"MABC" (space) message & send to 7575

بھارت کے وکیل؟

2018ء میں‘ اسلام آباد سے ملتان جانے والے ایک خصوصی طیارے کو وی وی آئی پی پروٹوکول دینے کیلئے سول ایوی ایشن کو خصوصی احکامات کس نے اور کیوں جاری کئے؟ اس طیارے میں کون سی اعلیٰ شخصیت سوار تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی تلاش بہت سے باتوں کو کھول کر بیان سکتی ہے۔ اس طیارے میں اسلام آباد سے ملتان کا سفر کرنے والا کوئی ملکی یا غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار نہیں تھا بلکہ ڈان لیکس فیم سیرل المیڈا تھا‘ وہی شخص‘ 2016ء میں جس کی ایک بے بنیاد خبر کی بنیاد پر اس کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس شخص کو عالمی عدالت میں کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کے حتمی دلائل سے پہلے ایک خاص انٹرویو دینے کیلئے ملتان بلایا گیا تھا‘ جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف مقیم تھے۔ اس کے ملتان پہنچنے کے اگلے ہی ایک انگریزی اخبار میں سابق وزیراعظم کا ایک بیان شائع ہوا جس کی بنیاد پر بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم تسلیم کر رہے ہیں کہ تاج محل اور اوبرائے ہوٹل سمیت ممبئی کے دیگر اہم ترین 8 مقامات پر حملے کرنے والے اور 150 سے زائد بھارتیوں کو ہلاک کرنے والے ''نان سٹیٹ ایکٹر‘‘ پاکستان سے گئے۔ نواز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی کو ممبئی حملوں سے جوڑ کر یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ انہیں ممبئی حملوں کی تحقیقات کرانے کی سزا کے طور پر نااہل کیا گیا۔
اب پی ڈی ایم کے جلسوں میں میاں نواز شریف اور گلگت بلتستان کے جلسوں میں ان کی صاحبزادی نے بھارتی الزامات دہراتے ہوئے کہا کہ واجپائی امن کا پیغام لے کر لاہور آئے لیکن بدلے میں کارگل کے ذریعے پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ کاش کہ ملکی اداروں کے خلاف زبان درازی سے پہلے وہ 3 مئی 1999ء کو بھارتی آرمی چیف جنرل وی پی ملک کے ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے انٹرویو پر ایک نظر ڈال لیتے جس میں انہوں نے کہا تھا ''پردھان منتری واجپائی کے حالیہ دورۂ لاہور سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑے گا‘‘۔ کیا اس انٹرویو کے بعد آنجہانی واجپائی کے منہ سے کبھی نکلا کہ جنرل وی پی ملک نے یہ انٹرویو دے کر پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے‘‘۔ نواز شریف نے اپنا وہی پرانا بیان دہرایا کہ جب کارگل میں مار پڑ نے لگی تو سب منتیں کرنے لگے کہ ہمیں بچائو جس پر بڑی مشکلوں سے کلنٹن کو راضی کیا کہ واپسی کا راستہ دلایا جائے۔
لوگ یقینا کارگل کا حقیقی سچ جاننا چاہیں گے اس کیلئے انہیں حقائق تک لے جانے کیلئے پاکستانی ذرائع ابلاغ نہیں بلکہ بھارت کے اس وقت کے جرنیلوں اور آرمی چیف کی کارگل پر لکھی گئی کتابوں کا سہارا لیں گے نہ کہ سنی سنائی باتوں کا۔ لوگ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ پاکستان اور بھارت کے نزدیک کارگل کی کیا اہمیت ہے۔ اس کیلئے مکمل تفصیل دینے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ کارگل پر سب سے پہلے آپریشن کا حکم کسی اور نے نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں دیا تھا جس کیلئے پہلے 'آپریشن وینس‘ اور پھر 'لِٹل وینس‘ آپریشن کیے گئے۔ (ان آپریشنز کی تفصیلات ان شاء اﷲ اگلے کسی کالم میں)۔ کارگل کی دونوں ملکوں کے نزدیک جغرافیائی اور جنگی اہمیت کا اندازہ کرنے کیلئے کارگل جنگ ختم ہونے کے بعد بھارت کی ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے یہ الفاظ پڑھئے ''بھارت کی پوزیشن سامنے رکھیں تو ہمارے لئے سری نگر کارگل لیہہ روڈ لداخ اور وادی کشمیر کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہے جس کے ایک سرے پر واقع تولو لانگ پوسٹ پر پاکستان آ چکا تھا‘‘۔ کارگل جنگ کے وقت انڈین آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے کارگل جنگ سے متعلق اپنی کتاب کے صفحہ 149 پر پاکستانی فوج کی پیش قدمی پر مبنی بھرپور کامیابی کا اعتراف اور اپنی شکست کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ''دراس سیکٹر میں دشمن (پاکستان) تولو لانگ چوٹی پر قابض ہو چکا تھا جس کا دراس سے فاصلہ صرف پانچ کلومیٹر ہے اور جو سری نگر کارگل لیہہ ہائی وے کو نشانہ بنا سکتی ہے‘‘۔ بھارت کی ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطا بق سری نگر کارگل لیہہ روڈ واحد زمینی رستہ ہے جو لداخ کو کشمیر سے ملاتا ہے‘ اس رپورٹ اور انڈین آرمی چیف جنرل وی پی ملک کی کتاب کو ایک ساتھ ملا کر پڑھئے جس میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے تولو لانگ پر قبضہ کر لیا تھا جہاں سے سری نگر کی مین ہائی وے صرف پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر تھی ۔ یہی اس وقت کی قیادت کا پلان تھا جس سے سیاچن کو جانے والی بھارت کی ہر قسم کی سپلائی لائن کٹ جانی تھی اور وہاں تعینات پندرہویں اور سولہویں کور کی سیاچن اور اس سے ملحقہ سینکڑوں میں تعینات پانچ ڈویژن فوج نے بھوک اور ایمونیشن کی کمی سے بنا کسی جنگ کے ہتھیار ڈال دینے تھے۔ 
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ کارگل آپریشن کیلئے تیاری نہیں تھی اور غلط موقع کا انتخاب کیا گیا۔ یہ موقع بھارت یا بھارت کے وکیلوں کی نظروں میں تو غلط ہو سکتا ہے لیکن آپ سب کے سامنے کارگل اور اس سے ملحقہ علا قوں کی اندرونی سیاسی صورت حال کا مکمل نقشہ پیش کرتا ہوں‘ جس کی کسی بھی ذرائع سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ کارگل ہمیشہ سے ایک پُرامن علاقہ رہا لیکن اچانک وہاں کی مسلم اور بدھ مت آبادیوں کے درمیان انتظامی اختیارات کیلئے سیاسی جنگ شدت اختیار کر گئی تو ساتھ ہی کارگل کی مقامی آبادی میں بھارت اور سری نگر کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف عدم اعتماد بھی بڑھنے لگا کیونکہ بھارت نے لداخ کی اکثریتی آبادی کے شدید مظاہروں اور احتجاج کے باوجود پورے لداخ کو خود مختاری دینے کے بجائے صرف لیہہ ضلع کو‘ جہاں بودھ اکثریت تھی‘ Territorial Autonomy کا سٹیٹس دیا تھا جس سے وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی پر مشتمل کارگل‘ لداخ سے کٹ گیا تھا۔
یہ جو نام نہاد لیڈر آج کل کارگل‘ کارگل کا راگ الاپتے رہتے ہیں‘ کیا یہ کارگل کی جغرافیائی حدود‘ اس کے ڈیموگراف‘ اس کے مسائل اور اس وقت کے سیاسی حالات سے آگاہ ہیں؟ کیا انہیں علم ہے کہ 1999ء کے آغاز ہی میں لداخ کی مسلم اور بودھ آبادیوں میں اختلافات اور باہمی چپقلش اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ یہ خطہ دو متحارب گروپوں کی صورت میں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑا تھا ؟ اس وقت کارگل‘ ترتوک اور بٹالک کی کل آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی جس میں اہلِ تشیع مسلمانوں کی تعداد 80 فیصد تھی۔ دراس‘ جو سکردو سے ملحق ہے‘ اس کی آبادی اس وقت 10 ہزار سے کچھ زائد تھی‘ جس میں 90 فیصد سنی اور دس فیصد تشیع مسلم تھے جبکہ لداخ میں بودھ مت کے پیروکار اکثریت میں تھے۔ کارگل اور دراس میں پیدا ہونے والی اس باہمی چپقلش کی شدت دیکھ کر انڈین وزارتِ داخلہ اور خفیہ ایجنسیوں نے واجپائی کو بریف کیا کہ یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ مزید دراز ہو گیا تو ممکن ہے کہ پاکستان بھی اس میں شریک ہو جائے‘ اس لئے 1962ء میں چین سے ہونے والی جنگ کے دوران اس حصے میں اچانک ابھرنے والی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس باہمی بدامنی کو روکا جائے ورنہ حالات ہمارے کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں جس پر فارن آفس اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ''دوستی بس کا دورۂ لاہور‘‘ رکھ لیا تاکہ حکومتِ پاکستان کو اس معاملے سے دور رہنے پر رضامند کیا جا سکے۔ دوسری جانب ہمارے ادارے 1962ء کی غلطی سدھارنے کا عزم لیے ہوئے تھے۔ انڈین آرمی کے میجر جنرل اشوک کرشنا اور بھارتی انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیز کے ڈائریکٹر پی آر چری اپنی کتاب Kargil: The Tables Turned کے صفحہ 17 پر لکھتے ہیں ''لداخ میں مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں میں بڑھنے والی تلخی اور خلیج کو شاید پاکستانی فوج نے نئی دہلی سے بہت پہلے مانیٹر کر لیا تھا‘‘۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں