"MABC" (space) message & send to 7575

کراچی کا سیلاب

صوبائیت کا سیلاب، لسانیت کا سیلاب، دہشت گردی کا سیلاب، فرقہ واریت کا سیلاب، بھتہ خوری کا سیلاب... ان سب کے بعد اب کراچی میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں سے اس پورٹ سٹی کے آدھے سے زائد گھر، دکانیں، کاروباری مراکز اور سڑکیں اربن سیلاب کی زد میں ہیں۔ ایک دو برسوں کے دوران کراچی میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے اس کے پچیس لاکھ سے زائد غریب‘ متوسط اور نیم متوسط لوگوں کو کہیں زیر بار تو کہیں بالکل ہی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ گھروں میں گندے اور بدبودار پانی نے ان کی موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، بستر، لباس اور فرنیچر سب غرق کر دیا ہے۔ تمام متاثرین ہر بار لیڈران کی شکل میں تراشے گئے ان بتوں سے عقیدت کے جرم کی پاداش میں اس وقت سڑکوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کراچی کو کسی نے باہر سے آکر نہیں لوٹا‘ کراچی کو تو اندر سے لوٹا گیا ہے، اس میں بھتہ لینے والے بھی ہیں اور رشوت کا مال کھانے والے بھی۔ ان میں ٹھیکے دینے والے بھی ہیں اور لینے والے بھی، ان میں قبضہ کرنے والے بھی ہیں اور قبضے کرانے والے بھی، ان میں جرم کو تحفظ دینے والے بھی ہیں اور جرم کرنے والے بھی، ان میں وزیر بھی ہیں اور مشیر بھی، ان میں ڈاکو بھی ہیں اور ڈاکے ڈلوانے والے بھی، ان میں لٹنے والے بھی ہیں اور لوٹنے والوں کو کندھوں پر بٹھانے والے بھی، کراچی کو ڈبونے میں وردی والے بھی شامل رہے ہیں اور بغیر وردی والے بھی۔ کراچی کو لوٹنے اور ڈبونے والوں میں کارپوریشن، میئر، واٹر بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت کئی ادارے‘ سندھ کے وڈیرے اور جاگیردار بھی شامل ہیں اور اسی نسبت سے آنے جانے والے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ بھی۔
کسی بھی کوسٹل شہر میں ہونے والی طوفانی بارشیں وہاں اربن فلڈ کا باعث بن جاتی ہیں۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو چار دن کی تیز اور موسلا دھار بارشیں کوسٹل شہر کے کچھ حصوں کے نظام زندگی کو درہم برہم کر دیتی ہیں لیکن ان شہروں کی انتظامیہ اپنے انتہائی قابل انجینئر اور ٹائون پلاننگ کے ماہرین کے ذریعے اس قسم کا جدید اور بہترین سسٹم تیار کرتی ہے کہ بارشوں کا پانی چند گھنٹوں میں نکال دیا جاتا ہے۔ ہاں! ایک بات ہے کہ ان شہروں میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز، الیکٹرک کمپنیاں اور واٹر بورڈ سمیت پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے محکمے ایماندار لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں جنہوں نے اگر سب سے پہلے عوام کو جواب دینا ہوتا ہے تو انہیں اپنے معاشرے اور گھر والوں کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونے کا بھی یقین ہوتا ہے۔ جس دن ہمارے بچوں نے‘ والدین سے اور بیوی نے خاوند سے پوچھنا شروع کر دیا کہ نت نئے پلاٹ اور گھر کہاں سے لئے جا رہے ہیں؟ یہ گاڑیاں اور قیمتی لباس ہم سب کے لئے کہاں سے آ رہے ہیں؟ تمہاری تنخواہ اور آمدن قلیل ہونے کے باوجود تمہارے اخراجات، تمہارا لائف سٹائل اس قدر بلند کیسے ہے؟ بس سمجھ لیجئے گا کہ اسی روز پاکستان میں انقلاب کا آغاز ہو جائے گا۔ نجانے وہ دن کب آئے گا؟ لیکن جب ہ دن آ گیا تو پھر ندی نالوں، سڑکوں، خالی میدانوں پر قبضے نہیں ہوا کریں گے اور نہ ہی اربن سیلاب آیا کرے گا۔
بدلا کچھ بھی نہیں‘ کل تک ہم نو آبادیاتی نظام کے تحت انگریزوں کے غلام تھے تو آج ہم اسی نظام کے پروردہ لوگوں کے ماتحت کر دیے گئے ہیں جنہیں ٹی وی سکرینوں پر تباہ ہونے والے گھروں، ڈوبی ہوئی گاڑیوں کو دیکھ کر سوائے 'او مائی گاڈ‘ کہنے کے اور کچھ نہیں آتا۔ اگر اپنی تحریر میں‘ اپنے ایک ایک حرف میں‘ درد کے خزانے بھر کر کراچی والوں پر بیتی ہوئی داستان لکھنا شروع کر دوں تو بھی میرا پورا کالم ان کی ایک رات کی تکلیف‘ اذیت اور بے بسی کا احاطہ نہیں کر سکے گا۔ کیا مجھے کوئی بتائے گا کہ جس گھر میں بوڑھے‘ بیمار اور فالج زدہ ماں باپ ہیں، جہاں چند دن اور چند مہینوں کی عمر کے بچے ہیں، جن کے گھروں کے چھوٹے چھوٹے کمروں کے اندر تین سے چار فٹ تک پانی کھڑا ہے، جن کے بستر اور گھر کا سامان غلاظت بھرے پانیوں پر تیر رہا ہے، اسے اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں کہ ہم کراچی والوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے تو اس سے بڑا زخم اور کیا ہو گا؟ یہ لوگ میڈیا پر ہمیں یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ یہ آسمانی آفت ہے! ارے جھوٹو! یہ آسمانی آفت نہیں بلکہ تم جیسے انسانوں کی لائی ہوئی آفت ہے‘ تمہارے ظلم اور نااہلی کی برسات نے ہمارا سب کچھ چھین لیا ہے۔
اس وقت کراچی اور سندھ کے تمام متاثرہ علا قوں کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ایسے تمام گھروں اور گھرانوں کو دل کھول کر امداد فراہم کرنا ہو گی تاکہ یہ لوگ اپنے گھر بار، گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں اور کاروبارِ حیات پھر سے شروع کر سکیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو بھی بات پھر وہیں پر آ جائے گی کہ کسی نے اس آفت سے بھی سبق نہیں سیکھنا۔ جنہیں کورونا جیسی وبا نہ سدھار سکی‘ وہ اپنے گھروں اور گاڑیوں کے جھوٹے سچے کلیم بنانے سے کیسے باز رہ سکیں گے؟ رشوت اور اقربا پروری کا پھر سے راج ہو جائے گا۔ وہ جن کا کوئی نہیں‘ جن کے پاس کہیں آنے جانے کی سکت نہیں ہو گی‘ وہ پھر کسی چالباز کے جھانسے میں آ جائیں گے۔ جعلی کلیم بنیں گے اور مستحق منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
پاکستان میں جوہرِ قابل اس قدر بکھرا ہوا ہے کہ اگر کبھی اس کا پچاس فیصد بھی کسی حکومت نے ملک کی بہتری، امن و امان، ترقی، اور پائیدار منصوبہ بندی کے لئے استعمال میں لانے کا آغاز کر دیا تو بائیس کروڑ پاکستانیوں کے غم و غصے، تکلیفوں اور بد نصیبیوں کے قصے اگر کہیں سننے یا دیکھنے کو ملے بھی تو اس قدر محدود ہوں گے کہ انہیں سلجھانے میں چند گھڑیاں اور کچھ پل ہی لگیں گے۔ بدقسمتی اس ملک و قوم کے ساتھ یہ ہوئی کہ نہ تو خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم۔ ہم نے کبھی جمہوریت‘ کبھی نیم جمہوریت تو کبھی آمریت میں اپنے جمہوری حقوق استعمال کرتے ہوئے اپنی باگ ایسے ہاتھوں میں تھما دی جنہوں نے ہم سے انسان تو دور کی بات‘ گدھوں، گھوڑوں اور خچروں سے بھی بدتر سلوک کیا۔
میری اطلاعات اور تحقیق کے مطابق اس وقت کم ازکم 250 سے زائد پولیس، ڈی ایم جی، سینئر ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسری اعلیٰ سروسز کے فرض شناسی کے مرض میں مبتلا افسران کو او ایس ڈی یا کھڈے لائن لگا کر ان کو حب الوطنی اور فرض شناسی کی عبرت ناک سزا دی جا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے پاکستان بھر میں کھڈے لائن لگائے گئے ایسے افسران کی فہرست نکال کر انہیں تبدیلی کا ایجنڈا دے کر مختلف محکموں اور اداروںمیں پوسٹنگ دے کر دیکھ لیں‘ ایک برس میں ہی اچھے نتائج سب کے سامنے آ جائیں گے۔ ادل بدل کر‘ من پسند پوسٹنگز سنبھالے ہوئے ان لوگوں سے اگر گزشتہ بیس تیس برسوں سے کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں کے معا ملات سدھارے نہیں جا سکے تو کھڈے لائن لگائے ہوئے یہ گناہ گار بھی اگر آزما لئے جائیں تو کیا حرج ہے؟
کراچی کو ایک Citizen Centric حکومت چاہیے لیکن پہلے جیسی نہیں بلکہ ایسی شہری حکومت جسے کسی پارٹی لیڈر کے سامنے سر جھکانے کی عادت نہ ہو‘ جو صرف عوام کے حقوق کے تابع ہو‘ بد قسمتی سے ایسے معاشرے میں اس قسم کے سیا سی اور سماجی میدان میں ایسا دوردور تک ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ یہاں پارٹی لیڈران کے بت تراشنے کا رواج ہے۔ یہاں بتوں کی صورت بیٹھے پارٹی سربراہوں کے برا بر بیٹھنے کی کسی کو ہمت اور جرأت نہیں ہوتی، بھلا بولنے اور کھڑے ہونے کی کیسے ہو گی؟ جس شخص کی اپنی کوئی رائے نہیں ہو گی‘ جس نے بھتہ دینا اور لینا ہے وہ کراچی کے مسائل کیسے حل کر سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں