"MABC" (space) message & send to 7575

ہم قدم اور ثابت قدم

آندھی ‘طوفان اور سیلاب کے بہائو کے سامنے وہی بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں‘ جو ہم قدم اور ثابت قدم رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جرمنی اور مسولینی کے مقابلے میں ایک دوسرے کے ہم قدم اتحادی ہی کامیاب رہے ‘ورنہ ان میں سے کوئی ایک بھی اگر اپنا رستہ الگ کر لیتا ‘تو آج دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا۔ اس تناظر میںپاکستان کے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات پر تمام سیا سی جماعتوںکی ایک سوچ اورملکی مفاد کیلئے آپس میں اتفاق ِرائے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
کچھ حلقے سوچ رہے تھے کہ شاید ہمیشہ کی طرح سیا سی جماعتیںپاکستان کو در پیش ممکنہ خطرات کو سنجیدہ لینے کی بجائے اپنی اپنی سیا سی دکانداری چمکائیں گی‘ لیکن مقامِ شکر ہے کہ اہم قومی معاملات پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے ایک سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دشمنوںکے تمام حربوں اور ان کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا ۔سیا سی معاملات میں اختلاف رائے ایک عام سی بات ہے‘ لیکن جہاں قومی مفاد کی بات ہو‘ جہاں اپنے سامنے ایک سے زیادہ دشمن مقابلے کے منصوبے بنا رہے ہوں اور آپ کی دیواروں اور سرحدوں کو پامال کرنے کے نعرے بلند کر رہے ہوں‘ وہاں اہل ِوطن کا بند مٹھی کی طرح ایک ہو جانا‘ قومی اداروں اور سکیورٹی فورسز کے مورال کو بلندکر دیتا ہے۔ قومی اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے ملک کی تمام سیا سی جماعتوںنے اختلافات کے با وجود ایک ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ وہ سب کیلئے حیران کن ہے ‘کیونکہ ملک کے اندر موجود ففتھ کالمسٹ اور باہر بیٹھے ہوئے ان کے ہینڈلر اپنے طور پر خوش فہمی کا شکار تھے کہ جیسے ہی بل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا‘ تو تمام سیاسی پارٹیاں آپس میں پھوٹ پڑیں گی اور بد زبانی کرتے ہوئے قومی رازوں کو اگلنا شروع ہو جائیں گی کہ دنیا بھر کا میڈیا پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور اس کے اداروں کا تمسخر اڑانے لگے گا۔اس سلسلے میں پاکستان کے روایتی دشمن نے تو اپنے درجنوں کی تعداد میں گماشتوں کو اس بل کے بخیے ادھیڑنے کیلئے سکرپٹ تیار کر کے دے دیئے تھے‘ لیکن اس کی تمام ناپاک ارادے خاک میں مل گئے‘ جب حکومت ِ پاکستان اور ملک کے سکیورٹی اداروں کی مخالف دو اہم ترین سیاسی جماعتوں نے ملکی سلامتی کے نام پر ناصرف اس بل کی حمایت کرنے کا اعلان کیا‘ بلکہ اسے منظور بھی کر لیا ہے۔
پاکستان مخالف قوتوں کی یہ بہت بڑی شکست ہے ۔کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ اب سکیورٹی ادارے اور اس کے سربراہ کو کہیں بھی مشق ستم نہیں بنایا جاسکے گا۔ سرحد کے اس پار بیٹھے ہوئے دانشور اورا س کی خفیہ ایجنسیوں کے لارڈز ڈھول پیٹنے کیلئے مختلف پیشہ وروں کی خدمات حاصل کر چکے تھے‘ لیکن بقول شاعر '' الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘۔ ادھرحیران کن طور پر وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی ذہانت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیا سی معاملات کو پس پشت ڈال کر اپوزیشن سے کہا کہ جمہوریت میں سیاسی مشاورت اور اتفاق رائے سے چلنا ہوتا ہے۔وزیر اعظم کی بات سے اختلاف اس لئے ممکن نہیں کہ جمہوریت کسی فرد کی رائے نہیں‘ بلکہ بہت سے افراد کی اجتماعی رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ بھلے پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف ہوں ‘مگر ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ مذکورہ بل کے معاملے پر ان کے ادوار میں جس اہم معاملے پر قانون سازی نہ ہو سکی‘ اس بار وہ ضرور اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ رہی بات کارکنوں کے اظہار ِخفگی کی تو سیاسی رہنمائوں کو یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کے خلوص اور وفاداری کو ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرتے رہے ہیں۔ ذاتی مفادات کی تشریح میں کرپشن کے مقدمات‘ اختیارات سے تجاوز اور اقربا پروری شامل ہے۔ جب ریاستی ادارے اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کرتے ہوئے کارروائی کرتے ہیں تو ان کی کارروائی کو سیاسی انتقام یا پھر کسی ریاستی ادارے کے سر بطورِ الزام تھونپ دیا جاتا ہے۔سوچ اور موقف کی تبدیلی‘ اگر معروضی حالات اور اصولوں کے مطابق ہو تو اسے واپس مڑنا قرار نہیں دیا جا سکتا ۔پاکستان کے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور جیو پولیٹکس نے پاکستان جیسے ملک کو کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کیلئے ہمہ وقت الرٹ رہنا پڑ رہا ہے‘ کیونکہ ایک جانب بھارت میں نریندر مودی کی شکل میں راشٹریہ سیوک سنگھ کا انتہا پسند پاکستان کو خونخوار نظروں سے گھورے جا رہا ہے تو دوسری جانب کسی بھی قاعدے قانون عدالت اخلاقی روایات کو پائوں تلے روندنے والا امریکاطاقت اور غرور کے نشے میں ملک بن کر دیگر ممالک پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہاہے۔
پاکستان کو اس وقت اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں کی جانب سے مشترکہ دشمن کا سامنا ہے اور یہ مشترکہ دشمن بھارت ا ور افغانستان ہیں۔افغانستان کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سینئر اور فیصلہ کن شخصیات سمجھے بیٹھی ہیں کہ امریکا ا ور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات تحریری شکل میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘ تو کچھ عرصہ بعد کابل کی حکومت اشرف غنی کی نہیں‘ بلکہ طالبان کی ہو گی اور اس حکومت کی افغان آرمی میں300 سے زائد بڑے اور درمیانے درجے کے فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران کی کوئی جگہ نہیں ہو گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان اپنے مارے گئے ساتھیوں کا کسی وقت ان سے انتقام لینا شروع کر دیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر بھی ان کی افغانستان میں من مانیاں ختم ہو نے کا امکان ہے اور افغان فورسز کے بہت سے اہلکار منشیات اور اسلحہ فروشی کے کاموں میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں ان کے منشیات کے عالمی گروپس سے رابطے بھی بتائے جاتے ہیں ‘جن سے وہ ہر سال لاکھوں کروڑوں ڈالر وصول کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں کے دسمبر تا جنوری تک مندرجات سامنے رکھیں تو ان کے مقابلے میں ہر پاکستانی فخریہ کہہ سکتا ہے کہ ان کی سٹاک مارکیٹ کا اعتماد بحال ہو رہا ہے اور کاروبار کا حجم دیکھتے ہوئے تسلیم کیا جارہا ہے کہ پاکستان2020 ء میں اپنی معاشی ترقی کے بہت سے ضروری اہداف عبور کر لے گا اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کے بعد پاکستان جب کنزیومر اکانومی کی بجائے مینوفیکچرنگ کی جانب سفر شروع کرے گا تو یہ بے شک ایک حقیقی تبدیلی کا سفر ہو گا‘ جس کی منزل تمام قرضوں سے آزاد اور بین الاقوامی طور پر ایک خود مختار پاکستان ہو گا۔دنیا بھر کے ماہرین معاشیات اور سیا سی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا بالکل درست ہے کہ جغرافیائی طور پر پاکستان جس خطے میں واقع ہے‘ اگر اس کے اندرونی حالات آئین اور قانون کے مطابق اور سکیورٹی معاملات کنٹرول میں رہیں ‘تو یہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا نظر آئے گا۔ 
یہ سچ ہے کہ پاکستان پائیدار امن اور استحکام کے سفر میں ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے ۔ یہ عمل مشکل ‘لیکن مثبت سمت میں جاری ہے۔ پاکستان ماضی قریب میں چیلنجز کے سامنے ڈٹا رہا۔ہمیں ثابت قدمی کے ساتھ قومی مقاصد کے حصول کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔آنے والے دنوں کے لیے دعا ہے کہ پاکستانی قوم اورقیادت ہمیشہ اسی طرح ہم قدم اور ثابت قدم نظر آئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں