28 اگست کو بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی 1350 صفحات پر مشتمل تفتیشی کہانی سناتے ہوئے بھارت کا پورا میڈیا پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ اور اپنے تئیں مجرموں کی نشاندہی اسی طرح سے کرنا شروع ہو گیا جیسے 18 فروری 2007ء کو پانی پت میں نئی دہلی سے لاہور آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیاں جلائے جانے کے چند منٹ بعد بھارت سرکار اور میڈیا یک زبان ہو کر پاکستانی اداروں اور کشمیری جہادی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے اس سفید جھوٹ کا پردہ اس وقت چاک اور بھارت کا چہرہ دنیا بھر کے سامنے بے نقاب ہوا جب جنوری2011ء میں ہریانہ کی عدالت میں سوامی آسیم آنند نے اقبالی بیان دیتے ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس کی دونوں بوگیوں کو آتش گیر مادے اور بم دھماکے سے تباہ کرنے کے جرم کو تسلیم کر لیا اور اس کے چند روز بعد سوامی آنند سے کی جانے والی تفتیش کی روشنی میں بھارتی فوج کے کرنل پروہت کو گرفتار کیا گیا۔ یہ شخص اس قسم کی دوسری بہت سی منظم دہشت گرد کارروائیوں کا بھی ماسٹر مائنڈ نکلا۔ انسپکٹر جنرل انسدادِ دہشت گردی سکواڈ (اے ایس ٹی) ہیمنت کرکرے کے سامنے اپنے تمام جرائم کو تسلیم کر تے ہوئے کرنل پروہت نے بتایا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے 68 مسافروں کی ہلاکت اور مالیگائوں، اجمیر شریف سمیت مکہ مسجد‘ حیدر آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں اس کے ساتھ بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، ابھینائو بھارت، جے بندے ماترم اور ونواسی کلیان آشرم جیسی ہندو دہشت گرد تنظیمیں شامل تھیں۔
NDTV سمیت بھارتی میڈیا ہائوسز الزامات لگاتے ہیں کہ 14 فروری 2019ء کو پلوامہ میں بھارت کی CRPF کے قافلے پر کئے گئے خود کش حملے کے لئے رقم پاکستان سے کسی عمر فاروق نامی شخص نے بھیجی‘ جس کا شناختی کارڈ انڈین ٹی وی چینلز پر بار بار دکھایا جاتا رہا۔ NIA کے مطا بق عمر فاروق نے سرینگر میں دہشت گردی کے لئے رقم کی فراہمی کے لئے پشاور اور خیبر ایجنسی کے بینک اکائونٹس استعمال کئے۔ کیا یہ عجیب الزام نہیں؟ کیا پیسے بھیجنے کی بینک ٹرانزیکشن حاصل نہیں کی جا سکتی؟ اور جب دشمن ملک کیHostile ایجنسیز اپنے کسی مشن کے لئے اس طرح کے کام کرنا چاہیں تو ان کے سلیپر سیلز کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں۔
پلوامہ خود کش حملے کے ملزمان پر 1350 صفحات کی یہ چارج شیٹ NIA کو شاید اس لئے جلد بازی میں پیش کرنا پڑی کیونکہ CBI اور RAW کی آپسی مخاصمت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس سلسلے میں پونا جرمن بیکری میں ہونے والے بم دھماکے کی مثال سب کے سامنے ہے کہ اس کیس میں NIA جس کو کلیئر کرتی تھی‘ ATS مہاراشٹر اسے مجرم گردان کر اگلے ہی لمحے گرفتار کر لیتی۔ پلوامہ کیس میں NIA کو اپنی ساکھ بچانا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ اس کی مخالف بھارت کی دونوں لاڈلی خفیہ تنظیمیں اپنے میڈیا سیلز کے ذریعے اس کے خلاف آرٹیکل لکھوانا شروع ہو گئی تھیں کہ ایک برس گزر جانے کے با وجود اس سے پلوامہ کیس ہی حل نہیں ہو رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے اوپر لگنے والے ان پے درپے الزامات کا جواب دینے اور میڈیا پر تماشا بننے سے بچنے کے لئے اس نے پہلے مارچ اور پھر جولائی میں 19 سالہ کشمیری لڑکے واعظ السلام کو یہ کہہ کرگرفتار کر لیا کہ اس نے بم دھماکے کے لئے کچھ کیمیکلز آن لائن منگوائے تھے۔ انشا جان نامی نوجوان کشمیری لڑکی اور اس کے باپ پر یہ الزام لگایا گیا کہ خودکش حملہ آور عادل ڈار ان کے گھر ٹھہرا تھا۔ بھارت میں اب کچھ حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ NIA کو یہ بھی ایک برس بعد معلوم ہوا؟
عمر فاروق نامی شخص‘ جس کا (جعلی) شناختی کارڈ اور بینک اکائونٹ نمبر انڈین میڈیا بار بار دکھا رہا ہے‘ اس کا سپیئر پارٹس کا کاروبار ہے اس نے پشاور کے ایک بینک میں پاکستانی کرنسی میں اپنا اکائونٹ 18 جنوری 2017ء کو اوپن کرایا اور اس کی باقاعدہ بائیو میٹرک تصدیق کرائی گئی تھی۔ اس کے اکائونٹ میں زیا دہ تر آن لائن رقوم راولپنڈی، کوئٹہ اور اسلام آباد سے جمع کروائی گئی ہیں۔ عمر فاروق کا دوسرا بینک اکائونٹ خیبر ایجنسی کے ایک بینک میں 31 مارچ 2018ء سے ایکٹیو ہے‘ یہاں بھی اس کا پیشہ سکریپ ڈیلر تحریر ہے اور اس اکائونٹ سے اس نے جو بھی رقم نکلوائی‘ اس کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یا تو یہ چیک کے ذریعے یا ATM کے ذریعے نکلوائی گئی۔ خیبر ایجنسی کے بینک میں بھی اس کی باقاعدہ بائیو میٹرک تصدیق کی گئی تھی۔ سب سے دلچسپ 'انکشاف‘ کہہ لیجئے یا بھارت کی شیطانی غلطیوں کا بے نقاب ہونا‘ یہ ہے کہ جس طرح ممبئی تاج محل ہوٹل حملوں میں اکیلے بچ جانے والے اجمل قصاب‘ جس نے کئی گھنٹے بھارت کی کمانڈو فورس کو انگلیوں پر نچائے رکھا‘ جس کے پاس کلاشنکوف، دستی بم اور پستول موجود تھا اور اسے ٹوکا رام نامی کانسٹیبل صرف لاٹھی سے گرفتار کر لیتا ہے، اسی طرح کے جھوٹ گھڑتے ہوئے میڈیا پر جو عمر فاروق کا شناختی کارڈ دنیا بھر کو دکھایا گیا‘ اس کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں۔ بینک ریکارڈ میں عمر فاروق کا شنا ختی کارڈ نمبر کوئی اور ہے جبکہ NIA کادکھایا جانے والا شناختی کارڈ بالکل مختلف ہے۔ جو شناختی کارڈ بھارت کے میڈیا ہائوسز کی جانب سے دکھایا جا رہا ہے اس میں لکھے ہوئے نام اور بینک ریکارڈ سے حاصل کئے جانے والے کارڈ کے ناموں میں واضح فرق ہے۔ بھارت کی جانب سے پیش کئے جانے والے اور بینک ریکارڈ میں موجود شناختی کارڈ پر عمر فاروق کی ولدیت بھی درست نہیں۔ دونوں شناختی کارڈز میں درج کی جانے والی تاریخ پیدائش بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔
NIA کی چارج شیٹ کے مطا بق یہی عمر فاروق وائس میسج کر کے خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کو اُکساتا رہا۔ یہ چارج شیٹ پہلے پانچ ہزار صفحات پر مشتمل تھی‘ جسے بعد میں نجانے کیوں 1350 صفحات تک محدود کر دیا گیا۔ اس کے مطا بق ''پلوامہ حملہ کرانے والوں کا اصل مقصد پاکستان اور بھارت میں جنگ کے شعلے بلند کرنا تھا‘‘۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس میں پاکستان بطور ریاست کسی طور بھی ملوث نہیں کیونکہ بالا کوٹ کے بعد پاکستان اگر جنگ چاہتا تو ادھر ادھر کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فضائیہ کے نشانے پر آئے ہوئے اصل ٹارگٹس ہٹ کرتے ہوئے جنگ کا بگل بجا دیتا۔
سب سے بڑا جھوٹ جو بھارتی میڈیا پر بار بار بولا جاتا رہا وہ یہ کہ عمر فاروق اپریل 2018ء میں جموں میں دہشت گردی کے لئے غیر قانونی طور پر داخل ہوتے وقت مارا جا چکا ہے جبکہ پشاور اور خیبر ایجنسی کے بینکس کا اکائونٹ ہولڈر عمر فاروق زندہ سلامت ہے اور بینک عملے سے اس کی اکثر اکائونٹس کے حوالے سے فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مارچ میں عمر فاروق اپنا بینک اکائونٹ آپریٹ کرواتا ہے اور اپریل میں اسے بھارتی میڈیا جموں میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ اس دوران اس کے چیکس باقاعدہ آپریٹ ہوتے ہیں۔
''دی پرنٹ‘‘ جسے بدنامِ زمانہ را آپریٹ کرتی ہے‘ 14 فروری2020ء کو اس نے Ananya Bhardwa کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں وہ NIA کا تمسخر اڑاتے ہوئے پوچھتا ہے کہ پلوامہ حملے کو ایک برس بیت گیا لیکن ابھی تک این آئی اے کچھ بھی نہیں کر سکی۔ مذکورہ ایجنسی کا تماشا بناتے ہوئے اس نے مزید لکھا کہ اب تو پلوامہ کے محرکین کی گرفتاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کے کرداروں میں سے مدثر خان کو 10 مارچ2019ء، کامران کو 29 مارچ 2019ء، سجاد بھٹ کو 18 جون 2019ء اور قاری یاسر کو 25 جنوری 2020ء کو ''مقابلے‘‘ میں پار کیا جا چکا ہے جبکہ چودہ فروری 2019ء کو پلوامہ حملے کا ایک سال مکمل ہونے پر مذکورہ اخبار نے یہ معنی خیز جملہ لکھا تھا:
''The reason behind the NIA's almost -dead case is that none of the key suspects are alive."