"MABC" (space) message & send to 7575

ہمارا داخلی نظم

خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کچھ عرصے سے پاکستان میں فرقہ پرستی، لسانیت، عصبیت اور نفرت کو ہوا دینے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اور مشاہدے میں آ رہا ہے کہ نفرت انگیز سوشل میڈیا مہم سے امڈتی طوفانی لہریں ایک غیر محسوس قسم کی خاموشی اور سرسراہٹ لئے وطن عزیز کے اندر جوش مار رہی ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اکتوبر اور نومبر کے مہینے بھارت کا ٹارگٹ بن چکے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ خدشات بے بنیاد ہوں لیکن اس مہم سے اٹھنے والی سرانڈ آنے والے دنوں کی سختی کا پتا دے رہی ہے۔ دشمن نے دیکھ لیا ہے کہ اس کی دم پر چین کا بھاری پائوں آنے سے اس کے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سرحدیں پامال کرنے کے شیطانی منصوبے اندر ہی دب کر رہ گئے ہیں۔ بلوچستان میں اس کے دہشت گردوں کی کمر تقریباً ٹوٹ چکی ہے اس لئے جہاں اس نے ٹی ٹی پی اور اس کے سپلنٹڈ گروپس کے ذریعے وزیرستان میں اپنا پہلا مورچہ سنبھالا ہوا ہے‘ وہیں دوسری جانب پاکستا ن کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ منافرت ابھارنے کا دوسرا محاذ کھولا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نئے مورچے کے لئے اس نے اندر سے ہی کچھ عناصر کی مدد کرتے ہوئے ہڑتالوں کے ذریعے امن و امان تباہ کر کے ملکی صنعت کا پہیہ جام کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ دشمن کی اس چال کو سمجھے پائے گا؟ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے دشمن کن خطوط پر کام کر رہے ہیں اور اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟
اگر ہم دشمن کے نعروں اور تحریکوں میں بہہ گئے تو یاد رکھئے کہ پٹڑی سے اترے ہوئے معاشروں اور کھونٹے سے اکھڑے ہوئے چوپایوں کو دوبارہ سنبھلنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس قسم کے معاشرے اور قوموں کی کیفیت تلاطم خیز موجوں سے کھیلتی ہوئی ان کشتیوں کی سی ہوتی ہے جنہیں ساحلوں تک پہنچنے کے لئے نہ جانے کتنے غوطے کھانا پڑتے ہیں۔ اگر اس کشتی کے مسافر افراتفری اور ہڑبونگ مچا کر رہی سہی کسر پوری کرنے لگیں تو ایسے میں کشتی کے ملاح‘ اگر انسانی جذبہ اور مہارت رکھنے والے ہوں تو ہی ان کشتیوں کوگرداب سے نکالنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں لیکن اگر سوار کشتی میں خود ہی سوراخ کرنے لگیں اور ملاح بھی کام چوری، اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا شکار ہوکر کشتی میں سوراخ کرنے والوں کے ہمدرد بن جائیں تو پھر کوئی بڑا طوفان نہیں بلکہ ایک معمولی سی لہر بھی کشتی اور اس کے مسافروں کو آخری سفر پر روانہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔
اس سال محرم الحرام سے پہلے اور بعد میں اب تک‘ سوشل میڈیا پر دشمن کے انتہائی خطرناک وار ملکی امن و استحکام کو چٹ کر جانے کے لئے اس ترتیب اور بے خوفی سے جاری ہیں کہ محسوس ہونے لگا ہے کسی کو فورتھ شیڈول میں رکھنے جیسا قانون اربابِ اختیار کے تصور میں ہی نہیں۔ وہ باتیں اور نعرے‘ جو گزشتہ کئی برسوں سے اندر ہی اندر پنپ رہے تھے اب ملکی شاہراہوں اور کچھ دوسرے مقامات کے باہر گونجتے سنائی دیتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ کہیں پر‘ کسی بھی جگہ ان نعروں اور بینروں کو جوشِ جہالت کی آگ پکڑے کیونکہ خدشہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ آگ اس قدر پھیلا دی جائے گی کہ کسی سے بھی سنبھالی نہ جا سکے گی۔ دشمن اپنے تیار کردہ نام نہاد مقررین کو بروئے کار لا رہا ہے اور تمام تر قوانین کے ہوتے ہوئے بھی سوشل میڈیا پر وہ کچھ لکھا اور سنایا جا رہا ہے کہ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ دو دھڑے تیار کیے جا رہے ہیں۔یہ آگ کے گولے آتش فشاں کی شکل میں دھکتے رہتے ہیں اور پھر دشمن اپنے کارندوں کے ذریعے انہیں ٹاسک دیتا ہے کہ تم ادھر تباہی مچائو اور تم وہاں آگ لگا دو۔ آج خوش قسمتی سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمارے اردگرد ایک زبردست قسم کی ایٹمی دیوار قائم کی ہوئی ہے جس نے ہم کو اس خوف سے بے فکر کیا ہوا ہے کہ دشمن اپنی عسکری برتری کا زعم لئے ہماری جانب قدم بڑھا سکتا ہے لیکن اس ایٹمی دیوار کے ساتھ اگر ہم معاشرے، اپنی سوسائٹی اور ملک کے مجموعی ماحول کو سامنے رکھیں تو ہر چیز مصنوعی، کھوکھلی اور بناوٹی سے لگتی ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور اور پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیئرمین سمیت متعدد ذمہ داران بار ہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ملک میں نفرت و اشتعال انگیزی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہورہا ہے جس کے تانے بانے ہمارے پڑوسی ملک کے علاوہ اسرائیل سے بھی جا کر ملتے ہیں۔ ایک منظم منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر اختلافی مسائل کو ہوا دی جاتی ہے اور پھر ناسمجھ لوگ بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ تین‘ چار عشروں سے پاکستان کو لسانی، مذہبی، علاقائی اور قومیتی بنیادوں پر عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازشیں رچائی گئیں جو اللہ کی مہربانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے سبب ناکامی سے دورچار ہوئیں تاہم اب سوشل میڈیا کے ذریعے وہی پرانا کھیل دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کے نظریے اور اس کی تہذیب و تمدن کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اسے تقسیم کر دو، باقی اہداف خود بخود پورے ہو جائیں گے۔دانشوروں کی کہی ہوئی یہ باتیں سامنے رکھیں اور پھر غور کریں کہ آج ہم کتنے گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور اس کے لئے ہم اور ہمارے تمام اربابِ بست و کشاد سب سے زیا دہ ذمہ دار ہیں۔ وقت گواہ ہے کہ ہر دورِ حکومت میں مخصوص طرزِ سیا ست کو سہارا دینے کے لئے کچھ مخصوص افراد کی پشت پناہی کی گئی۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اپنی مربی بیرونی حکومتوں کے ذریعے کچے ذہنوں کے بچوں کو تعصب کی آگ میں جلا جلاکرآگ کا گولہ بنا دیا ہے جو ہلکے سے اشارے پر کسی کو بھی بھسم کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔افسوس یہ ہے کہ ابھی تک کسی نے یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو کس قسم کا ما حول فراہم کیا جا رہا ہے، ان کے اساتذہ انہیں اجتماعی اور انفرادی محفلوں میں کس قسم کی تعلیمات دے رہے ہیں، استاد کس قسم کا رجحان لئے ہوئے ہیں، ان کے زیر مطالعہ کس قسم کی کتابیں رہتی ہیں، نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی صورت حال کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر کس قسم کا ہے؟ ہم سب نے اس اہم ترین مسئلے سے توجہ ہٹائے رکھی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے تعلیمی ادارے انتہا پسندی کی نرسریاں بن گئے اور اس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔
ہمارے ملک کے سکالر، مذہبی رہنما، سائنس دان، وہ سیا سی اور قومی رہنما‘ جو بلا کسی شک و شبہ‘ اس ملک کا سرمایہ تھے‘ جن کی صداقت اور دیا نت کی مثالیں دی جا تی تھیں‘ انہیں اس طرح نظر انداز کر کے رکھ دیا گیا کہ وہ معاشرے میں اپنا مقام ڈھونڈنے کے بجائے‘ وہ معاشرہ ڈھونڈ رہے ہیں جس کے انہوں نے خواب دیکھ رکھے تھے، جس کی ترتیب درست کرنے کے لئے وہ اس کی تراش خراش میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ہمارا اب کوئی رہنما ایسا نہیں رہا جو فکری رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم سب نے اپنے ہی وطن کی مٹی کو گہنا کر رکھ دیا۔ یہ تو کوئی گورکھ دھندے والی بات ہی نہیں کہ جب کوئی بھی معاشرہ جانی دشمنوں جیسے گروہوں میں بٹ جائے اور جب کسی ملک کی فکری اور نظریاتی بنیادوں کے محافظ اپنی عزت بچانے کے لئے پناہ گاہیں تلاش کرنے لگیں تو پھر نئی نسل ان سے کیا سیکھے گی؟ اور کس سے سیکھے گی؟ اور پھر جن سے وہ نیا سبق لے گی‘ وہ سبق صداقت، شجاعت اور عدالت کا نہیں بلکہ منافقت کا ہو گا۔ صرف منا فقت کا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں