انڈین آرمی کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پی کے چوہدری‘ جو اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ نے دہلی ہائی کورٹ میں سوموار 13 جولائی کو پٹیشن داخل کی ہے کہ 10 جولائی کو ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس (DGMI) انڈین آرمی کی جانب سے جاری کئے گئے خط کے ذریعے حکم دیا گیا ہے کہ تمام فوجی افسران اور سولجرز اپنے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس ختم کر دیں۔ یہ حکم میرے‘ دوسرے افسروں اور جوانوں کیلئے انتہائی حوصلہ شکن ہے، اس لئے میں DGMI کے اس حکم کو دہلی ہائیکورٹ میں چیلنج کر رہا ہیں جس میں بھارتی فوج کے تمام افسروں اور جوانوں کو وٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک سمیت 89 سوشل میڈیا نیٹ ورک ذرائع استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ کرنل پی کے چوہدری نے درخواست کی ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کی جانب سے لاگو کیے گئے اس حکم کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔
DGMI کی جانب سے یکم جون سے تمام فارمیشن کمانڈرز کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے ماتحت تمام اہلکاروں کو سختی سے پابند کریں کہ وہ فہرست میں موجود 89 مختلف سوشل میڈیا ایپس کو بند کر دیں وگرنہ ملٹری قوانین کے تحت سخت ایکشن ہو گا۔
بھارت کی فوج‘ جو اپنے اوپر لگی سیٹلائٹ پابندیوں پر رونا دھونا شروع ہو گئی ہے‘ اتنی جلدی بھول کیسے گئی کہ اپنی 8 لاکھ سے زائد تعداد کے علاوہ پولیس کی سنگینوں کے سائے تلے 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں پر پانچ اگست 2019 سے صرف یہی نہیں بلکہ تمام سوشل میڈیا رابطے بند کر رکھے ہیں اور کشمیری گزشتہ گیارہ ماہ سے ایسی ہی محبوس زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنے پر بات آئی تو چند دنوں میں ہی ان سب کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں اور دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کی دائر کردہ پٹیشن سماعت کیلئے منظور کر لی ہے۔ انہیں اب پتا چلا کہ جو گڑھا تم دوسروں کیلئے کھودو گے‘ اس میں اپنے بھی گر سکتے ہیں۔
کرنل پی کے چوہدری‘ جن کا تعلق انڈین آرمی کی سروسز کور سے ہے‘ کا کہنا ہے کہ وزارتِ دفاع اور ملٹری انٹیلی جنس کا یہ حکم آئین کے آرٹیکل 33 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ آرمی ایکٹ 1950ء کے سیکشن 21 کے تحت بھی غیر قانونی ہے۔ کرنل چوہدری نے اپنی پٹیشن کے ذریعے درخواست کی ہے کہ یہ حکم اور پابندیاں بنیادی حقوق پر بہت بڑا ڈاکا ہیں‘ جنہوں نے بھارتی سولجرز کے خاندانی روابط ختم کردیے ہیں۔ کرنل چوہدری کی پٹیشن کے مطا بق ہزاروں ایسے سپاہی اور افسران جو دور دراز اور انتہائی دشوار گزار جگہوں اور اونچی اونچی چوٹیوں‘ پہاڑوں، ریگزاروں اور برف کے گلیشیرز میں اپنے فرائض انجام دینے کیلئے بھیجے جاتے ہیں‘ ان کی اپنے گھروں میں چھ چھ ماہ تک واپسی نہیں ہو پاتی‘ اس سے ان کی صحت اور دماغی استعداد میں بھی کمی آ جاتی ہے‘ وہ اپنے آپ کو ایک بہتر ماحول میں لانے کیلئے وٹس ایپ اور فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ ذرائع سے اپنے گھر والوں، بیوی بچوں سمیت اپنے والدین‘ دیگر دوستوں اور قریبی رشتہ داروں سے رابطہ میں رہتے ہیں جس سے ان کی پریشانی ا ور اداسیاں کم ہو کر انہیں ریلیکس کر دیتی ہیں۔ کرنل پی کے چوہدری نے اپنی پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان سپاہیوں کی حالت دیکھیں جو اپنے گھروں سے انتہائی دور دراز جگہوں پر رہ رہے ہیں اور انہیں اپنے گھروں تک آنے جانے میں دو دو دن کا سفر کرنا پڑتا ہے‘ تو کیا دو دن کی رخصت لے کر اپنی یونٹوں سے روانہ ہونے والے یہ سپاہی اپنے گھروں کو ہاتھ لگا کر واپس آ جائیں؟ کیا ایسا سپاہی کسی بھی محاذ پر اپنے آپ کو دماغی طو رپر مکمل فٹ رکھ سکتا ہے؟ جب ان سپاہیوں کو جے او سی سے ملکی سرحدوں کے اندر اور باہر مختلف حالات کی وجہ سے کئی کئی ماہ گھروں کو جانے کی اجا زت نہیں ملتی تو ایسے میں اگر سپاہی اپنے بچوں کو فیس بک یا سوشل میڈیا کی کسی ایپ کے ذریعے دیکھ لیں یا ان سے باتیں کر لیں تو اس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟کرنل چوہدری کا اپنی پٹیشن میں مزید کہنا ہے کہ یہ حکم آئین کے آرٹیکل 14 کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے اور اس حکم کے ذریعے انڈین آرمی کے سولجرز کے بنیادی حقوق چھینتے ہوئے ان سب کی حب الوطنی پر بہت بڑا سوال اٹھایا گیا ہے۔ کرنل پی کے چوہدری کے وکلاء سانندیک پرتاپ سنگھ اور شیوانک پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ملکی راز یا اہم معلومات صرف سپاہی کے پاس ہی نہیں ہوتیں بلکہ یہ ملک کے اعلیٰ افسران، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی سے متعلقہ لوگوں کے پاس بھی ہوتیں ہیں۔ ان سب کی بھی ملکی رازوں اور معلومات تک رسائی ہوتی ہے تو پھر ان پر یہ حکم کیوں لاگو نہیں کیا جاتا کہ وہ بھی فیس بک اور وٹس ایپ جیسی تمام ایپس کو بند کر دیں؟ انہیں بھی کہا جائے کہ وہ بھی اپنے اکائونٹس ڈیلیٹ کریں۔ یہ حکم صرف انڈین آرمڈ فورسز پرسنل کیلئے ہی کیوں؟ کیا یہ ان فوجیوں کیلئے ایک دھچکا نہیں کہ ان کی حب الوطنی پر شک کرتے ہوئے انہیں فیس بک اور وٹس ایپ سے صرف اس لئے محروم کیا جا رہا ہے کہیں وہ ملکی راز نہ بیچ دیں؟ کیا اس قسم کی توجیہات ایک سپاہی کے شایانِ شان سمجھی جا سکتی ہیں؟
اس سے پہلے انڈین نیوی کو بھی کہا گیا کہ وہ مختلف 85 ایپس سے خود کو دور رکھیں جن میں فیس بک، انسٹاگرام اور وٹس ایپ وغیرہ بھی شامل ہیں اور اب ان کی دیکھا دیکھی انڈین ایئر فورس بھی اپنے طور پر ایک فہرست مرتب کر رہی ہے۔ انڈین آرمی کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر ایک نشریاتی ایجنسی کے رپورٹر کو کرنل چوہدری کی اس رٹ کے حوالے بتایا کہ سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کرنے کا حکم دینے سے پہلے DGMI نے انڈین آرمی کو ایک سٹینڈنگ آرڈر جاری کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے روحانی بابا، ملنگ، گرو، پنڈت یا جوتشی سے دور رہیں‘ ان کے ساتھ کسی بھی طریقے سے فیس بک، انسٹا گرام اور وٹس ایپ جیسے کسی بھی ذریعے سے رابطہ نہ کریں کیونکہ ان میں سے اکثر کا تعلق پاکستان کی انٹیلی جنس سے ہو سکتا ہے۔ کسی بھی با با جی یا گرو وغیرہ کو اپنی لوکیشن اپنے افسروں کے نام اور عہدے بتانے سے گریز کریں کیونکہ انڈین آرمی تک ایسے اطلاعات پہنچی ہیں کہ دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے متعلقہ 150 سے زیا دہ جعلی فیس بک اکائونٹس کے ذریعے انڈین آرمی کے سولجرز اور جے سی اوز کو روحانی اور مذہبی طور پر متاثر کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں اس وقت Spiritual Gurus کی فالوونگ کروڑوں تک پہنچی ہوئی ہے اور کہا نہیں جا سکتا کہ ان میں سے کتنے بابوں کا تعلق دشمن ملک کی ایجنسیوں سے ہو سکتا ہے۔ ایسی تمام روحانی شخصیات جو انسانوں کو اپنی جادو‘ اثر یا باتوں سے اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں ان کا سب سے زیا دہ نشانہ وہ سپاہی بنتے ہیں جن کے متعلق انہیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ اہم مقامات پر ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ایسے سپاہیوں اور جونیئر افسران کے گھر، والدین اور بیوی بچوں کے متعلق پیاری پیاری باتیں کی جاتی ہیں، کئی کئی دن ان سے صرف ہمدردی جتانے کے بعد آہستہ آہستہ انہیں اپنے ڈھب پر لے آیا جاتا ہے۔ انڈین انٹیلی جنس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایسے سپاہی اور سردار صاحبان آئی ایس آئی کا سب سے کار آمد شکار ثابت ہوتے ہیں۔
کشمیر سے لداخ اور سکم سے نیپال تک‘ ہر جگہ ہزیمت کا شکار بھارت اب ذہنی مریض بن چکی اپنی افواج پر طرح طرح کی پابندیاں لگا کر اصل معاملے سے بھارتی میڈیا اور عوام کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے کہ پچھلے کافی عرصے سے جہاں بھارتی فوج میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، وہیں پر بھارتی فوجیوں کے دیگر ممالک کی ایجنسیوں سے روابط اور انہیں ملکی راز فروخت کرنے کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے۔ بھارت اپنی افواج کو بنیادی انسانی ضروریات حتیٰ کہ صاف پانی اور پیٹ بھر کے کھانا تو فراہم کر نہیں سکا لیکن ایسی بے جا پابندیاں لگا کر ضرور انہیں دنیا سے الگ تھلگ کر دینا چاہتا ہے۔