مولانا فضل الرحمن، مریم صفدر اور بلاول بھٹو زرداری سمیت اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نون کی دوسرے اور تیسرے درجے دن رات شور مچا رہی ہے کہ ایک کورونا وہ ہے جو لوگوں کو ہسپتال بھیج رہا ہے لیکن ایک کورونا اور ہے جو اس سے بھی زیا دہ خطرناک ہے اور یہ کورونا ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ایک طرح سے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کیونکہ یہ 'کورونا‘ منی لانڈرنگ اور کک بیکس والوں کی بدمعاملگیوں کا پتا چلا کر انہیں کسی ہسپتال یا گھر میں قرنطینہ نہیں بلکہ سیدھا جیل کی کوٹھڑی میں بھجوا دیتا ہے۔ اس کورونا کو کرپشن اور بددیانتی سے اس قدر نفرت ہے کہ نہ تو کسی پاپڑ والے اور نہ ہی کسی فالودہ بیچنے والے غریب کے ہاتھوں بڑے بڑے لوگوں کے اکائونٹس بھرنے کو اچھا سمجھتا ہے نہ ہی اسے کسی دفتر کے کلرک، چپڑاسی یا سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے کی عمر بھر کی محنت کی کمائی کسی دوسرے کے کھاتے میں جمع کرانا پسند ہے۔ کراچی کی بڑی سرکار نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کسی نے میرے اکائونٹ میں چند ارب روپے جمع کرا بھی دیے ہیں تو یہ جرم کیسے ہو گیا؟
بھلا یہ بھی کوئی جرم ہے؟ اب جس کا جہاں جی چاہے‘ اپنے پیسے جمع کراتا پھرے‘ اگر کوئی اپنے ملازمین یا اہلکاروں کو تحفے کے طور پر یا ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہر ایک کو دس بارہ ایکڑ زمین فی کس دینا چاہتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے ؟اوراگر کوئی بھی صوبائی حکمران‘ جو اپنے دورِ حکومت میں سرکاری اہلکاروں کے لیے وقف زمین سے اپنے ساتھیوں اور وفا داروں یا اپنے دور‘ نزدیک کے رشتہ داروں کیلئے بھی حصہ مانگ لے تو بتایئے اس میں کیا برائی ہے؟ اب اگر وہ صوبائی حکمران‘ چاہے وہ سابق ہی کیوں نہ ہو‘ یہ زمین کسی کے بھائی کے سیکرٹری کو یا اس سیکرٹری کے کسی سسرالی رشتہ دار یا چچا‘ ماموں کے بیٹے کے نام کر دے تو پھر کیا ہوا‘ کیا یہ جرم ہے؟ اب اگر کوئی شخص کورونا بن کر اس سابق وزیر اعلیٰ کو‘جو کسی بہت بڑی سیا سی شخصیت کے نمائندۂ خصوصی کے طور پر کام کرتا ہو‘ کو قانون کے شکنجے میں لے آئے اور اس سے پوچھ گچھ شروع کر دے کہ آپ نے اپنے جماعتی لیڈر کے بھائی یا ان کے سیکرٹری یا چچا بھتیجے کے کھاتے میں یہ زمین کس قانون کے تحت الاٹ کی تو یہ کوئی اچھی اور مناسب بات تو نہیں ہے نا۔ انصاف سے کام لیجئے کہ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا نوٹس لینے والے کو کورونا سے بھی زیا دہ خطرناک نہ کہیں تو کیا کہیں؟
پی ایم ڈی والے ایسے ہی نہیں کہہ رہے کہ خد اکا واسطہ ہے‘ اٹھو باہر نکلو اور اس عالمی وبا کورونا سے مت ڈرو جس کی ویکسین امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ملکوں میں تیار ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے انگلینڈ سمیت کئی یورپی ملکوں میں دوبارہ لاک ڈائون نافذ کر دیا گیا ہے اور تمام سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں‘ ہم سب کو مل کراس ''کورونا‘‘ سے نجات دلانی ہے جوہماری گزشتہ تیس برسوں کی محنت رائیگاں کرنا چاہتا ہے۔ ہماری دن رات محنت سے کی جانے والی کمائی‘ جسے ہم نے لندن دبئی اور امریکا سمیت دنیا کے پانچ براعظموں میں فلیٹ، فارم ہائوسز، پلازوں اور آئر لینڈز کی صورت میں محفوظ رکھا ہوا ہے‘ جرم کہنے والا‘ کس قانون کے تحت یہ تمام دولت ہم سے چھیننے کے درپے ہے۔
بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ پنجاب سندھ اور کے پی کے ہاریوں ، کسی سکول اور کالج کے طالب علم کے شناختی کارڈ پر آپریٹ کرائے گئے بینک اکائونٹس سے اگر دو‘ چار ارب روپے ادھر ادھر ہو گئے ہیں تو اس پر شور مچا دیا جائے؟ ہم نے تو صرف ٹی ٹی پستول کا نام سن رکھا تھا‘ لیکن اب نہ جانے کہاں سے یہ حکومت‘ جو ہمیں کورونا سے بھی زیادہ بری لگتی ہے‘ ہم پر مقدمات بنائے جا رہی ہے کہ تم ٹی ٹی استعمال کرتے رہے ہو؟ بھئی اگر ٹی ٹی کا استعمال ہم نے یا ہمارے کسی ساتھی اور دوست نے کر ہی لیا ہے تو اس میں کسی کا کیا نقصان ہوا ہے؟ کیا اس سے ملک میں کوئی بیماری پھیل گئی ہے یا کسی علاقے کی سڑک اور پل ٹوٹ گیا ہے؟ ہم پر مقدمات کی بھر مار کرتے ہوئے جیل میں بند کیا جا رہا ہے کہ ہم ٹی ٹی کیوں کرتے رہے ہیں‘ اگر کسی نے خوش ہو کر یا ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر ایسی کوئی حرکت کر ہی دی ہے تو اس میں برا کیا ہے؟ اگر دس پندرہ افراد بیس‘ پچیس ارب کی ٹی ٹی ہمیں کروا چکے ہیں اور ان رقوم سے ہم گھر‘ فلیٹ وغیرہ خرید چکے ہیں تو یہ غیرقانونی کیسے ہو گیا؟ ان کرانے والوں کے بجائے ہماری گرفتار یاں کیوں؟
اب مذکورہ بالا حقائق کو سامنے رکھ کر قارئین ہی یہ فیصلہ کریں کہ اپوزیشن بالخصوص پی ڈی ایم کے رہنمائوں کا یہ کہنا درست ہے کہ نہیں کہ ان کے لئے تو حکومت کورونا سے بھی زیا دہ خطرناک ہے؟
کراچی، سوات اور گلگت بلتستان میں‘ مریم صفدر صاحبہ نے اپنی تقاریر میں کچھ غلط تو نہیں کہا کہ انہیں وزیراعظم کا نام لینا تو کجا‘ سننا بھی پسند نہیں لیکن یہ چونکہ ہمارے لئے کورونا سے زیا دہ خطرناک بیماری بن چکے ہیں‘ اس لئے انتہائی مجبوری میں ان کا نام لینا پڑتا ہے ۔ ویسے ان لوگوں کی کیا بات کریں جو پوچھتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور مریم صفدرصاحبہ ایک برس تک ایون فیلڈ اور جاتی امرا میں پُراسرار قسم کی خاموشی کیوں اختیار کئے رہے؟ کیا اس میں کوئی راز کی بات تھی؟
اگر تھی بھی تو وہ راز کی بات اس وقت ظاہر ہو گئی جب وزیراعظم نے ''قانون سے پیچھے نہ ہٹنے کے فیصلے کا اعلان کر دیا‘‘ اور جیسے ہی لندن سے کراچی تک عمران خان کاپیغام پہنچا کہ جس نے بھی اس ملک اور اس کے غریب عوام کا مال و متاع لوٹا ہے‘ وہ اسے واپس کرنا ہی پڑے گا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں‘توسب کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘ انہوں نے ایک دوسرے کو فون کرتے ہوئے کہا '' سائیں یہ تو ہمارے لئے کورونا سے بھی زیا دہ خطرناک بن چکا ہے اگر اس سے ہم نے جلد چھٹکارا حاصل نہ کیا تو ہمیں برباد کر دے گا۔ ایک برس تک لندن اور رائیونڈ میں خاموش بیٹھے رہنے والے‘ جنہوں نے ایک ہلکی سی آواز بھی نہیں نکالی‘ جناب وزیراعظم کا ''انکار‘‘ سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے اور پھر 'محنت سے کمائی‘ اور بیرونِ ملک منتقل کی گئی دولت کومحفوظ بنانے کے لیے میدان میں اتر آئے۔
اس کے چند دنوں بعد پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آ گیا جس نے گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں اپنے بھر پور جلسوں میں چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ اٹھو خد اکے واسطے ہمیں اس ''کورونا‘‘ سے بچائو جو ہمارے سب اثاثے ہم سے چھین لے گا۔ منی لانڈرنگ کے نئے قوانین سے دہشت زدہ اپوزیشن لیڈران کا وقفے وقفے سے واویلا سننے سے تعلق رکھتا ہے کہ'' ویکسین والے کورونا سے تو ہم سب ماسک استعمال کر کے بچ جائیں گے لیکن اینٹی کرپشن اور احتسابی قوانین کی صورت میں '' ہماری لوٹی ہوئی دولت چھیننے والی موجودہ حکومت کے کورونا سے جو ایک ایک کرتے ہوئے اپنے وائرس ہمارے ہاتھوں کے گرد کستا جا رہا ہے‘ ہمیں فوری طور پر بچایا جائے‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کورونا میں جب حکومت نے تمام سماجی سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے‘ اپوزیشن جلسے کرنے پر مصر ہے‘ تاکہ عوام کو مسلسل انگیج رکھ کر حکومت پر دبائو بڑھایا جا سکے اور بھلے اس کی قیمت جلسوں میں شرکت کرنے والے معصوم عوام کے خون کی صورت میں ہی کیوں نہ چکاناپڑے۔