سپریم کورٹ سے اپنی نااہلی سے چند ماہ پہلے میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم ‘خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمان کے انتخابی حلقوں کو ان کے حق میں ہموار کرنے کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان‘ لکی مروت اورکوہاٹ پہنچے تو اپنے جلسوں میں سامنے بیٹھے عوام کو بلند آواز سے کبھی پانچ ارب‘ کبھی سات ارب کا نعرہ بلند کر دیتے۔ لکی مروت میں انہوں نے چھ ارب دینے کا اعلان کیا۔ اُس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون سا مال و دولت ہے جو قربان کیا جا رہا ہے ‘گوگا دانشور نے بتایا تو بات سمجھ میں آئی کہ یہ وہ 60 ملین ڈالر ہیں جو ''پیٹ پھاڑ کر اور لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹ کر‘‘ سوئس بینکوں سے نکالے جانے تھے۔ 60 ملین ڈالر واپس لانے کی تقریریں اور سوئس بینک کی داستانیں 25 برسوں سے نواز لیگ کی پریس کانفرنسوں ‘ جلسوں اور ریلیوں میں ان کے لہراتے ہوئے مکوں اور گرج دار آوازوں میں سنتے آ رہے تھے‘ ان کی پکار‘ جو آج بھی فضائوں اور میڈیا کی صوتی لہروں میں محفوظ و مدفون ہے ‘کراچی میں آصف علی زرداری کے درِ دولت پر بھی سنائی تو دیتی ہو گی۔
انقلابات زمانہ دیکھئے کہ جاتی امرا کے شریف برادران تو شاید ان سوئس اکائونٹس سے اپنا حصہ وصول کر کے خاموش ہیں لیکن اس ملک و قوم کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ انہیں ان سوئس اکائونٹس کی جھلک دکھانے کیلئے ان کے لاکرز تک لے جایا جائے ۔ اس کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے 94ء سے96ء تک کے دوسرے دورِ حکومت میں لندن لئے چلتے ہیں جہاں شریف خاندان کے دو اہم ترین افراد سوئٹزرلینڈ میں کچھ گمنام اکائونٹس کا کھوج لگانے کیلئے مختلف لوگوں سے رابطے کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی تین‘ چار ماہ کی بھاگ دوڑ سے تھک ہار کر نا امید ہو جاتے ‘لیکن قدرت نے اس طرح ان کی مدد کی کہ لندن کی ایک سرد شام انہیں کسی گمنام شخصیت کی جانب سے پیغام ملا کہ آپ اگر اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہو سکے تو مجھ سے میری شرائط پر رابطہ کیجئے ‘آپ کو ایک انتہائی اہم پاکستانی شخصیت کے سوئس اکائونٹس سے متعلق دستاویزات مہیا کی جا سکتی ہیں۔ یہ پیغام ملتے ہی شریف فیملی کے یہ دو نوں فرد اس شخص سے ملاقات کیلئے طے شدہ مقام پر پہنچے۔ ان کے میزبان نے انہیں چند بینک اکائونٹس اور کچھ کمپنیوں سے متعلق ایسی دستاویزات دکھائیں جن پر پاکستان کی ایک اہم سیا سی شخصیت کے دستخط تھے۔ یہ کاغذات دیکھتے ہوئے اسحاق ڈار جوشِ مسرت سے اچھل پڑے ۔اپنی مکمل تسلی کرنے کے بعد یہ دونوں اہم ترین شخصیات نے مطلوبہ شخص سے ابتدائی معاہدہ کرنے کے بعد ان دستاویزات پر قانونی مشاورت کرنے کیلئے کچھ وقت مانگا لیکن وہاں سے اٹھنے سے پہلے انہوں نے کراچی کی ایک اہم قانونی شخصیت کو ( جو بعد میں ان کی حکومت میں وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہی) لندن بلاکر ان دستاویزات کے بغور مطالعہ اور معلومات فراہم کرنے والے شخص سے مزید تسلی کرنے کیلئے آپس میں تفصیلی گفتگو کرائی ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف ہونے کے تین ماہ بعد فروری1997 کے انتخابات میں میاں نواز شریف دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم بنا دیئے گئے تو اس شخص سے حاصل کی جانے والی دستاویزات کی اپنے بہت ہی قریبی اور با اعتماد ماہرین سے ایک مرتبہ پھر تفصیلی چھان بین کرائی گئی۔ جب ان دستاویزات کے مکمل اور سو فیصد درست ہونے کا یقین ہو گیا تو فیصلہ ہوا کہ اس سکینڈل کو بھر پور طریقے سے اگلے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیا جائے ‘لیکن ہوا یہ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور اپوزیشن لیڈر نواز حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی سنگین الزامات کا خط لکھ دیا جس پر نواز شریف اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے چیئر مین احتساب سیل سیف الرحمان کے ذریعے آصف علی زرداری کے خلاف سوئس اکائونٹس کی فوری کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں‘ جس پر سیف الرحمان‘ آئی بی اور وزارتِ اطلاعات فوراًحرکت میں آ گئے اور بے نظیر حکومت کے کئی اعلیٰ افسران سمیت ایک درجن سینئر بیوروکریٹس پر سخت ذہنی اور جسمانی تشدد کی انتہا کرتے ہوئے ان کے اعترافی بیانات پر دستخط کرا کر ان کی باقاعدہ ویڈیوز بھی تیار کرلیں۔ اور اب اتفاق دیکھئے کہ یہی لوگ آج نیب اور اینٹی کرپشن کے خلاف شور مچا رہے ہیں۔ سوئس اکائونٹس کی دستاویزات دینے والے شخص نے27 مئی 1995ء کو جاری کئے گئے سوئس فارمA جسے Declaration of identity of the beneficial ownerکہا جاتا ہے‘ کی مستند کاپی بھی میاں شہباز شریف کو فراہم کر دی‘ جس پر کئے گئے دستخط صاف اور واضح تھے ۔جب یہ سب کچھ مکمل ہو گیا تو وزیر قانون خالد انور اور سیف الرحمان نے15 جولائی1997ء کو مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف سوئس اکائونٹس کے تمام شواہدمیڈیا کے سامنے پیش کر دیئے ۔ تمام اخبارات اور پی ٹی وی اس کا گواہ ہے۔میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش گئی ان دستاویزات میں بومر فنانس کی 25اپریل1991ء کی وہ دستاویز بھی دکھائی گئی جس کے مطا بق یہ معاہدہ سوئٹزر لینڈ میں ہوا ۔
سوئٹزر لینڈ میں بے نظیر بھٹواور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو ابتدا میں عدالت کی جانب سے ان کے تمام اکائونٹس کو90 روز کیلئے منجمد کر دیا گیا جس کی مدت بعد میں بڑھا دی گئی جس کی تصدیق اس وقت کے پاکستان میں تعینات سوئٹزر لینڈ کے سفیرMarc-Andre Salamin نے بھی کر دی۔نواز شریف نے آصف علی زرداری کے جن بینک اکائونٹس کی تفصیلات مہیا کیں ان میں ایک معروف بین الاقوامی بینک کا فارم اے جو بینک اکائونٹ کھولنے کیلئے ضروری ہوتا ہے پیش کیا گیا ۔اس فارم میں ان کے بینک اکائونٹ کا نمبر بھی درج تھا‘جس پر زرداری صاحب کانام اور ایڈریس بلاول ہائوس کراچی درج تھا اور فارم میں انہیں ہی اپنا یہ بینک اکائونٹ آپریٹ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ۔میاں نواز شریف کی محترمہ بے نظیر اور آصف علی زرداری کے خلاف پیش کی جانے والی ان دستاویزات میں سے ایک سٹی بینک نیویارک کی تھی جس کے مطابق Capriconکے کھاتے میں چارمئی1994ء کو 10 204326.27 ڈالر منتقل کرائے گئے۔حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے اندردائر کئے گئے اس مقدمے کے ایک حصے کی بنا پر پاکستان کی عدالتوں نے اپریل1999ء میں محترمہ اور آصف زرداری کو86 لاکھ ڈالر جرمانہ اور پانچ سال قیدکا حکم سنایا گیا۔ دوسری طرف چار سال بعد سوئس انویسٹی گیشن عدالت کے مجسٹریٹ نے اگست2003 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو پچاس ہزار ڈالر جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے فیصلے کے دوسرے پیرے میں حکم دیا کہ 11 ملین ڈالر کی یہ رقم حکومت پاکستان کو دی جائے۔ حالات نے یکدم نیا پلٹا کھایا اور 2007ء میں امریکی حکم پر بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کا NRO کرا دیا گیاتو اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے مشرف حکومت کی ہدایات پر سوئس حکومت کو خط لکھا کہ حکومت پاکستان یہ مقدمہ واپس لے رہی ہے اس پر مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے ‘جس پر سوئس اٹارنیZappelli نے 26اگست2008ء کو حکومت پاکستان کو خط میں لکھا کہ آپ کی طرف سے یہ مقدمہ واپس لینے کی بنا پر60ملین ڈالر کی رقم محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو واپس کی جا رہی ہے‘ لیکن اس رقم میں سے39 ملین سوئس فرانک بطور کمیشن بحق سوئس حکومت منہا کئے جا رہے ہیں۔ وہ رقم کہاں گئی ؟ یہ اپنے کسی اگلے مضمون میں انشااﷲ !