"MABC" (space) message & send to 7575

نیپال کے بعد اب بنگلہ دیش اور۔۔۔۔

پاکستان کی گوادر اور سری لنکا کی ہمبان توت ڈیپ سی پورٹس کے بعد چین بہت جلد بنگلہ دیش میں سوندیا کے نام سے'' ڈیپ سی پورٹ‘‘ تعمیر کرنے کی پیشکش کرچکا ہے ‘جسے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت بہت جلد با قاعدہ طو رپر قبول کرنے جا رہی ہے ۔ بنگلہ دیش کی سوندیا ڈیپ سی پورٹ کی خبر انڈین خفیہ ایجنسی '' راء‘‘ کیلئے پس ِپردہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے برطانوی سرکاری نشریاتی ادارے کے رپورٹر اور ایڈیٹوریل ڈائریکٹر برائے ایسٹرن لنک ان انڈیا کے سبیر بھائومک نے 2014 ء میں''String of Pearls'' کے عنوان سے اپنے آرٹیکل میں ذکر کیا تھا ۔ سبیر بھائومک سے یہ مضمون اس سوچ کے تحت لکھوایا گیا‘ کیونکہ نئی دہلی کے سائوتھ بلاک کا خیال تھا کہ جنوری2014 ء میں بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں‘ اگر عوامی لیگ شکست کھا گئی تو وہاں چین کی مرضی کی حکومت بن جائے گی‘ لیکن ہوا یہ کہ من موہن سنگھ کی کانگریس نے بنگلہ دیش کے ان انتخابات میں بھر پور مداخلت کرتے ہوئے عوامی لیگ کو تو کامیابی دلوا دی‘ لیکن خود بی جے پی کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گئی ‘جس سے حسینہ واجد یہ سوچ کر کچھ نروس ہو گئیں کہ اب ‘نریندر مودی کی نئی حکومت انٹرنیشنل دبائو پر اس کی دھاندلی سے قائم حکومت کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے نئے انتخابات کا مشورہ دے سکتی ہے‘ جسے وہ کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں‘ کیونکہ اس طرح اسے اپنی شکست صاف نظر آ رہی تھی۔یوں بی جے پی اور نریندر مودی کے کسی بھی دبائو کو قبول کرنے کی بجائے حسینہ واجد نے فوری طور پر چین کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کر لیا‘ جہاں پہاڑ جیسی دوستی اس کیلئے اپنا دامن کھولے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ حسینہ واجد وزیر اعظم بنگلہ دیش کیلئے خوشگوار حیرت یہ بھی ہوئی کہ بھارت کی طرح چین اس پر کسی بھی قسم کی پابندیوں کی بات ہی نہیں کر تا تھا‘ بلکہ اس کی بنگلہ دیشی قیا دت کے ساتھ ہونے والے بات چیت میں ان کی خود مختاری اور آزادی کو سب سے مقدم جانا جاتا‘ جب بھارت کے سات ارب ڈالر کے مقابلے میں چین نے30 ارب ڈالر انویسٹ کرنے کی پیش کش کی تو یہ سب کیلئے ایسی خوش گوار حیرت تھی جسے بھارت کی بیوروکریسی نے کھلے دل سے سراہا۔
ذہن نشین رہے کہ تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہ خبریں جیسے ہی میڈیا پر سامنے آئیں تو بنگلہ دیش کے تعلیمی‘ کاروباری اور صنعتی حلقوں میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی اور بھارت کے سات ارب ڈالرز کے مقابلے میں چین کے تیس ارب ڈالرز کی اس پیشکش میں کسی قسم کی پابندیوں کا اشارہ بھی نہیں تھا‘ جس سے حسینہ واجد کو ایک اطمینان اور حوصلہ بھی ملا اور بنگلہ دیش نے بھی شکر اداکیا کہ اسے چین جیسا مخلص دوست مل رہا ہے‘ نہ کہ بھارت کے کانگرسی یا اب بی جے پی کی مودی سرکار کہ جب بھی ان کا دل چاہا اپنی من مرضی کرانے کیلئے ہمارا بازو مروڑ دیا۔
چین کی بنگلہ دیش کیلئے اس مخلصانہ دوستی نے میانمار‘ سری لنکا اور نیپال کو بھارتی بلاک سے نکلنے میں ہمت دی؛ اس طرح ایک ایک کرتے ہوئے سب اکھنڈبھارت کے تصور سے خوف کھاتے ہوئے ساتھ چھوڑنے لگے سری لنکا کے بعد نیپال اور اب بنگلہ دیش بھی دنیا میں خود کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کرانے کیلئے سات پھیروں کیلئے اس کی دھوتی سے بندھا اپنا دامن چھڑا کر اس کے جلتے ہوئے منڈپ سے چھلانگ لگا کر دور کھڑا ہوچکا ہے۔ بھارت ابھی نیپال کے جھٹکے سے خود کو بچانے کی کوشش کرنے ہی والا تھا کہ چین نے لداخ میں پیش قدمی کرتے ہوئے 60 مربع کلو میٹر کے اس حصے پر قبضہ کر لیا ‘جو بیک وقت جغرافیائی اور دفاعی طو رپر پاکستان‘ چین اور بھارت تینوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سات گزری ہوئی دہائیوں کی تاریخ اٹھا لیجئے؛ بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک میں سے کسی کو بھی آرام سے جینے نہیں دیا۔ اکھنڈ بھارت کے تصور میں لپٹے ہوئے سیسے نے اس کی گردن کو اس بری طرح جکڑا ہواہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے ساتھ رہنے والے ساتوں ممالک کو'' یونائیٹڈ سٹیٹ آف انڈیا‘‘ کی اکائی کی صورت میں انڈین بادشاہت کے لال قلعہ دہلی میں اپنے سامنے جھک کر سلام کرتے ہوئے دیکھنے کے خواب کے علا وہ دوسرا کوئی منظر دیکھنے کو تیار ہی نہیں ہو تا‘ یہی وجہ ہے کہ نیپال‘ بھوٹان‘ مالدیپ‘ سری لنکا‘میانمار کو اپنی کسی راجدھانی سے زیا دہ کا درجہ دینے کو کبھی تیار ہی نہیں ہوا۔
ایشیائی ممالک کیلئے عوامی جمہوریہ چین کا وجود خدا کی جانب سے ایک نعمت سے کم نہیں‘ ورنہ اپنی عددی طاقت اور وسائل کے زور پر اس نے اپنے ارد گر دکے تمام ممالک کو کب کا اپنے باجگزار بنا لینا تھا۔ سوائے پاکستان کے اس خطے کی ہر حکومت بھارت کی مرضی سے منتخب ہو رہی تھی ‘بھارت جہاں چاہتا اپنے فوجی اڈے بنا لیتا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی شکل دینے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء کی حکومت کے مختصر عرصہ کے علا وہ بنگلہ دیش کی حیثیت بھارت کی ایک کالونی سے زیا دہ نہیں تھی‘ سب کے سامنے بھارت کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے خدو خال نئی دہلی میں سنوارے جاتے تھے‘ اس کی تجارتی پالیسی بھی بھارت کی مرہون منت تھی یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا پانی بھی ابھی جانب کھینچ لیا۔ بھارت سے کسی بھی طریقے سے منسلک نیپال‘میانمار‘ بنگلہ دیش اور بھوٹان کے سرحدی حصوں کی سڑکیں اور پل بھارتی رضامندی کے بغیر بنانے کا سوچا بھی نہیں جا تا تھا۔ دنیا بنگلہ دیش کو2018ء تک بھارت کی '' کلائنٹ سٹیٹ‘‘ کے نام سے پکارا کرتی تھی ‘ لیکن چین نے بنگلہ دیش کے قریب آ کر بھارتی مداخلت کم کرنے کا آغاز کر دیا ۔ نیپال جیسا لینڈ لاکڈ چھوٹا سا ملک جس کی سانس کی ڈوری بھارتی ہاتھوں میں تھامے آکسیجن سلنڈر سے منسلک تھی ‘وہ ایک جھٹکے سے اس محتاجی اور غلامی کو دور پھینکتے ہوئے ایک بہادر‘ آزاد اور خود مختار گورکھے کا روپ دھارے اس کے سحر سے نکل گیاہے ۔
جولائی2017ء میں جب چین اور بھارت کے درمیان دوکلام سرحدی تنازع پر زبردست ٹھنی ہوئی تھی‘ تو بھوٹان کی خاموشی معنی خیز تھی‘ صاف لگ رہا تھا کہ سب کچھ بھارت اپنی مرضی سے کر رہا ہے؛ حالانکہ ڈوکلام کا یہ تنازع براہِ راست چین اور بھوٹان کے درمیان تھا‘ نہ کہ بھارت کے خلاف۔بھارت نے میڈیا کے سامنے موقف اختیار کیا کہ بھوٹان نے اس سے اس سلسلے میں مدد مانگی تھی‘ جبکہ بھوٹان نے بھارت کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ بھارت اور بھوٹان کے درمیان699 کلومیٹر بین الاقوامی سرحد واقع ہے‘ جس میں بھارت کی شمال مشرقی ریا ست آسام کا276 کلو میٹر حصہ آتا ہے اور یہی بھوٹان اب بھارت سے اپنی آزادی واپس مانگنے کیلئے نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرح چین کی جانب دیکھ رہا ہے۔ ایک ایک کر کے سب آزادی سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں