انگریزی فوج میں ایک خچر رجمنٹ ہوا کرتی تھی جس کے ذمے دشوار گزار پہاڑی چوٹیوں‘ دروں اور راستوں پر چلتے ہوئے خوراک اور اسلحے کی سپلائی جیسا اہم کام ہوتا تھا۔ کسی خچر کی اگر پہاڑ پر چڑھتے یا اترتے وقت گرنے سے ٹانگ ٹوٹ جاتی تو اسے ناکارہ قرار دے کر فوری گولی مارکر ٹھکانے لگا دیا جاتا اور اس کی فائل میں Expired کا لفظ لکھ دیا جاتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہی سلوک اب بھارت کی خفیہ ایجنسی را اپنے بوگس سوشل میڈیا نیٹ ورکس، این جی اوز اور انسانی حقوق کے نام سے بنائی گئی تنظیموں کی قلعی کھلنے کے بعد انہیں آپریٹ کرنے والوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں جس کا پہلا شکار ساجد حسین بلوچ تھا اور بعد ازاں کریمہ بلوچ کو نشانہ بنایا گیا۔
دنیا کی خطرناک سیکرٹ ا یجنسیوں کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ بیرونِ ملک اپنے ایجنٹوں کی شناخت سامنے آ نے پر انہیں سمجھتے بوجھتے ہوئے فوری طور پر یا تو غائب کرا دیتی ہیں یا اگلے جہان میں پہنچا دیتی ہیں اور اس مقصد کے لیے عمومی طور پر حادثاتی موت مثلاً ایکسیڈنٹ، بم دھماکے یا کبھی ہارٹ اٹیک کا باعث بننے والے انجکشن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اسی طریقہ کار کی شکار بھارتی را کے ہاتھوں کھیلنے والی کالعدم تنظیموں کی ایک نام نہاد ترجمان بنی جو کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کئے ہوئے تھی۔ چند روز قبل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے نواح سے عسکریت پسندوں کی اس ترجمان کی لاش ملنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو اس پر سب سے پہلے کینیڈا کی مشہور شخصیت مائیکل بورس کا ٹویٹ سامنے آیا جس میں اس نے ابتدا ہی اس فقرے سے کی کہ کریمہ بلوچ کا پُراسرار قتل اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ انڈین خفیہ ایجنسی را اب اپنے ایجنٹوں کا خاتمہ کر رہی ہے۔ مائیکل بورس کے الفاظ تھے:
RAW is killing their assets after EUDisInfoReport.
کریمہ بلوچ کی پُراسرار موت پر بھارتی ایجنسیوں اور اندرونِ ملک اپوزیشن کی بعض جماعتوں کے سوشل میڈیا سیلز نے دھوکا دہی کا جو ڈرامہ رچایا اس کی تفصیلات انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ سب سے پہلے‘ بنا سوچے سمجھے اس کے قتل کا الزام ریاست پر لگایا گیا۔ اس حوالے سے 17651 ٹویٹس اور ری ٹویٹس کیے گئے۔ اگر بیشتر ٹویٹس کا ریکارڈ چیک کریں تو یہ سارا ڈرامہ اس طرح بے نقاب ہوتا ہے کہ بائیس دسمبر کو ایک جعلی اکائونٹ سے دو بج کر انتالیس منٹ پر کئے گئے ٹویٹ کو 3483 اکائونٹس نے فوری طور پر ری ٹویٹ کیا جن میں سے 2278 اکائونٹس کا تعلق بیرونِ ملک سے تھا۔ اگر ان اکائونٹس کی لوکیشن چیک کی جائے تو علم ہوتا ہے کہ بیشتر اکائونٹس افغانستان، بھارت، جرمنی، امریکا، سویڈن اور کینیڈا سے ایکٹو تھے۔ ان میں سے 306 اکائونٹس ایسے تھے جن کے فالورز صفر تھے، 841 اکائونٹس کے فالورز ایک سے پانچ کے درمیان تھے جبکہ 737 اکائونٹس ایسے تھے جو چند ہفتے قبل ہی بنائے گئے تھے۔ یعنی ان سب کا مقصد محض ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چلانا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا تھا۔ بیشتر ٹویٹس محض ایک دوسرے کی نقل تھے۔ data analytic کے مطابق اس نوع کا ٹرینڈ پی ٹی ایم اور کالعدم تنظیموں کی سوشل میڈیا ٹیمیں ہی بناتی ہیں جن کی معاونت میں را کا ایک ادارہ SAATH بھرپور طریقے سے فعال ہے۔ اس قسم کے ٹرینڈز پر حقیقی عوامی ردعمل بمشکل 4.07فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔ اس سے کوئی چھ ماہ قبل سویڈن میں ساجد بلوچ کا جب پُراسرار قتل ہوا تھا تو بھارتی میڈیا اور پاکستان میں ان کے ایجنٹوں اور دوستوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ساجد کو سچ بولنے کی سزا دی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا کی مودی فوج نے ساجد بلوچ کے قتل کا ملبہ پاکستان کے اداروں پر ڈالنے کے حوالے سے ایک منظم مہم چلائی لیکن یہ بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب سویڈش حکام نے ساجد کی موت کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی۔ ساجد مقامی انگریزی اخبارات میں کام کرنے والا مشہور جرنلسٹ تھا جو پاکستان، افغانستان، یو اے ای، عمان اور یوگنڈا میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد 2017ء میں سویڈن پہنچ گیا جہاں اس نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد بڑے تسلسل سے پاکستان کے خلاف بے سروپا اور بھارت کی فراہم کردہ پروپیگنڈا خبریں جاری کرنا شروع کر دیں۔ اس دوران اس کی بیوی اور دو بچے پاکستان میں بخیر و عافیت رہ رہے تھے۔ انہیں کبھی کسی نے ہراساں کیا اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ساجد کی بیوی کے مطابق‘ اس نے وعدہ کیا تھا کہ بچوں کے آنے کے بعد وہ اپنا موجودہ کام ختم کر دے گا۔ سویڈن، جنیوا اور سوئٹزر لینڈ میں کالعدم بلوچ تنظیموں کے بعض بڑے سرداروں کے ساتھ رہ کر اس نے دیکھ لیا ہے کہ انہیں بلوچ عوام کی کوئی پروا نہیں اور یہاں وہ رئیسوں کے بگڑے بچوں کی طرح زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اپنے مقاصد کیلئے وہ میڈیا سے منسلک بعض افراد کو استعمال کر رہے تھے۔ ساجد کا اپنی بیوی سے کہنا تھا کہ وہ جن لوگوں کے ایجنڈے پر عمل کر رہا تھا‘ ان کی حقیقت کھلنے کے بعد اسے بے حد افسوس ہوا ہے اور اب اسے اس سارے قضیے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔سویڈش حکام نے موت کا پتا لگانے کیلئے تفتیش کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ 39 سالہ ساجد بلوچ‘ جو 2 مارچ سے لاپتا تھا‘ کی لاش ڈیڑھ ماہ بعد 23 اپریل کو دریائے Firis کے شمال میں واقع اس علاقے سے ملی تھی‘ جہاں وہ بطورِ پروفیسر جز وقتی ملازمت کرتا تھا۔ سویڈش پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سمیت دوسرے اداروں نے موت کی تفتیش کی تو انہیں یہ کہنا پڑا کہ ''ساجد نے یا تو خودکشی کی ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آیا ہے‘‘۔ اس کی موت سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جنہیں نجانے کیوں نظر انداز کیا گیا‘ اطلاعات کے مطابق اسے آخری بار دو مارچ کی صبح گیارہ بجے دیکھا گیا، اگلے دن جب اس کے فون سے جواب ملنا بند ہو گیا تو اس کے کسی دوست نے پولیس کو اس کی گمشدگی کی اطلاع کر دی اور پانچ مارچ کو سویڈش پولیس نے اس کا نام مسنگ پرسنز میں شامل کر لیا۔ ساجد کی بیوی کے مطابق: جس دن ساجد غائب ہوا تو اس دن صبح ہماری بات ہوئی تھی جس میں وہ اپنے لئے نیا اپارٹمنٹ لینے کی بات کر رہا تھا۔ ساجد کی بیوی کی باتیں سننے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ساجد نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق اپنے کسی ساتھی کو اطلاع دی تھی، یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کی ایک ماہ تک پُراسرار گمشدگی کے دوران کسی نے اس کی روپوشی پر سوال اٹھانا یا کسی سے پوچھنا ہی گوارا نہ کیا ہو؟ وہ کون شخص تھا‘ جس نے سویڈش پولیس کو ساجد کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی‘ یہ بھی ایک معمہ ہے، پولیس کے پاس اس شخص کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ساجد کی لاش ملنے کے بعد جب اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو سویڈش پولیس افسران اور ڈاکٹرز نے باقاعدہ بیان جاری کیا کہ اسے کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ کورونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی سویڈش حکومت نے اس کی موت کی فائل بند کر دی۔اسی طرح کریمہ بلوچ‘ جو مبینہ طور پر بھارت کے سری واستو گروپ سے منسلک تھی اور جس کا نام ای یو ڈس انفو لیب میں 36ویں نمبر پر شامل تھا‘ کا معاملہ ہے۔ اس کی موت سے متعلق بھی 24 دسمبر کو کینیڈین پولیس نے واضح کیا تھا کہ اس کو کوئی مشتبہ چیز نہیں مل سکی اور اس کیس کوقتل کے کیس کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ یہ وہی خاتون ہے جو ایک وڈیو میں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو اپنا بھائی قرار دیتے ہوئے کہتی ہے: میری بھگوان سے پراتھنا ہے کہ وہ میرے بھائی مودی کی حفاظت کرے۔
اسی طرح کا معاملہ گزشتہ سال فروری میں ہالینڈ میں مقیم ایک متنازع بلاگر کا ہے۔ جس نے خبریں اڑا دیں کہ اسے پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے، اس خبر کوایک مخصوص ملکی چینل نے خوب نمک مرچ لگا کر اچھالا لیکن جب روٹر ڈیم‘ جہاں سے متعلق یہ کہانی گھڑی گئی‘ کے ایک ایک انچ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی گئی تو اس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔یہ سارا کھیل بنیادی طور پر سری واستو کے پروپیگنڈا سیل سے جا کر ملتا ہے جس کا پردہ ای یو ڈس انفو لیب کی انڈین کرونیکل رپورٹ میں فاش کر دیا گیا ہے۔