کے دوران بھی ہسپتالوں پر دشمن کے حملے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تو واقعہ میں ملوث وکلا نے لٹیا ہی ڈبو دی اور اس غنڈہ گردی کے مظاہرے میں جو بھی سامنے آیا اور جو بھی ہاتھ آیا ‘اسے زد و کوب کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی‘ حتیٰ کہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں انتہائی نازک حالت میں موجود مریضوں کو بھی نہ بخشا گیا اور ان کے ماسک تک کھینچ کر اتار لئے گئے۔ اس حملے کے بعض وکلاء حضرات ہاتھ میں پستول لہراتے اور ہوائی فائرنگ کرتے بھی نظر آئے‘ پھر ہسپتال کا جو حشر کیا گیا‘ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نظروں میں آ کر ہماری سماجی اور اخلاقی قدروں کے ''ڈنکے‘‘ بجا رہا ہے۔
وکالت کا پیشہ معزز اور معتبر پیشوں میں شمار ہوتا تھا کہ بانی ٔپاکستان قائد اعظمؒ اور مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ بھی اسی معزز پیشہ کے ساتھ وابستہ رہے‘ جبکہ اس پیشے کو وطن ِ عزیز میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا ضامن پیشہ سمجھا جاتا ہے۔وکلا نے ستر اور اسی کی دہائی میں آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے بے مثال جدوجہد کی۔ انہوں نے بھٹو کی سول آمریت کا بھی سامنا کیا اور ضیا کی جرنیلی آمریت کے جبر و تشدد کے آگے بھی آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے ڈٹے رہے۔ ضیا آمریت کی سختیاں تو انتہا ئی درجے کی تھیں اور وکلا تنظیموں اور ان کے قائدین نے آئین و قانون کی حکمرانی کی خاطر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد بھی اپنی جدوجہد میں شامل کر لی تھی‘ جس کے دوران ایم آر ڈی کے کارکنوں ہی کی طرح وکلاء کی بھی ریاستی جبر میں دھنائی ہوا کرتی تھی ‘مگر وکلاء برادری میں کسی کی بھی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے‘ توڑ پھوڑ کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا کبھی سوچا بھی نہ گیا تھا۔ 
چنگیز خان سے کسی نے پوچھا کہ کیا کبھی تمہارے دل میں کسی کیلئے رحم کا جذبہ بھی پیدا ہوا؟ تو اس نے کہا ؛ہاں! ایک مرتبہ‘ جب ایک شہر کو تاراج کرنے کے بعد اپنے لشکر سمیت واپس لوٹ رہا تھا‘ تو دیکھا کہ دریا کے کنارے پر کھڑی عورتیں میری فوجوں سے ڈر کر اپنے بچوں کو لئے اِدھر اُدھر بھاگ رہی ہیں‘ تو ایک عورت کا بچہ اس کے بازوئوں سے پھسل کر دریا میں گر گیا‘ جس پر ترس کھا کر میں نے اپنا نیزہ اس بچے پر پھینک کر اسے دریا سے باہر نکال کر اس کی ماں کے حوالے کر دیا۔وطن ِ عزیز میںسرکاری ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والے غریب اور لاچار مریضوں اور کسی حادثے میں زخمی ہونے والے انسانوں کو جب ہسپتالوں کا پیرا میڈیکل سٹاف‘ نرسیں اور ڈاکٹرزاپنے سامنے درد اور زخموں سے تڑپتے ہوئے انسانوں کا علاج کرنے کی بجائے ہڑتالیں کرتے ہوئے سڑکوں پر دھرنے دیتے ہوئے بے ہنگم طریقوں سے اچھلنا کودنا شروع کر دیں‘ سکولوں‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کتاب تھامے ہوئے پروفیسرجب پسند ناپسند پر امتحانی مراحل طے کرتے ہوئے ذرا سی پوچھ گچھ پر ناراض ہو کر دھرنا دینے لگیں‘ سرکاری دفاتر کے اہلکار کبھی تنخواہوں تو کبھی کام چوری اور کرپشن پر جواب طلبی کو بنیاد بناتے ہوئے احتجاج کرکے سڑکیں بلاک کرنی شروع کر دیں ‘ مریضوں اور ان کے لواحقین کو پیٹنا شروع کر دیں‘ عدالتوں میں انصاف کے حصول میں معاون بننے والے وکلاجب قانونی دلائل دینے کی بجائے دھونس سے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کی کوششیں شروع کر دیں‘جان بوجھ کر ٹریفک کی خلاف ورزی پرپولیس کے روکے جانے پر آپے سے باہر ہو جائیں‘قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس مانگنے والوں پر حملہ کرتے ہوئے انہیں زدو کوب کریں۔کسی بھی عدالت کو قانون کے مطا بق ‘فیصلے کرنے سے زبردستی روکیں‘ پولیس تھانوں میں اپنی مرضی کی ایف آئی آر کے اندراج کیلئے گروہ در گروہ حملے کردیں‘ معززججز حضرات اور عدالتوں کو ڈنڈوں‘ اینٹوں اور ٹھوکروں سے توڑنا شروع کر دیں‘ تو یہ قانون سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے اورکیا یہ حرکتیں‘ چنگیز خان کی متذکرہ بالاحرکت جیسی نہیں؟
اس لئے میری نظر میں اگر قانون اپنی حاکمیت میں زندہ رہنا چاہتا ہے‘ اگر قانون اپنے اندر اخلاقی قوت رکھتا‘ تو ڈاکٹرز آئے روز ہسپتال بند نہ کرتے اور نہ ہی کبھی وکلا ء کبھی آپے سے باہر ہوتے ‘ پولیس والے تھانوں کو عقوبت خانے نہ بنا پاتے اور سڑکوں اور گلیوں میں ناکوں کے نام پر لوٹ مار کو اپنا پیشہ نہ بناتے‘ نیز سرکاری محکموں کے اہلکار عوام کی سر عام کھال نہ اتارتے نظر آتے۔آج ہمارے معاشرے کا وہ کون ساشعبہ ہے‘ جہاں قانون کی دھجیاں نہیں اُڑائی جاتیں؟سانحہ گیاربارہ پر پی پی پی اور نون لیگ سے متعلق وکلا کی اہم شخصیات کا اس سانحہ کے حوالے سے ریمارکس سنے تو یقین ہی نہ آیا کہ یہ ان لوگوں کے الفاظ ہیں‘ جو قانون اور آئین کے نام پر وکالت کرتے ہیں ۔عدلیہ آزادی کے نام پر یہ لوگ کل تک ہمیں جمہوریت کے درس دیتے نہ تھکتے تھے۔ رضا ربانی جیسا شخص‘ جس کے متعلق بخدا میں کبھی بھی خوش فہمی کا شکار نہیں رہا‘ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ایوانوں اور آئے روز بلائے گئے اجلاسوں میں سویلین بالا دستی کے نعرے لگا کر لبرلز کا لیڈر بن کر ‘دوسروں کو اپنی آئینی حدود تک رہنے اور آئین کی بالا دستی کے سبق دیتے نہیں تھکتے‘ وہ پی آئی سی پر حملہ آور وکلا کے مبینہ حملے پر فرما رہے تھے '' اگر کسی کی ایف آئی آر پر عمل نہ ہو رہا ہو‘ تو پھر وہ اس کیلئے اس قسم کاردعمل تو دیں گے ‘‘ ۔ 
میری نظر میں‘ اگر قانون پہلے دن سے ہی وکلاء سمیت معاشرے کے تمام گروہوں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکتا‘ تو سانحہ گیارہ بارہ کی نوبت ہی نہ آتی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں