27 نومبر1982ء کی سہ پہر سری لنکن ڈیفنس سیکرٹری Gotabaya Rajapaksa سری لنکا کے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ اب تک سری لنکن ملٹری فورسز اور پولیس کے23790 افسرا ور جوان بھارت کی سپانسرڈ تامل ٹائیگرز باغی فورس کی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ 37 برس قبل اپنے شہریوں اور سکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں اور قومی اثاثوں کی تباہی پر آنسو بہاتے ہوئے بھارت کو ان کا ذمہ دار ٹھہرانے والا شخص یکدم ایسا پلٹا کھائے گا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ وہی بھارت جس نے 24 ہزار کے قریب سری لنکن فوجیوں کو صرف دو برس میں اپنی دہشت گردی میں نگلا‘اسی بھارت کی دوستی سری لنکا کیلئے مقدم بن جائے گی ؟ بھارت کے انگریزی اخبار'' دی ہندو‘‘ کی رپورٹ کے مطا بق سری لنکا کے موجودہ منتخب صدر اور سابق وزیر دفاع گوتابیا راج پاکسا نے بھارت کے تین روزہ دورے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں نریندر مودی کو یقین دلایا کہ سری لنکا کبھی بھی کوئی ایسا عمل‘ معاہدہ یا عالمی اور علاقائی حکمت عملی کا حصہ نہیں بنے گا جس سے بھارت کے مفادکو خطرہ لاحق ہو ۔ سری لنکن صدر نے کہا: ان کی خواہش ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ چین سے بھی اسی قسم کے قریبی تعلقات رکھے جائیں تاکہ دونوں ممالک کوساتھ لے کر آگے کی جانب بڑھا جائے۔ نئی دہلی کے تین روزہ دورے کے اختتام پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سری لنکاکی ترقی اور معیشت کو سہارا دینے کیلئے 400 ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن فراہم کرنے کے علا وہ سکیورٹی سسٹم کو مضبوط بنانے کیلئے پچاس ملین ڈالر کی مزید کریڈٹ لائن فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ مودی سرکار نے پچاس ملین ڈالر دیتے ہوئے یہ شرط رکھ دی ہے کہ وہ مستقبل میں سری لنکا میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا سد باب کرنے کیلئے سری لنکا کو جدید آلات اور سامان فراہم کرنے کے علا وہ دہشت گردی سے نپٹنے کیلئے بھارتی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار وں کو تربیت اور فنی سہولیات بھی فراہم کرے گا اور اس سلسلے میں بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کے لوگ اسی طرح سری لنکن پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کو تربیت دے رہے ہیں جیسے افغان این ڈی ایس اور فوج کو دے رہے ہیں۔
18 نومبر کو سری لنکا کے صدارتی انتخاب میں اپنی کامیابی پر حلف اٹھانے کے فوری بعد سری لنکا کے نئے صدر گوتابیا راج پاکسا بھارت کے تین رو زہ دورے پر روانہ ہوئے تو سری لنکن عوام دنگ رہ گئے کہ یہ اچانک بھارت یاترا کیوں؟کیا اس کا فیصلہ انتخابات سے پہلے ہی مودی سرکار سے کیا جا چکا تھا؟ کیا بھارت نے ان کی کامیابی کی صورت میں ان کے پہلے دورے کے آغاز یاانتخابات سے پہلے ہی گوتابیا اور اس کے ساتھیوں کو چار سو پچاس ملین ڈالر کی کریڈٹ لائن دینے سے آگاہ کر دیا تھا؟ جنوری 2015 ء تک بھارت کے تربیت یافتہ تامل ٹائیگرز کی سری لنکا پر تھونپی گئی طویل خانہ جنگی کو قریب سے دیکھنے اور اس کا مقابلہ کرنے والا سری لنکا کا موجو دہ صدر جو اپنے قریبی حریف سے سخت مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کر سکا‘ وہ سب سے زیا دہ اسی بھارت پر اعتماد کرنے جا رہا ہے جس نے سری لنکا کو تیس سال کی خانہ جنگی میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں زخم دیئے۔ جس نے لنکا کے ہر گھر کی ایک گود اجاڑی‘ جس نے سری لنکن آرمی کی ہر بیرک کے دو سے پانچ جوانوں کو اپنی دہشت گردی کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارا۔
ممکن ہے سفارتی ماہرین سری لنکا کے نئے منتخب صدر کابھاگ کر سب سے پہلے بھارت جانے کو ایک معمول کا دورہ قرار دیں‘ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ سری لنکا کے نئے صدر کی کامیابی اور حلف اٹھانے کے فوری بعد بھارت کے اس دورے کے پیچھے اصل اور بڑا کردار امریکہ کا ہے‘ کیونکہ پانچ برس تک امریکہ سری لنکا میں چین کے خلاف اپنی مرضی کے فیصلے نافذ کرانے میں بار بار ناکام ہورہا تھا اور اس دوران سری لنکا میں سیا سی کشمکش میں بھی امریکہ نے چین مخالف سیا سی طاقتوں کی کھل کر مدد کی‘ کیونکہ چین کے صدر شی جن پنگ نے سری لنکا میں بندر گاہوں‘ پاور سٹیشنز اور ہائی ویز کا جو جال بچھایا تھا اسے امریکہ ا ور بھارت کے علا وہ جاپان نے کبھی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ چین کے''بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘‘ کے حصے ہیں‘ جس سے چین کے تجارتی مفاد کیلئے ایشیا بھر میں ٹرانسپورٹ اور تجارت کی راہیں کھل جائیں گی۔ یہ بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹوجسے سلک روٹ کا ا یک تسلسل کہا جاتا ہے جاپان‘ بھارت اور امریکہ ہر صورت اسے ناکام کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اور پاکستان میں بھی یہی قوتیں اندرونی حالات خراب کرنے کیلئے اپنے مہروں کو آگے سرکا رہی ہیں۔ با خبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اس سال نومبر میں ہونے والے سری لنکا کے صدارتی انتخابات میں امریکہ اور بھارت سمیت ان کے کچھ اتحادیوں نےGotabaya کی کامیابی کیلئے سری لنکن انتخابی نظام میں بھر پور مداخلت کی وجہ سابق سری لنکن صدر سری سینا کا وہ خطاب بنا جس میں انہوں نے کہا تھاکہ اس کی حکومت امریکی افواج کو لنکن جزیروں پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجا زت کسی صورت نہیں دے گی اور نہ ہی کوئی ایسا معاہدہ کرے گی۔ شاید آج کی سری لنکن قیادت سب کچھ بھول چکی ہے کہ انڈیا نے ان کے ملک کو تیس برس تک کس قیامت میں مبتلا کئے رکھا۔ تامل ٹائیگرز کے نام سے سری لنکن عوام کی زندگیاںکس قدر جہنم بنا ئے رکھیں‘ پورا سری لنکا آئے روز بم دھماکوں سے لرزتا رہا‘ سری لنکا کی ہر مارکیٹ‘ گھر اور سڑک بم دھماکوں سے لرزتی رہی۔ سری لنکن عوام اس کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز کو ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارنے والے کوئی اور نہیں بلکہ انڈین آرمی اور راء کے وہی تامل ٹائیگرز تھے۔ سری لنکن عوام کو معاشی طور پر آج جس تباہی و بربادی کا سامنا ہے اس کی تمام ذمہ داری بھارت کے سر سجائی جاتی ہے‘ جسے سری لنکن صدر آج چین پر ترجیح دیتے ہوئے مدح سرائی کر رہے ہیں۔ پچیس سال نوماہ تین ہفتے اورچاردن تک جاری رہنے والی بھارت نواز تامل ٹائیگر کی تھونپی ہوئی سول وار کے صرف دو برسوں میں سری لنکن فوج کے کم از کم 2500 جوان اور تامل باغی ہلاک جبکہ سات ہزار سے زائد شدید زخمی ہو ئے اور ایک عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردی اعداد و شمار کے مطا بق ان تیس برسوں میں ایک لاکھ سے زائد شہری آبادی اور پچاس ہزار سے زائد سری لنکن سکیورٹی فورسز اور باغی ہلاک یا غائب ہو چکے ہیں‘ جبکہ اقوام متحدہ نے اپنے با وثوق ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میںبتایا تھا کہ صرف وسط جنوری2009ء میں6500 شہری ہلاک اور چودہ ہزار زخمی ہوئے‘ جبکہ سول وار جب اپنی فائنل سٹیج کی جانب بڑھ رہی تھی تو اس وقت اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ کم از کم چالیس ہزار لوگ ہلاک کئے گئے۔ یہ بھارت کی وہ مکروہ سازش تھی جو سری لنکن جزیروں پر مشتمل علیحدہ ملک بنانے کیلئے بھارت نے تامل ٹائیگرز کو کروڑوں ڈالرز فراہم کئے‘ اسلحہ اور گولہ بارود کے انبار لگا ئے رکھے۔
بھارت کے انگریزی اخبار 'دی ہندو‘ کی جاری کی گئی سری لنکن صدر کے ٹوئٹ کے حوالے سے اس خبر کی ابھی تک سری لنکن وزارت خارجہ نے تردید نہیں کی کیونکہ بیانات کو اپنے حق میں توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں بھارتی میڈیا اور خاص طور پر' دی ہندو ‘کا ایک وتیرہ چلا آ رہا ہے‘ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ نئے صدر سری لنکن عوام کے نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے کے مفادات کو ترجیح دیں گے۔