"MABC" (space) message & send to 7575

گوجرانوالہ کے بعد …

با با جی سے کسی نے پوچھا‘ کفر اور ایمان میں کتنا فاصلہ ہے؟ تو جواب آیا کہ دو روٹیاں۔بھوک اور تہذیب میں‘ بھوک اور اعتماد میں‘ بھوک اور ایمان میں اتنا ہی فاصلہ ہے جو خالی پیٹ اور ایک نوالے کے درمیان ہوتا ہے۔
اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسہ میں سنائی دینے والے نعروں کی آوازیں دراصل وہی آوازیں تھیں جو جان نکالتی مہنگائی میں کسی عام اور کمزور مالی حیثیت والے گھر کے باورچی خانے میں راشن کے خالی ڈبوں سے آ تی ہیں۔یہ جلسہ ان ناکامیوں اور کوتاہیوں کے خلاف تھا جو دو سال سے ملک بھر میں دیکھنے اور سننے کی مل رہی ہیں۔لوگ آٹے کے ایک تھیلے کے لیے میلوں دھکے کھاتے ہیں اور اوپر بیٹھے سربراہان میں سے کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ تو اسی جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ اہم عہدوں پر کسے لگانا اور کسے ہٹانا ہے۔ نہ لگائے جانے والے کی کوئی سمجھ آتی ہے کہ کیوں لگایا گیا ‘نہ ہٹائے جانے والوں کے بارے پتہ چلتا ہے کہ کیوں ہٹایا گیا۔ تحریک انصاف کے مشہور زمانہ 30 اکتوبر کے لاہور مینار پاکستان کے جلسے نے اُس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کو ہی نہیں بلکہ باقی سب جماعتوں کو بھی اس طرح خواب خرگوش سے جھنجھوڑا کہ دیکھتے ہی دیکھتے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف عوامی مقاصد کے لیے متحرک ہو گئے۔انہوں نے ہر کالج‘ ہر یونیورسٹی کے طلبا و طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے ۔ مرکز اور پنجاب میں میاں برادران نے عمران خان کے خلاف جھوٹ بھی بہت بولے ‘لیکن یہ جھوٹ ان کے اپنے ہی گلے پڑ تے گئے کیونکہ حقائق لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے تھے‘ اس لئے تحریک انصاف کے جلسوں کی جتنی بھی اہمیت کم کر نے کی کوشش کی جاتی اتنا ہی وہ زیا دہ کامیاب ہونے لگتے۔ ان جلسوں کی جو سب سے زیا دہ قابل ذکر بات تھی وہ پاکستان کی نئی نسل کا عمران خان صاحب کی آواز پر لبیک کہنا تھا ۔نواز لیگ نے بہت شور مچایا ‘ بہت سی بے پر کی اڑائیں لیکن عمران خا ن کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔تحریک انصاف کے جلسوں میں جد ھر بھی نظر جاتی ہر طرف نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں ہی نظر آتے۔ ان جلسوں سے پورا پنجاب ہی نہیں ملک بھر کی سیاست کا رخ عمران خان کی طرف ہونا شروع ہو گیا۔ 
گوجرانوالہ کا 16 اکتوبر کا جلسہ ہو یا آج کراچی میں ہونے والا جلسہ‘ ان میں ''Selected‘‘کی جتنی چاہے گردان کر لی جائے لیکن سانچ کو آنچ نہیں‘ 2018ء بھی انہی عوام کا انتخاب تھا جن کے ووٹ سے مئی2013 ء میں میں نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے۔آج اپوزیشن جو چاہے کہتی رہے لیکن جن لوگوں نے2018 ء کے انتخابات کیلئے پولنگ سٹیشنوں میں اپنے ووٹ کاسٹ کئے ہیں انہیں ذرا سا بھی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے اپنی کامیابی کسی سے مانگی نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کے زور سے حاصل کی ہے‘ جسے بد قسمتی سے اب وہ رفتہ رفتہ اپنی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں سے ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ آج جب عمران خان صاحب کو حکومت سنبھالے دو برس سے زیا دہ کا عرصہ گزر چکا ہے تو کوئی انہیں بتائے یا نہ بتائے سچ یہ ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں اور اس میں کسی اور کا نہیں بلکہ صرف اور صرف ان کا اپنا قصور ہے۔ وزرا کے تبصروں‘ ٹوئٹس کے با وجود سچ یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ نواز حسب توقع عمران خان حکومت کے خلاف کامیاب سیاسی Show کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پی پی پی اور باقی جماعتوں کا ذکر کریں یا نہ کریں لیکن سچی بات ہے کہ نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے بعد باقی جماعتوں کا اس جلسہ عام یا پنجاب میں مقبولیت کا وہی حال ہے جو کسی فقیرکی کٹیا میں آرام و آسائش کا ہوتا ہے ۔اگر اردو کا بہترین محاورہ استعمال میں لایا جائے تو پی پی پی کے پنجاب میں یا اس جلسہ میں شور غوغا کو پرائی شادی میں عبد اﷲ دیوانہ کہیں تو زیا دہ بہتر ہو گا۔
سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جو کاہلی اور سستی سے بے پرواہو کر لیٹا ہوا ہو یا آنکھیں بند کر کے کاہلی سے لیٹا ہوا ہو اُسے جتنا چاہیں شور مچا کر جگائیں وہ اٹھنے کا نا م ہی نہیں لیتا‘ یہی حال اب تحریک انصاف کا ہو چکا ہے۔ اس وقت ہر ضلع میں تحریک انصاف کا اصلی اور نظریاتی ورکر اس قدر پیچھے جا چکا ہے کہ کوئی اس کا پرسانِ حال ہی نہیں اور ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے مرکزی ا ور صوبائی وزرا ان ورکروں سے اچھوتوں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔وہ لوگ جو دس‘ بارہ برس سے عمران خان صاحب کے ساتھ کام کر رہے تھے‘ ان کی جگہ پر اب '' بیرونی مشیر‘‘ قابض ہو چکے ہیں اور ان کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ایسے مخلص شخص کو ‘چاہے اس کا تعلق میڈیا سے ہی کیوں نہ ہو ‘عمران خان صاحب کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ بس دو چار ٹوئٹس کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ بڑا میدان مار لیا ہے۔ اپنے ورکروں‘ ہمدردوں‘ مخلص وفاداروں اورمحنتی ساتھیوں کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے کی اجا زت دینے والی قیا دت کو اب یہ کہتے ہوئے اجتناب کرنا چاہئے کہ اپوزیشن کا '' جلسہ کامیاب نہیں ہوا‘‘۔ انہیں نواز لیگ والی وہ غلطی دہرانے سے پرہیز کرنا چاہئے کہ لاہو رکے جلسہ عام میں اتنی کرسیاں خالی رہ گئی تھیں۔ تیس اکتوبر کے جلسہ لاہور کے بعد پرویز رشید نے کرسیوں کی جو بات کی تھی وہ ان کی زندگی کے ساتھ نتھی ہو کر رہ گئی اور لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کرسیوں کی گنتی کا حوالہ دیتے تھے۔ کھلے دل سے تسلیم کیجئے کہ متحدہ اپوزیشن نے گوجرانوالہ میں مجمع بھر دیا ہے۔ نہ جانے یہ کیسے وزرا ہیں جنہیں اپنے الفاظ پر عبور ہی نہیں‘ بھلا یہ بھی کہنے کی کوئی تُک تھی یا چیلنج کرنے کی کوئی منطق بنتی تھی کہ'' سٹیڈیم بھر کر دکھائو‘‘ ۔اگر کسی ملک کے وزیر اطلاعات کو ا س کی ایجنسیوں نے یہ خبر ہی نہیں دی کہ گوجرانوالہ کے جلسے کیلئے رحیم یار خان‘ سوات‘ ٹانک ‘ مردان اور پشاور سمیت بالائی سندھ اور ڈیرہ غازی خان تک سے لوگوں کے قافلے لاہور اور گوجرانوالہ کی جانب چل پڑے ہیں تو اسے اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ اگر وفاقی وزیر اطلاعات کو ملک کی سول ایجنسیاں یا پنجاب کی سپیشل برانچ ڈیٹا فراہم نہیں کر رہی تو پھر آپ کو حکومت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ آپ کھلے دل سے تسلیم کیجئے کہ اپوزیشن نے کامیاب جلسہ کر لیا ہے اور اس جلسہ میں عوام کا جوش و خروش جس طرح نظر آ رہا تھا اس سے اندازہ کرنے میں ذرا سی بھی غلطی نہیں ہو نی چاہئے کہ عوام اپنے لیڈروں اور مقررین کے ساتھ تھے۔ اب جو چاہے کہہ لیں کہ دیہاڑی یا بریانی پر لائے گئے تھے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپوزیشن کی ریلیوں اور جلسوں میں دکھائی دینے والے عوام کا محرک وہ غصہ ہے جو مہنگائی کی چکی میں بری طرح پسنے والے عوام میں پنپ رہا ہے اور انہوں نے اپوزیشن کے اس جلسے میں پہنچ کر یہ غصہ ظاہر کر دیا اور اپنی حاضری لگوا کر دکھا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ روٹی اگر سوال بن جائے‘ روٹی اگر محال ہو جائے تو پھر ہاتھ بڑھنے لگتے ہیں‘ ان ہاتھوں کو بڑھنے سے اگر نہ روکا گیا تو پھر دیکھ لیجئے گا کہ وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ 
اپوزیشن کی ریلیوں اور جلسوں میں دکھائی دینے والے عوام کا محرک وہ غصہ ہے جو مہنگائی کی چکی میں بری طرح پسنے والے عوام میں پنپ رہا ہے اور انہوں نے اپوزیشن کے اس جلسے میں پہنچ کر یہ غصہ ظاہر کر دیا اور اپنی حاضری سے دکھا دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں