"MABC" (space) message & send to 7575

سوشل میڈیا اور ملکی سالمیت

ذہنوں پر پڑے ہوئے وہ سب پردے جن کی اوٹ میں بد قسمتی سے ہمارے ملک کی کچھ این جی اوز اور چند میڈیاپرسنزنے اپنے ہی ملک کے اداروں پر الزامات کی بارش کر رکھی تھی‘EU DisinfoLab نے پاکستانی قوم کی آنکھوں اور ذہنوں سے وہ پردے ہٹا دیئے ہیں۔اس ادارے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بھارت پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات ‘ گمراہ کن خبروں اور پروپیگنڈا میٹریل کو دنیا بھر میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے پھیلاتا ہے۔مگرہمارے کچھ لوگ جانے یا انجانے میں اس ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ بن جاتے ہیں اوراس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے ہی ملک کے دفاعی اداروں کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں زہر بھرنے کیلئے سوشل میڈیا پر کہیں فیس بک اور واٹس ایپ ‘ کہیں ٹوئٹر تو کہیں انسٹا گرام اور ٹک ٹاک جیسے ذرائع سے نت نئے اور نفرت انگریز الزامات ‘ شر انگیز فقرے ‘مکالمے ‘واقعات اور جھوٹ کے انبار لئے ہوئے قصے کہانیاں گھڑے جا رہے ہیں جو کسی بھی معاشرے اور ریاست کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتے ۔اگر ان کی ہلکی سی جھلک دیکھنی ہو تو سوشل میڈیا کی وہ پوسٹیں دیکھنے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے محرک یا پوسٹیں لکھنے والے ہاتھ اور ذہن کن کیلئے کام کر رہے ہیں۔کیا ایسے لوگوں کی ہمدردیاں اس ملک و قوم کے مفاد میں ہو سکتی ہیں؟ یقینااس کا جواب نفی میں ہو گا۔چند روز ہوئے اوکاڑہ میں باہر سے آئی ہوئی کچھ تنظیموں نے ملٹری فارم پر چڑھائی کی کوشش کی تو سوشل میڈیا پر ملکی دفاعی اداروں کے خلاف طوفان اٹھائے جانے لگے اور الزامات کی بوچھاڑ کی جانے لگی۔ ان پوسٹوں کے خالق وہی لوگ ہیں جو کل تک نقیب اﷲ محسود کے بہیمانہ قتل پر ریلیاں نکال رہے تھے اور اب اسی قاتل کے سرپرستوں کے جلسوں میں انہی کے گیت گا رہے ہیں۔ کل تک یہ کہا کرتے تھے کہ وزیرستان میں طالبان دندناتے پھرتے ہیں ‘خیبر پختونخوامیں دہشت گردوں کا راج ہے اور جب ‘خیبر پختونخوا سمیت وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے آپریشن ضربِ عضب اور پھر رد الفساد کا آغاز کیا گیا تو یہ اپنے مؤقف پر یک لخت پینترا بدلتے ہوئے شور و غو غا کرنا شروع ہو گئے کہ مذکورہ علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔بلوچستان میں جب دہشت گرد فوج‘ پولیس ‘ ایف سی اور سول شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تو ان کی خوشیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں‘ یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جشن مناتے ہیں اور جونہی سکیورٹی فورسز ان دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے آگے بڑھتی ہیں تو انہیںمسنگ پرسن یادآنے لگتے ہیں۔
قومی اداروں کے خلاف توہین آمیزاور نفرت پر مبنی جس قسم کی زبان بعض لوگ اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسوں میں استعمال کر رہے ہیں اسی قسم کے الفاظ اور فقرے ان کی سوشل میڈیا ٹیم بھی پھیلا رہی ہے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے اس وقت کسی بھی بہت ہی متحرک سمجھے جانے والے سوشل میڈیا سیل سے کئی درجے آگے نکل چکی ہے ۔اس گروپ کی پوسٹس اور ٹوئٹس دیکھتے اور سنتے ہوئے لگتا ہی نہیں کہ یہ فقرے کسی پاکستانی کی سوچ پر مبنی ہو سکتے ہیں‘ بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی غیر ملکی انتہا پسند ہ ذہن کام کر رہے ہیں جو پاکستان ا ور اس کی اداروں کے لیے ہر گز احترام نہیں رکھتے۔ 
اس سوشل میڈیا سیل کی ان ہرزہ سرائیوں پر غور کریں تو الفاظ اور زبان وہی ہیں جو میاں نواز شریف پی ڈی ایم کے جلسوں میں اپنی تقاریر میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ صرف مقام اوروقت کا فرق ہے ۔کیا یہ الفاظ یہ الزامات اپنے ہی ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کسی شخص کو زیب دیتے ہیں؟ میاں نواز شریف کو شاہد خاقان عبا سی پر فیض آباد دھرناختم کرنے کیلئے ان کی یا ان کی صاحبزادی مریم صفدر کی اجا زت کے بغیر معاہدے کی منظوری دینے کا غصہ کیوں تھا ؟ آپ کے سوشل میڈیا سیل اور باہر بیٹھے حسین حقانی ٹولے نے اخبارات میں شور مچا دیا کہ فوج کو دھرنا دینے والوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے کیوں شامل کیا گیا۔ دفاعی اداروں پر غصہ نکالنے کی بجائے آپ اپنے اس و قت کے منظورِ نظر وزیر داخلہ سے پوچھ لیتے‘ جو کہہ رہے تھے کہ اگر یہ معاہدہ نہ کیا جاتا تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جانی تھی ۔ آپ کے اُس وقت کے صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲنے کہا تھا کہ دھرنے کیلئے فوج نے نہیں بلکہ میاں شہباز شریف نے کردار ادا کیا ۔ کاش یہ سچائی قومی اداروں کے خلاف ہمیشہ لٹھ لئے کھڑے رہنے والے میڈیا ہائوسز کو بھی سنائی دیتی کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک معزز جج نے اپنے عدالتی یمارکس میں افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ فوج نے ملک کے گلی کوچوں میں ہونے والی قتل و غارت اور تباہی کو روکنے میں قابلِ فخر کر دار ادا کیا۔اسے میاں نواز شریف صاحب کی ریاستی اداروں سے دشمنی کہیں یا ریاست سے کوئی غصہ کہہ لیں کہ اس وقت سے ان کواس بات کا غصہ ہے کہ دھرنے والوں کو فیض آباد سے کیوں اٹھایا گیا ۔ان کا یہ دکھ کم کیوں نہیں ہو رہا کہ دھرنے والوں نے قومی دفاعی اداروں کا احترام کیا۔ فیض آباد کادھرنا کیوں ہوااور اس کے نتیجے میں پولیس اور دھرنے والے سات افراد کا قتل‘ سب کچھ آپ کا ہی تو کیا دھرا تھا خود ہی سوچئے کہ ایک دن اچانک آپ کو سوجھتی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کیلئے کاغذاتِ نامزدگی میں ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کر دیا جائے اور پھر چپکے سے نہ جانے کیوں آپ یہ ترمیم بل میں شامل کرا دیتے ہیں ۔آپ دفاعی اداروں کو طعنے دیتے ہیں کہ وہ آئین توڑتے ہیں ‘کبھی آپ بھی غور کریں کہ اپنے مطلب او ر فائدے کیلئے جمہوریت کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اس آئین میں اب تک کس قسم کے گندے اور بد بو دار چیتھڑوں سے پیوندلگا تے رہے ہیں۔
دھرنے کو جنم دینے والی اس آئینی ترمیم کی پس پردہ سازش کے کردار کس کے سب سے زیادہ قریبی ا ور پیارے ہیں؟ان میں سے ایک عمران خان کے خلاف آپ کو ریفرنس تیار کر کے دینے والے کرامت نیا زی تھے جنہوں نے آپ کو خوش خبری دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے عمران خان کو اس پنجرے میں بند کر دیا ہے‘ اب اس پر قفل لگانا آپ کا کام ہے اور اسے خوش ہو کر من پسند گریڈوں اور بیش بہا مراعات سے نوازدیا گیا۔میاں نواز شریف کے قانونی ایڈوائزر بیرسٹر اور سیکرٹری قانون جن کی ملی بھگت نے ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں بدلتے ہوئے ملک میں امن عامہ کی صورت حال کو اس حالت تک پہنچا نے کی کوشش کی جس سے کاروبار حیات ٹھپ ہو کر رہ گیا اور جان بوجھ کر کی جانے والی اس غلطی کی سزا پورے ملک نے بھگتی‘ جس کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے کے علا وہ بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی علیحدہ سے ہوئی۔ سازش کوئی اور کرے زخم کوئی اور لگائے لیکن آپ اور سری واستو گروپ کا سوشل میڈیا دھرنے کو دفاعی اداروں کے کھاتے میں ڈال دیں ۔ ایسا نہیں چلے گا۔
کیا اس قسم کے سوشل میڈیا اور ان کے محرکین کے خلاف وہی قوانین لاگو ہونا وقت کی ضرورت نہیں جیسے آج کل آسٹریلیا جیسے ممالک میں نافذ ہیں۔سوشل میڈیا کو آئین کے آرٹیکل 19کے مطابق ریگولیٹ کرنا چاہیے۔سوشل میڈیا کو ریگو لیٹ کرنا خالصتاً عوامی اور ملکی مفاد میں ہے‘ مگر ہمارے ملک میں جب بھی سوشل میڈیا کی ریگولیشن کی بات آتی ہے تو بعض مخصوص مقاصد رکھنے والے گروہ متحرک ہو جاتے ہیں ‘ حالانکہ انہوں نے کبھی امریکا اور برطانیہ کے سوشل میڈیا ریگولیشن پر تنقید نہیں کی حالانکہ وہ زیادہ سخت ہیں‘ لیکن پاکستان کے لیے یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ضوابط ہی نہ ہوں۔پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو فی الفور نافذ کرنے کی ضرورت ہے اورسوشل میڈیا پر بدزبانی‘ بدتہذیبی ‘ ڈس انفارمیشن اورپروپیگنڈاکے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور سوشل میڈیا کو ملکی قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں