پاکستان اور بھارت کی فضائی افواج کے درمیان‘ دونوں ملکوں کے جوہری طاقت بننے کے بعد کارگل کے معرکے سے قطع نظر‘ پہلا فضائی ٹاکرا 27 فروری2019 کو ہوا‘ جس میں خدائے بزرگ و برتر کی کرم نوازی اور مدد سے پاکستان کو بھرپور کامیابی نصیب ہوئی۔ فضائی جنگوں اور جھڑپوں کا تجربہ رکھنے والے دنیا بھر کے ماہرین کے لئے یہ ٹاکرا ایک بہت بڑی خبر بن کر سامنے آیا۔ اندازہ کیجئے کہ بھارت کے پاس ایئر فورس کے31 سکواڈرن ہیں اور رافیل طیارے ملنے کے بعد اب یہ بتیس ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس کل گیارہ سکواڈرن ہیں۔ اس کے با وجود ہمارے شاہینوں اور تمام گرائونڈ فورسز کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ وسائل کی تعداد نہیں‘ خدا کی رحمت و مدد اور اپنی استعدادِ کار کو مدنظر رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے جنگ یا معرکہ بدر کا میدان ہوتا ہے اور کانوں میں اﷲ کا یہ حکم گونجنے لگتا ہے کہ اگر تم ثابت قدم رہو گے تو ہمارا وعدہ ہے کہ ایک ایک مسلمان دس دس کفار پر بھاری ہو گا‘‘ اور اﷲ کے اسی فرمان پر یقین کامل رکھتے ہوئے پاکستان کی فورسز کا ہر سپاہی بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر رہتا ہے۔
27فروری 2019ء کو پاکستان کی ایئر فورس کے شاہینوں کے ہاتھوں دو مگ طیارے گرنے کے بعد بھارت کی فورسز میں پیدا ہونے والی افراتفری کا یہ عالم تھا کہ سری نگر ایئر بیس پر نصب سپائیڈر ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم نے بدحواسی میں اپنے ہی ایک MI17 ہیلی کاپٹر کو یہ سمجھ کر نشانہ بنایا کہ اس میں پاکستان نے بڈگام میں اتارنے کیلئے اپنی سپیشل فورسز کے لوگ بھیجے ہیں۔ اس بدحواسی اور خوف و دہشت نے انڈین ایئر فورس کے مزید چھ لوگ ہلاک کر دیے جس پر انڈین ایئر فورس کے ایئر چیف مارشل راکیش کمار سنگھ دہلی میں میڈیا کے کئے گئے سوالات پر صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ میزائل لگنے سے ہمارا ہی ہیلی کاپٹر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا، ''یہ ہماری بڑی غلطی ہے‘‘۔
بھارت کی بدحواسیوں اور اس کی فورسز کے دو مگ طیاروں کے زمین بوس ہونے کے بعد ان کے پست ترین مورال کو نریندر مودی نے اپنے بار بار کے خطابات کے ذریعے بڑھاوا دینے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بھارتی فورسز کے ذہنوں سے یہ بات نکل ہی نہیں رہی تھی کہ پاکستان کی ایئر فورس اس قدر مہارت رکھتی ہے کہ اس نے ایک پل میں دو مگ طیارے گرانے کے علاوہ بھارت کے انتہائی ماہر ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار بھی کر لیا۔ اس سے قبل ہائی ویلیو پوائنٹس کے ارد گرد پاکستان کے گرائے جانے والے میزائلوں اور بعد ازاں ایک ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر کو دو ٹکڑوں میں جلتا ہوا دیکھ کر ان کے بچا کھچا حوصلہ بھی جواب دے گیا۔
فروری 2019 کی اس فضائی جھڑپ کو ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا‘ اس دوران بھارتی ایئر فورس کے سینئر افسران اور اس کے چیف سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی اور میڈیا کی فوج‘ سب مل کر لگاتار کوششیں کرتے رہے کہ اپنے جوانوں اور جونیئر افسران کے دلوں سے پاکستان کا خوف نکال دیں اور اس سلسلے میں نریندر مودی کے اس بیان نے یہ کہتے ہوئے ان کے دلوں میں اور بھی ڈر پیدا کر دیا ''کاش ہمارے پاس رافیل طیارے آ جاتے تو پھر ہم انہیں سبق سکھا دیتے‘‘۔ لیکن اس خفت اور شرمندگی کا مداوا نہیں ہو سکا۔ یہ تو پاکستان میں شکست خوردہ بیانیے کے حاملین تھے‘ جنہوں نے اپنے ان بیانات سے بھارت کو نفسیاتی طور پر حوصلہ دیا کہ ''مودی کی دھمکی کے سامنے پاکستانی قیادت کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی تھیں اور ابھینندن کو پاکستان نے امن کا پیغام دینے کیلئے نہیں بلکہ بھارت کے اس الٹی میٹم کی وجہ سے رہا کیا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا تو بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا‘‘۔
گلگت بلتستان کے ووٹروں نے میاں نواز شریف اور ان کے حامیوں کے اس منفی بیانیے کو بری طرح مسترد کرتے ہوئے انہیں شکست فاش دے دی۔ اگر پیپلز پارٹی کو کچھ نشستوں پر کامیابی ملی ہے تو اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ بلاول بھٹو نے میاں نواز شریف کے بیانیے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ انہیں نواز شریف کی باتیں سن کر حیرانی ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن‘ جنہوں نے سردار ایاز صادق کے گھر ناشتے کی دعوت میاں نواز شریف کی درخواست پر قبول ہی اس لئے کی تھی تاکہ مولانا مسلم لیگ نواز کے بیانیے کی تائید کرتے ہوئے یہ پیغام دے دیں کہ پی ڈی ایم کے سربراہ بھی اس معاملے میں وہی رائے رکھتے ہیں‘ جو ایاز صادق نے اسمبلی فلور پر کہا۔ اس لئے شاید گلگت بلتستان کے انتخابات میں مولانا کی جماعت بھی بری طرح ناکام ہوئی اور گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے ان انتخابات کے ذریعے دنیا بھر کو یہ پیغام دیدیا ہے کہ انہیں مودی اور اس کے وکیلوں کا کوئی بیانیہ قابلِ قبول نہیں ہے۔
افسوس کہ دیامر بھاشا ڈیم کے ارد گرد کی آبادیوں میں نواز لیگ اپنی انتخابی مہم میں وہی باتیں کرتی رہی جو بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں کرتا ہے۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف بھارت نے دنیا کے ہر فورم پر یہ کہتے ہوئے رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کیں کہ یہ متنازع علاقہ ہے‘ لیکن کسی نے بھی اس کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ سمجھ نہیں آتی کہ گلگت بلتستان میں بجلی اور پانی کے منصوبے پر نون لیگ منفی بیانیے کی حامل کیوں بن رہی ہے؟ کیا پاکستانیوں کو نریندر مودی کا بھارت کے انتخابات سے پہلے کیا جانے والا وہ خطاب بھول گیا ہے جس میں اس نے کہا تھا ''مجھے پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان سے لوگوں کے خطوط اور فون موصول ہو رہے ہیں جس میں وہ ہمیں اپنی مدد کیلئے بلا رہے ہیں‘ وہ بے فکر ہو جائیں‘ میں ان کی مدد کے لئے آ رہا ہوں‘‘؟ کیا مودی کی یہ تقریر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ریکارڈ میں نہیں ہے؟ حالیہ انتخابات میں دیامر بھاشا ڈیم کے لوگوں کو قومی منصوبوں کے خلاف اکسا کر کس کا پیغام دیا جاتا رہا؟
دیوالی کے موقع پر جیسلمیر میں انڈین ایئر فورس کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پھر سے سردار ایاز صادق کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی شکست خوردہ ایئر فورس کے مورال کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ 27 فروری 2019ء کو بھارتی ایئر فورس کی شکست کو ایک دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس وقت بھی بھارت نے اپنی شکست کو جھوٹ کے اس پردے میں چھپانے کی کوششیں کی تھی کہ انڈین ایئر فورس نے بھی پاکستان کا ایک ایف سولہ طیارہ مار گرایا ہے لیکن جب دنیا بھر کے دفاعی اور سفارتی ماہرین کے ساتھ میڈیا بھی اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود اس کی تصدیق کرنے میں ناکام رہا تو بھارت عالمی میڈیا میں بغلیں جھانکنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکا، دوسری جانب پاکستان نے نہ صرف مگ طیارے کو گرانے کا دعویٰ اس کا ملبہ دنیا کو دکھا کر سچا کر دکھایا بلکہ ایک بھارتی پائلٹ کو بھی اپنا قیدی بنایا۔ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا‘ بھارت کو دنیا بھر میں ہونے والی اپنی سبکی کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ایک خطاب کے ذریعے دھونے کا بہانہ مل گیا۔ وہ بھارت جسے اپنی شکست اور جگ ہنسائی پر کہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی‘ اس نے اپنے میڈیا کے ذریعے اس بیانیے کا اس قدر غل مچادیا کہ پاکستان کو بیک فٹ لا کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں اس بیانیے پر جو الیکشن میں بری طرح پٹ گئے‘ بھارت ان کے بیانیے کے ساتھ کس طرح کامیابی کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ دنیا بھر کے میڈیا کی رپورٹنگ، ابھینندن کا پاکستانی حراست میں دیا گیا بیان اور بھارتی طیارے کا ملبہ ایسے ناقابلِ تردید حقائق ہیں جو کبھی بھی اس شرمندگی کا داغ بھارتی چہرے سے دھلنے نہیں دیں گے، لیکن یہاں موجود منفی بیانیہ رکھنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح کے بیانات اور قومی منصوبوں کو متنازع بنا کر وہ کس کی زبان بول رہے ہیں۔