16 اکتوبر سے اب تک میں سو نہیں سکا۔ اگر کچھ وقت کے لئے آنکھ لگی بھی تو فوراً ہی کانوں میں پڑنے والی آوازوں سے ہڑبڑا کر اٹھ جاتا ہوں۔ یہ آوازیں مختلف تابوتوں سے نکل کر سنائی دے رہی ہیں، ان تابوتوں میں میرے وطن کے سپاہیوں کی بھارتی فوج کی گولیوں سے چھلنی لاشیں سفید کفن میں لپیٹ کر رکھی ہوئی ہیں۔ یہ قطار در قطار رکھے تابوت 'انتقام، انتقام‘ کی آوازوں سے گونج رہے ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ آواز رزمک میں شہید کئے گئے کیپٹن عمرفاروق کی ہے تو کبھی لگتا ہے کہ یہ نائب صوبیدار ریاض احمد یا پھر نائب صوبیدار شکیل کی ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ اس تابوت سے لانس نائیک وسیم یا حوالدار تنویر پکار پکار کر پوچھ رہا ہے کہ ہمارا انتقام کب لو گے۔
شہدائے وطن کے یہ بائیس تابوت اگر امن کی گھسی پٹی نصیحتوں سے نظر انداز کر دیے گئے تو پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ بہت آگے تک جائے گا۔ یہ تابوت میرے ارمانوں کا خون بن کر جسم میں حرارت پیدا کرتے ہوئے مجھ سے کہہ رہے ہیں ''اگر دشمن سے اس مقدس لہو کا بدلہ نہ لیا تو نہ ہمیں چین آئے گا اور نہ ہی تمہیں‘‘۔ شہیدوں کے ایک ایک تابوت سے آنے والی آوازوں کا ایک ایک لفظ اچھی طرح سمجھ میں آ رہا ہے۔ ان آوازوں میں مجھ سے سوال کیا جاتا ہے ''کیا سب سو گئے ہیں؟ اُوڑی کیمپ اور پھر پلوامہ حملہ ہوتے ہی چند منٹ بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے دنیا بھر کو سنا دیا تھا کہ دہشت گردی کی اس واردات کے پیچھے پاکستان ہے‘ اس لئے ہم اس سے انتقام لیں گے (حالانکہ اس کے پاس نہ تو کوئی ثبوت تھا نہ ہی شواہد اور بعد میں یہ بات ثابت بھی ہو گئی کہ ان واقعات کے ڈانڈے بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے جا کر ملتے تھے) اور آج جب دنیا بھر کا میڈیا بلوچستان اور وزیرستان میں پاکستان کی سالمیت پر کئے گئے حملوں کی خبریں شہ سرخیوں سے دے رہا ہے تو پاکستان کے اربابِ اختیار یا ذمہ داران کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ بھی اپنے جوانوں کی شہادتوں کا انتقام لینے کا اعلان کریں؟‘‘ 18 ستمبر 2016ء کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے اُوڑی کیمپ پر چار حملہ آوروں نے 19 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چند لمحوں بعد ٹی وی پر آ کر اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو اس حملے کا ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ مدتوں یاد رکھے گا اور پھر انہوں نے بھارتی فوج کے تینوں سروسز چیفس کو بلا کر حکم دیا، اس کے ساتھ ہی پورا بھارت پاکستان کے خلاف پھنکارنا شروع ہو گیا اور پھر بھمبر کے مقام پر انڈین آرمی کے سپیشل دستے کی ایک نام نہاد ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ (جو آج تک ثابت نہیں ہو سکی) کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور کئی ماہ تک بھارت سمیت دنیا بھر میں اس کا چرچا کیا گیا اور یوں مشتعل بھارتی جذبات کو ٹھنڈا کیا گیا۔
پندرہ سے سترہ اکتوبر 2020ء تک‘ محض تین دنوں میں بلوچستان، کے پی اور وزیرستان میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے 22 جوان اور افسر شہید اور درجنوں زخمی کر دیے گئے۔ میں ابھی تک اس انتظار میں ہوں کہ کسی جانب سے آواز آئے کہ ان شہا دتوں کا انتقام لیا جائے گا لیکن کان یہ آواز سننے کو ترس گئے ہیں۔ اب میں اس سوچ میں غلطاں ہوں کہ ''میرے ان بائیس بیٹوں کی شہا دت کا انتقام کون لے گا؟‘‘ میرے وطن کی مٹی ابھی اتنی بھی شور زدہ نہیں ہوئی کہ وہ ایسے بیٹے جنم دینا بند کر دے جو آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان کا سبق فراموش کر بیٹھے ہوں۔ کیا اب وہ دور آ گیا ہے جس میں ہمیں سبق دیا جا رہا ہے کہ ''بزدلی ہزار نعمت ہے‘‘؟ بزدل اور بے حمیت میں صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ بزدل مار کھا کر رونا شروع کر دیتا ہے جبکہ بے حمیت مار کھانے کے بعد دوسرے تھپڑ کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ بھارتی میڈیا کی ہر چھوٹی بڑی دکان سے بلوچستان اور وزیرستان میں گرائی جانے والی پاکستانی بیٹوں کی لاشوں پر جو قہقہے اور تبصرے سننے کو مل رہے ہیں کیا ان کو دیکھ اور سن کر بھی ہمارے فیصلہ سازوں میں سے کسی کو ابھی تک ان کی زہریلی ہنسی کو ماتمی راگ میں بدلنے کا حوصلہ نہیں ہوا؟ کیا میرے ملک کے فیصلہ ساز ہر حملے کے بعد لکھنؤ کے بانکوں کی طرح یہی کہتے رہیں گے کہ اِب کے مار؟ پلوامہ کا واقعہ ہوا تو بھارت بھر نے آستینیں چڑھاتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ہم سرجیکل سٹرائیک کریں گے‘ سبق سکھائیں گے‘ یہ کریں گے‘ وہ کریں گے۔ اور پھر اس نے صرف کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہمت بھی کی، اگرچہ یہ علیحدہ بات ہے کہ طیارے تباہ ہونے اور ابھینندن کی گرفتاری کی صورت میں بدنامی اور سبکی کا ایک اور طوق اس کے گلے میں پڑ گیا۔
اس وقت بہت سے سفارت خانے ہمیں یہ سمجھانے کی کوششوں میں مصروف ہوں گے کہ جواب مت دیجیے گا کیونکہ اس طرح بات بڑھ سکتی ہے‘ جس سے خطے کا امن متاثر ہو گا۔ ہماری معاشی پوزیشن سے بھی ہمیں خوف زدہ کیا جا رہا ہو گا لیکن یاد رہے کہ جنگ کا میدان صرف ٹارگٹ اور وقت کو مدنظر رکھتا ہے۔ گرم محاذ پر بیٹھے ہوئے سپاہی کو اگر دو‘ چار کی گنتی جیسے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جائے تو پھر بسی ہوئی بستیاں اجڑ جایا کرتی ہیں۔ جب آپ جانتے ہیں کہ بلوچستان اور وزیرستان میں ہم پر کون حملہ آور ہوا‘ دہشت گردوں کے بھیس میں کون تھا تو پھر ٹارگٹ ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ ٹارگٹ تو ہمیں پہلے سے ہی نشاندہی کر کے رکھنے چاہئیں۔ صرف 2016ء میں پاکستان میں جگہ جگہ برپا کی جانے والی قیامت کے منا ظر یاد کیجئے جب 13 جنوری 2016ء کو کوئٹہ پولیس سنٹر پر کرائے گئے خود کش حملے میں پندرہ جوان شہید ہوئے، 20 جنوری کو باچا خان یونیورسٹی پر بھارتی ایجنٹوں کے حملے میں 20 شہید اور60 زخمی ہوئے، ژوب چھائونی میں 29 جنوری کے حملے میں سات جوان شہید ہوئے، 6 فروری کو کوئٹہ میں ایف سی کے قافلے پر حملے میں 23جوان شہید ہوئے، 7 مارچ کو چارسدہ میں 3 پولیس کانسٹیبل اور 7شہری شہید ہوئے، 16 مارچ کو پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس پر خود کش حملے کراتے ہوئے بھارت نے 17 کو شہید اور 57 کو شدید زخمی کیا، 27 مارچ کو بھارتی ایجنٹ نے گلشن اقبال لاہور میں خودکش حملے کے ذریعے 74 معصوم شہریوں کو شہید اور 338 کو زخمی کیا، مردان کے ایکسائز دفتر کے باہر 19 اپریل کو کئے گئے حملے میں ایک جوان شہید اور 17 زخمی ہوئے۔ اسی طرح 8 اگست 2016 ء کو کوئٹہ سول ہسپتال کے اندر کرائے گئے خود کش حملے میں 70 وکلا کو شہید کیا گیا، پھر 2 ستمبر کو مردان ضلع کچہری پر کئے گئے خود کش حملے میں 14 افراد شہید اور 52 زخمی ہوئے۔ 2016ء 24 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ سنٹر کوئٹہ پر حملہ کرتے ہوئے پانچ سو کے قریب ریکروٹس کو بھارتی دہشت گردوں نے یر غمال بنا لیا جس کے نتیجے میں 60 پولیس اہلکار شہید اور 190 زخمی ہوئے۔ 28 اکتوبر کو ایف سی کے لیفٹیننٹ کرنل سفیان اور ان کے ساتھیوں کو آواران میں گھات لگا کر شہید کیا گیا۔ ہمیں اپنے جوانوں کی شہادتوں کی صورت میں لگے ایک ایک زخم کی کسک تڑپا رہی ہے۔ جون 2017ء کو ایک ہی دن کوئٹہ میں پولیس بس، پارا چنار مارکیٹ اور کراچی میں دہشت گردی کے حملوں میں 96 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ بھارتی ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جب کوئٹہ میں پولیو ورکرز کے سنٹر پر بم دھماکا کرواتے ہوئے پولیس کے پندرہ جوانوں کو شکار کیا اور اسی دن جلال آباد میں پاکستان کے قونصل خانے پر حملہ کرایا۔اس سے قبل مناواں پولیس سنٹر، ایف آئی اے لاہور، لاہور ہائیکورٹ کے باہر پولیس کی نفری پرکئے گئے دہشت گرد حملے‘ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا... اب تابوت میں لیٹے جوان بزدلی نما مصلحت کے نہیں بلکہ ''کھڑاک‘‘ کے منتظر ہیں۔