''ہمیں پرانا پاکستان چاہیے‘ وہی پاکستان‘ وہی پنجاب جو عثمان بزدار سے پہلے شہباز شریف کا تھا‘‘، تحریک انصاف کی حکومت کو ابھی دو سال ہی گزرے ہیں کہ لوگ نئے پاکستان کے خلاف چیخنا شروع ہو گئے ہیں۔لوگ کہتے ہیں''نئے پاکستان میں نہ تو ہسپتالوں میں ڈاکٹر ملتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوا اور علاج۔ نواز دور میں بھی مہنگائی تھی‘ آج اُس سے کچھ زیا دہ ہی مہنگائی ہے‘‘۔ اس قسم کی ٹاکس اور گلیوں بازاروں میں عوام کی موجودہ اور سابقہ حکومت کا موازنہ کرتی آرا پر مبنی شاٹس کی بھر مار دیکھ کر لگتا ہے کہ کل تک سب کچھ سر سبز تھا‘ عوام کو کسی بھی سرکاری دفتر میں آتے جاتے عزت و احترام دیا جاتا تھا‘ کوئی بیمار ہسپتال کی حدود میں داخل ہوتا تو ڈاکٹر اور نرسیں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتیں۔
2018ء کے انتخابات کی مہم میں نواز لیگ ہر جلسے میں کہتے تھے کہ ہمیں اگر تیسری مرتبہ بھی اقتدار مل گیا تو ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ آج ناکامی کے بعد (ن) لیگ نے اپنے دس سالہ دور کو مثالی دورِ حکومت کہتے ہوئے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے ۔کوئی انہیں بتاتا نہیں کہ( ن) لیگ کے دور ِاقتدار میں 2012 ء میں لاہور کے مشہور و معروف امراضِ دل کے ہسپتال میں دو سو سے زائد مریض جعلی ادویات کھا کر دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ جعلی دوا دل کے ہسپتال کی جانب سے 46000 کے قریب غریب مریضوں کو مفت دی گئی تھی ۔ اس دوا کے مضر اثرات کے حوالے سے رپورٹس جیسے جیسے میڈیا پر آتی جا رہی تھیں‘ صحت کی سرکاری سہولیات کے حوالے سے عوام کا خوف اور پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ کہا گیا کہ امراض ِدل کے لیے انتہائی ضروری ادویات کے جعلی نکلنے کی انکوائری کرائی جائے گی اور 200 سے زائد انسانوں کے اس بہیمانہ قتل پر اس کے تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ وعدے ہو گئے‘ تقریریں بھی ہو گئیں اور نہ جانے کتنی سرکاری اور غیر سرکاری پریس کانفرنسیں بھی ہو گئیں کہ اس سانحہ عظیم کی انکوائری کرائی جائے گی اور ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنایا جائے گا۔ انکوائری بھی ہوئی ‘ مگرآٹھ برس گزرنے کے بعد آج کسی کو پتہ ہے کہ اس انکوائری کا کیا بنا؟کوئی بتائے گا کہ اس سانحے کا اصل ذمہ دار کون تھا‘ اور اُس کو کیا سزا ملی؟ آج تو سبھی کہتے ہیں کہ مشیروں کے کئے گئے فیصلوں کی ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہی سربراہ حکومت ہیں‘ تو اُس وقت بھی پنجاب میں کوئی وزیر صحت نہیں تھا ‘سوائے مشیروں کے‘ تو اس سانحہ عظیم کے ذمہ دار انچارج وزیر کی حیثیت سے میاں شہباز شریف ذمہ دار قرار پاتے ہیں‘ تو ان سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا ؟
200 سے زائد دل کے مریضوں کا جعلی ادویات کھا کر مر جانا کوئی بچوں کا کھیل یا کسی ڈرامے کا فرضی حصہ نہیں۔ آج چینی ا ور آٹا بحران کے ذمہ داروں کی انکوائری اور جے آئی ٹی کی بات کرنے والے‘ امراضِ دل کے ہسپتالوں میں کروڑوں روپے کی جعلی ادویات سپلائی کرنے والوں‘ ان کے سیمپل پاس کرنے والوں‘ ان کو ادایئگیاں کرنے والوں کو کیوں تلاش نہیں کرتے؟ کدھر گئی وہ انکوائری؟کیا وہ بھی جل کر خاک ہو گئی؟
کھڈیاں قصبے کا ہنستا مسکراتا ہر دلعزیز حکیم جاوید اقبال ایک شام اچانک سینے میں درد محسوس کرنے لگا‘ فوری طور پر مقامی ہسپتال اور پھر قصور لے جایا گیا‘ جہاں سے اُسے لاہور ریفر کر دیا گیا۔ لاہور امراضِ قلب کے ہسپتال میں انہیں چیک کرنے کے بعد چند گھنٹے ایمر جنسی میں رکھ کر کچھ ادویات استعمال کرنے کے لیے دے کر گھر جانے کا کہہ دیا گیا ۔تین چار دن ان ادویات کے استعمال پر تکلیف بڑھی تو لاہور لے کر آ ہی رہے تھے کہ راستے میں ہی وہ پیارا شخص ایک بیوہ دو چھوٹے بیٹوں اور معصوم سی دو بچیوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چالیس سال کی عمر میں اﷲ کو پیارا ہو گیا۔ جب چیک کیا گیا تو وہ ادویات جعلی نکلیں۔ جاوید اقبال تو جعلی ادویات استعمال کرنے سے مر گیا لیکن آٹھ برسوں میں ان کی اولاد کے ساتھ کیا بیتی‘ کسی کو خبر نہیں؟ بچوں کی تعلیم کا سلسلہ تو ختم ہوا ہی‘ چند ماہ بعد دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ترین ہو گیا۔ یہ گھرانا‘ جسے جعلی ادویات اور میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس نے نگل لیا ‘کس طرح جی رہا ہے وہ دنیا والے بھی دیکھ رہے ہیں۔( اس گھرانے کا ایک بیٹا جو باپ کی موت کی وجہ سے مڈل کلاس سے آگے نہیں پڑھ سکا آج جوان ہو کر روزگار کے لیے دھکے کھا رہا ہے‘ اگر کوئی اس کے لیے معمولی سی ملازمت کا بند و بست کر سکتا ہے تو اسے صدقہ جاریہ سمجھ کر راقم سے رابطہ کرنا چاہیے )۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب کے دور میں بھی پنجا ب میں گورننس کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بد قسمتی سے آج بھی ہر ہسپتال ا ور ہر سرکاری ا دارے کا وہی حال ہے جو اس دورِ حکومت سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ آج بھی ہر سرکاری ادارے میں بدعنوانی اُسی طرح پائی جاتی ہے ‘ جیسے یہ پہلے تھی ۔ سنی سنائی باتیں ہوں تو بندہ شک کا فائدہ دے‘ مگر آنکھوں دیکھے واقعات کو جھٹلانا کیونکر ممکن ہے‘ اور حقیقت یہ ہے کہ میرے ایک دوست کو ایل ڈی اے میں نقشہ پاس کروانے کے لیے 35 لاکھ روپے اور ایک لاکھ دس ہزار روپے مالیت کے دو لیڈیز سوٹ نذر کرنے پڑے تھے ۔بجلی کے ٹرانسفارمر کے لیے بارہ لاکھ روپے دینے پڑتے ہیں اور جب ٹرانسفارمر کی ڈی گر جائے تو ا س کے لیے لیسکو والے پانچ ہزار روپے مانگتے ہیں ‘ اور یہ ڈی ایک ماہ میں کم ازکم چھ سات دفعہ تو لازمی گر ہی جاتی ہے ۔مگر اس سب کچھ کے باوجود تحریک انصاف ''کرپشن فری ‘‘کا ڈھول پیٹے جا رہی ہے ‘شاید کوئی انہیں نہیں بتاتاکہ ان کے اس ڈھول کے شور سے سب کے کان پھٹے جا رہے ہیں۔
پرانے پاکستان کا ایک اور قصہ یاد آ گیا‘ ابھی لاہور کے امراضِ قلب کے ہسپتال سے ملنے والی جعلی ادویات کی تباہ کاریوں کی خبریں تازہ تھیں کہ شاہدرہ سے ملنے والی خبروں نے ملک بھر کے میڈیکل سٹوروں پر بکنے والی ادویات سے اعتماد ہی ختم کر دیا۔ ٹی وی کی ہر سکرین دیکھنے والوں کی چیخیں نکل رہی تھیں کہ جعلی سیرپ پینے سے لوگ ایک ایک کر کے مرتے جا رہے تھے اورشام تک ان کی تعداد15 سے تجاوز کر چکی تھی۔ شاہدرہ کی انتہائی غریب اور پسماندہ بستیوں کی ہر گلی سے جنازے اٹھتے دیکھ کر سب دل تھام کر رہ گئے کہ کہاں جائیں اور کیا کریں؟گھروں میں پڑی بچوں اور بڑوں کی ادویات اور سیرپ تلف کئے جانے لگے۔ تیسری دفعہ منتخب ہونے کی صورت میں نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں نے اس جعلی سیرپ سے مرنے والے پندرہ بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کی ہلاکت پر کوئی جے آئی ٹی یا انکوائری کمیٹی بنائی تھی؟ کسی کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر سزا دی ؟شاہدرہ میںابھی لاشیں دفنائی جا رہی تھیں کہ گوجرانوالہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں34 افراد شاہدرہ جیسے کسی جعلی سیرپ کی بھینٹ چڑھ کر دنیا سے جا چکے تھے۔ یہ کوئی خیالی کہانیاں نہیں آج بھی ہر ٹی وی چینل اور اخبارات کے صفحات سمیت متاثرہ گھرانوں کے پاس اس کے تصدیقی سرٹیفکیٹ موجود ہوں گے۔مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ناکامی کا طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانکیں اور ماضی کو یاد کریں تو سب واضح ہو جائے گا کہ جب انہیں پاکستان کے عوام کی تقدیر بدلنے کا موقع ملا تو انہوں نے اس وقت کیا کارنامے سر انجام دیے۔اگر وہ کل ‘ یہ سب کچھ نہیں کر سکے تو ‘ آج ان کے دعوؤں پر کیونکر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟پاکستان تحریک انصاف اگر چاہے تو وہ اس انجام سے بچ سکتی ہے ‘ جس کا سامنا اُن جماعتوں کو کرنا پڑ رہا ہے ‘ جنہیں ماضی میں حکومت کا اختیار دیا گیا تھا‘ مگر وہ عملی طور پر کوئی مثبت نتیجہ نہیں دے سکیں ۔ موجودہ حکومت کے پاس وقت اوراختیار ہے‘ یہ چاہے تو وہ سب کرسکتی ہے جو ماضی کی حکومتیں نہیں کر سکیں‘ یعنی کرپشن کا خاتمہ‘ عوامی سہولیات میں اضافہ اور حقیقی معنوں میں گڈ گورننس کا قیام۔