برسلز کے ادارے ای یو ڈس انفو لیب نے جب سے بھارت کے جعلی‘ بوگس اور شرمناک 750 سے زائد میڈیا نیٹ ورکس اور اقوام متحدہ کی کالعدم قرار دی جانے والی دس این جی اوز کو پھر سے زندہ کرنے کا انکشاف کیا ہے‘ دنیا بھر میں این جی اوز کو شک کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت جعلی میڈیا نیٹ ورکس اور این جی اوز کے ذریعے کبھی انسانی حقوق اور کبھی لاپتا افراد کے نام سے پاکستان کے نام اور وقار کو جس طرح مسلسل پندرہ برسوں سے مجروح کیا جا رہا تھا‘ اس نے بھارت کے جھوٹ کے غباروں کو پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کچھ پاکستان مخالفین کی میاں نواز شریف سے بھی طویل ملاقاتیں ہوئیں جس کے بعد پاکستانی اداروں اور ان کی سینئر قیادت کو بدنام کرنے کیلئے ایک بھرپور مہم کا آغاز ہو گیا جسے مسلم لیگ نواز کا بیانیہ کہا جا سکتا ہے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ بھارت کے ان سات سو پچاس جعلی میڈیا نیٹ ورکس کے تیار کیے گئے اکثر ٹویٹس اور پوسٹیں سب سے زیادہ مسلم لیگی میڈیا سیل سے ہی شیئر کیے گئے جن کی آڑ میں ریاست کے دفاع کے ضامن اداروں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کیا جاتا رہا۔ ان پوسٹوں اور جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس میں زیادہ تر بھارتی فوج کو معصوم ثابت کیا جاتا۔ دس کالعدم قرار دی گئی این جی اوز اور سینکڑوں میڈیا نیٹ ورکس کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کا دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور جعلی اور جھوٹی خبروں کی آڑ میں اپنے اندر کا زہر پھیلانا کسی طور پر کسی بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے قابل معافی نہیں۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا اقوام متحدہ اس پر بھارت کے خلاف کوئی ایکشن لے گی؟ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سے بھی ایک ٹولہ بھارت کے ان جعلی سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور این جی اوز ان کا دانستہ یا غیر دانستہ ساتھ دیتا چلا آ رہا ہے جس کا سدباب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطا بق اس وقت پاکستان میں روزانہ فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 30 ملین، وٹس ایپ 51 ملین اور ٹویٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد دس ملین سے زائد ہے۔ اس سے بہ آسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دشمن اپنے مقاصد کیلئے 90 ملین سے زائد ذہنوں کو تسخیر کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے اداروں سے متعلق نفرت انگیز مواد پوسٹ کراتے ہوئے کس طرح نفرت ابھارتا رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ حکومت‘ اپنے، عوام کے اور ملک کے تحفظ و حفاظت کی خاطر Citizen Protection رولز 2020ء کا فوری نفاذ کرے۔ بھارت کا اتنا بڑا فراڈ پکڑے جانے کے بعد ایکشن کے سلسلے میں مزید تاخیر کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔
2017ء میں یورپی یونین کے اہم ترین ملک جرمنی نے نیٹ ورک انفورسمنٹ ایکٹ کے نام سے سوشل میڈیا قوانین اور گائیڈ لائین متعارف کراتے ہوئے ایک واضح لائن کھینچ دی تھی جس میں نفرت انگیز اور اشتعال انگیز مواد کے فروغ کو روک دیا گیا تھا۔ اس رہنما اصول کے باوجود اگر سوشل میڈیا نیٹ ورک نفرت انگیز اور اشتعال انگیز مواد کو سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ نہیں کرتے تو جرمن حکومت ان پر پانچ کروڑ یورو کا جرمانہ عائد کر سکتی ہے۔ اس وقت دنیا کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ سوشل میڈیا پر ہونے والی نازیبا گفتگو، فیک نیوز اور اس جیسے دوسرے مواد سے نمٹنے پر غور کر رہا ہے۔ چین میں اس سلسلے میں انتہائی سخت قسم کے اصول رائج ہیں اور سائبر پولیس کے لاکھوں اہلکار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس قسم کا کوئی طریقہ کار ہوتا تو بھارت کے سات سو پچاس بوگس نیٹ ورکس اور دس این جی اوز کے مسلسل پندرہ برس تک پاکستان کے خلاف جعلی پروپیگنڈا کا کوئی اثر ہو پاتا؟ جعلی میڈیا نیٹ ورکس کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر کی سول سوسائٹی اور میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا؟
روس، جرمنی، ترکی، چین کے بعد سنگاپور میں آن لائن مواد کے حوالے سے سخت قوانین نافذ ہیں۔ پاکستان کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے مطابق حکومت پاکستان ایک قومی رابطہ کار کا دفتر بھی قائم کرے گی جو سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطے میں حکومت کی نمائندگی کرے گا۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سابقہ حکومت کی اندھادھند حمایت کرنے والے ایک انگریزی اخبار نے سوشل میڈیا قوانین پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے '' ڈراکونین قوانین‘‘ کہنا شروع کر دیا ہے لیکن یہ بتاتے ہوئے نجانے کیوں ان لوگوں کو شرم آتی ہے کہ عمران خان کی حکومت سے پہلے‘ 2016ء میں نواز شریف دور میں پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ منظور کیا گیا تھا۔ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسے مواد کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے جو قومی سلامتی کے منا فی ہو یا جس میں عدلیہ، فوج اور دوسرے قومی اداروں کی تضحیک کی گئی ہو لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ اس قانون کو منجمد کر دیا گیا اور بروئے کار نہیں لایا گیا۔ پاکستان‘ اس کے اہم اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے بھارت کے سینکڑوں بوگس نیٹ ورکس نے مختلف سیلز بنا رکھے ہیں۔ مختلف لسانی و سیاسی جماعتوں، نام نہاد این جی اوز، جعلی میڈیا تنظیموں، اور سوشل میڈیا کے جتھوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بدتمیزی مسلسل برپا کیے رکھا گیا۔ ایسی ایسی کہانیاں پوسٹ کی گئیں کہ انسانی دماغ سن ہو کر رہ جائے۔ مضحکہ خیزی دیکھئے کہ یہ سوشل میڈیا گروپس اور جتھے‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب ہمارے بدترین دشمن کے ہتھیار ہیں‘ اپنے ذاتی اور سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ان کا ساتھ دیتے ہوئے سوشل میڈیا قوانین کی مخالفت میں اندھے ہوئے جاتے ہیں۔
2020ء کے قوانین کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیاں آپریٹ کرنے والی ہر سوشل میڈیا کمپنی کو پاکستان کے اندر اپنا دفتر قائم کرنا ہو گا جس کا مستقل ایڈریس ہو گا۔ اگر قومی ادارے کسی بھی آن لائن مواد کو پاکستان کے مخالف پائیں گے تو سوشل میڈیا کمپنی پر لازم ہو گا کہ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس مواد کو حذف کرے اور اگر یہ فرقہ واریت، صوبائیت یا مذہبی اور قومی مفاد کیلئے نہایت سنگین ہو گا تو اس کیلئے چھ گھنٹے کی مہلت دی جائے گی لیکن اس کیلئے صرف نیشنل کوآرڈینیٹر ہی تعین کر سکے گا کہ یہ پوسٹ یا تحریر اور پیغام ہنگامی ایکشن سے متعلق ہے یا نہیں۔ تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس امر کا سختی سے پابند کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، لسانی اور قومی سکیورٹی کی حساسیت کا پاس کریں۔ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستانی شہریوں کا‘ چاہے وہ بیرونِ ملک ہی مقیم کیوں نہ ہوں‘ کوئی بھی ایسا مواد حذف یا اکائونٹ معطل کریں گی جو Fake News پھیلا رہا ہو یا اس میں کسی کی ہتک کی گئی ہو یا پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی، لسانی اور سلامتی کی حساسیت کے خلاف کوئی بات کی گئی ہو۔ پاکستان کے ''Prevention of electronic crimes act'' کی شق 29 کے تحت بنائی گئی کسی بھی تفتیشی اتھارٹی کو سوشل میڈیا کمپنی تمام قسم کی معلومات ایک واضح فارمیٹ میں فراہم کرے گی۔ نیز سوشل میڈیا کمپنیوں‘ جن میں فیس بک، گوگل، یوٹیوب، ڈیلی موشن، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ، پنٹرسٹ، لنکڈ ان، ریڈٹ اور ٹک ٹاک شامل ہیں‘ کے لیے لازم ہو گا کہ وہ کسی بھی لائیو سٹریمنگ کے دوران کوئی ایسا مواد نشر نہ ہونے دیں جس سے پاکستان کے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اس ہائبرڈ اور سائبر وار کے دور میں مذکورہ قوانین ہماری اولین ضرورت ہیں، ویسے بھی یورپ سمیت امریکا اور دنیا بھر میں جب سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جا رہا ہے تو ہم کیونکر پیچھے رہیں؟