ورکشاپ بندکر نے کے بعد معمول کے مطابق ترکھان نے اپنے گھر کی راہ لی، اس کے جانے کے بعد رات گئے کہیں سے گھومتا، رینگتا کوبرا ناگ نہ جانے کہاں سے برآمد ہوا اور ورکشاپ کے دروازوں کے نیچے سے اندر جاگھسا۔ اِدھر اُدھر رینگتا ہوا اندھیرے میں وہ ترکھان کے نصب کئے گئے مشینی آرے کے قریب سے گزرا تو آرے کے لمبے اور تیز دندے اس کی کھال میں چبھ گئے جن سے کوبرا تھوڑا زخمی ہو گیا۔ غصے سے بھرا کوبرا تیزی سے پلٹا اور اپنی پوری طاقت سے آرے کو (دشمن سمجھتے ہوئے) کاٹنے کی کوشش کی۔ آرے کے بڑے اور تیز نوکیلے دندوں سے اس کا منہ بھی زخمی ہو گیا، اس سے کوبرا کو پہلے سے بھی زیادہ غصہ آیا اور وہ غصے سے پاگل سا ہو گیا۔ اس نے اپنے پورے جسم کو آرے کے گرد لپیٹتے ہوئے پوری شدت سے کسنا شروع کر دیا تاکہ اس کے دشمن کا سانس بند ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ہڈیاں تک بھی کڑا کڑا کر ٹوٹ جائیں۔ اپنے اس انتقام اور غصے کی شدت میں کیے گئے حملے میں جیسے جیسے سانپ آرے کو کسنے کی کوشش کرتا، اس کے تیز اور نوکیلے دندوں سے لگنے والے زخموں سے اسے مزید تکلیف پہنچتی، اس پر وہ غصے سے اور بھی بے قابو ہو جاتا اور آرے کو کسنے لگتا تاکہ اس کا یہ انجانا دشمن دم گھٹنے سے ختم ہو جائے۔اگلی صبح ترکھان جونہی اپنی ورکشاپ میں داخل ہوا تو ایک عجیب و غریب منظر اس کا منتظر تھا، بڑے سیاہ ناگ کو دیکھتے ہی وہ یک دم چیخیں مارتا ہوا باہر کو دوڑا، اس کی زبان سے الفاظ نکل ہی نہیں رہے تھے۔ ملحقہ دکانوں‘ ورکشاپوں کے لوگ بھاگ کر اس کی طرف آئے‘ حیرانی کے عالم میں اس نے ورکشاپ کی طرف اشارہ کیا، اندر کا منظر دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔ ان لوگوں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا، اس پر راہ چلتے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے، سب نے ورکشاپ کے اندر جا کر سانپ کو دیکھا تو ایک لمحے کیلئے سب گھبرا گئے، بہت سے لوگ جو خالی ہاتھ تھے‘ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ ورکشاپ کا اندرونی منظر کچھ عجیب سا تھا۔ ایک بہت بڑا کالے رنگ کا کوبرا آرے کے گرد مردہ حالت میں پڑا تھا اور ورکشاپ کی مشین کے ارد گرد اس کے گوشت کے لوتھڑے اور نیچے خون ہی خون تھا۔ یہ خون کوبرا ناگ کے تکبر، طیش اور غصے کی صورت میں زمین پر بکھر کر اپنی بے چارگی اور بد ترین موت کی گواہی دے رہا تھا۔
آج جب ملکی سیاست میں متحرک جماعتوں کے لیڈران، ان کے سربراہان سمیت ذرائع ابلاغ پر ان کے نمائندوں اور پی ڈی ایم کے جلسوں میں وزیراعظم اور ان سے متعلقین کے حوالے سے جس قسم کی گفتگو سننے کو مل رہی ہے‘ یہ ان کے اس غصے کا اظہار ہے جو ان سے اقتدار اور طاقت کا نشہ چھن جانے کے بعدان کا غیظ و غضب بن کر ابل رہا ہے۔ وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ان کا یہ غصہ نہ تو ان کے حق میں بہتر ہے اور نہ ہی اس سے ملک کیلئے کوئی بہتری برآمد ہو سکتی ہے۔ اس سے حکومت یا وزیراعظم کو تو کچھ نہیں ہو گا لیکن وہ اس ملک اور اس کی وحدت کو ضرور نقصان پہنچا نے کا باعث بن جائیں گے۔
ہماری روزمرہ زندگی میں نجانے کتنے گھرانے اسی غصے اور نفرت سے اجڑ کر رہ جاتے ہیں اور یہ غصہ اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس نے مجھے گھور کر کیوں دیکھا، اس نے مجھے گالی کیوں دی۔ گالی سن کر طیش سے بے قابو ہونے والا جب سامنے والے کو زخمی یا قتل کر دیتا ہے تو اپنے اس جرم کی پاداش میں قانون کے ہتھے چڑھنے کے بعد تھانے کے معمولی اہلکاروں اور سپاہیوں کی زبان سے صبح و شام سر جھکائے‘ نہ جانے کتنی گالیاں سنتا ہے۔ پھر حوالات سے جب وہ جو ڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس کے گھر کی خواتین جب ملاقات کیلئے جیل یا بخشی خانے پہنچتی ہیں تو اس سے ملنے کے مراحل طے کرتے ہوئے ان کو لاتعداد ایسی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسانیت شرما جاتی ہے۔ جیل کے اندر اس کا اپنا جو حشر ہوتا ہے‘ وہ ایک الگ کہانی ہے۔ مقدمے کی سنگینی کی نوعیت جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے تو وہ شخص جس نے گالی، عزت اور دوسری نام نہاد وجوہات پر قتل کیا ہوتا ہے‘ معافی مانگنے کیلئے انہی لوگوں میں اپنی ماں، بہنوں، بیٹیوں کو بھیجتا ہے‘ جو بسا اوقات اپنے سر کی چادر اتار کر مقتول کے لواحقین کے قدموں میں رکھ دیتی ہیں۔
روزمرہ زندگی میں معمولی معمولی باتوں پر غصے میں آکر ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن ہم نے اپنا بہت زیادہ نقصان کر لیا ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ اچھی زندگی کیلئے کچھ چیزوں کو، کچھ لوگوں کو، کچھ حوادث اور کچھ باتوں کو نظر انداز کر د یا کرے اور ضر وری نہیں کہ ہر عمل کا ردعمل ظاہر کیا جائے۔ طیش، غصے، نفرت کی حالت میں ظاہر کیے گئے ہمارے کسی ردعمل کی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی ایسا نقصان اٹھانا پڑے جس کی تلافی ممکن نہ رہے۔ گھر میں آئے دوستوں کیلئے محلے کی ایک دکان سے ایک لڑکا بوتلیں لانے کیلئے بھیجا تو دکاندار نے یہ کہہ کر اس لڑکے کو بوتلیں دینے سے انکار کر دیا کہ پہلے سابقہ ادائیگی کریں‘ اس کے بعد ہی آپ کو اگلا سامان دیا جائے گا۔ اس لڑکے نے یہ بات آ کر گھر میں بتا دی، اب صورتحال یہ تھی کہ اس شخص کے دوستوں کے سامنے اس کا کالج اور یونیورسٹی دور سے ہی بہت دبدبہ اور رعب تھا کیونکہ اس کا تعلق اس وقت کی ایک مشہور طلبہ تنظیم سے تھا۔ اسے اس بات پر سخت غصہ آیا اور دوستوں کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑا، اس لڑکے پر بھی اسے غصہ تھا جس نے دوستوں کے سامنے شرمندہ کرا دیا، مگر دکاندار‘ اس نے ادھار نہ دے کر خوب بے عزتی کی تھی۔ اس نے اپنے سے متعلق سب دوستوں کو یہی بتا رکھا تھا کہ اس کا علا قے میں خاصا رعب اور دبدبہ ہے۔ اب بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس کے دوستوں‘ جو اُس وقت لاہور میں چلنے والی ٹرانسپورٹ سے باقاعدہ بھتہ وصول کیا کرتے تھے‘ نے جیسے ہی سنا کہ دکاندار نے بوتلیں یہ کہتے ہوئے دینے سے انکار کر دیا ہے کہ پہلے بقایا پیسے دو‘ طنزیہ انداز میں اسے دیکھ کر ہنسنے لگے۔ وہ اچھی فیملی سے تعلق رکھنے والا نوجوان سخت طیش اور غصے کی حالت میں اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ہمراہ گھر سے نکلا اور چند قدم دور دکاندار کے پاس پہنچ کر اس پر گرجنے برسنے لگا، اس پر وہ دکاندار بھی غصے میں آ گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے زخمیوں کی چیخوں اور فائرنگ کی گونج دار آوازوں نے بازار میں بھگدڑ مچا دی۔ وہاں موجود خواتین اور بچوں کی چیخوں کی آوازوں نے پورے محلے کو‘ جو گرمی کی شدت سے بچنے کیلئے کمروں میں دبک کر بیٹھا ہوا تھا‘ بیدار کر کے رکھ دیا۔
زخمی دکانداروں کو فوری طور پر ایک قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن اس شخص ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑگیا دوسری جانب زخمی دوست کئی روز ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد تندرست ہو کر گھر کو لوٹا۔ اس کے بعد ایک طویل دستان ہے‘ جس کیلئے ایک نہیں کئی کالم درکار ہیں۔ مقدمہ چلتا رہا‘ سیشن جج سے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک‘ کچہریاں‘ پیشیاں‘ وکیل‘ پیسہ... لیکن دو افراد کو عمر قید اور ایک کو سزائے موت کے فیصلے کو کم یا تبدیل نہ کرایا جا سکا۔ اس وقت کے بہترین وکلائے صفائی پیش ہوئے لیکن یہ سب کسی کام نہ آ سکا۔ دو بھائی عمر قید کاٹتے رہے جبکہ ایک رعنا جوان پھانسی گھاٹ کا شکار ہو گیا۔ مقدمے کیلئے صلح نامے اور بعد ازاں صدرِ مملکت سے رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد سزائے موت کی تاریخ میں گزشتہ حکومت تک سے وقت لیا جاتا رہا کہ شاید ورثا معاف کر دیں، اس قدر معافیاں مانگی گئیں کہ پتھر بھی پسیج جاتے لیکن ورثا اپنی جگہ اڑے رہے اور چند سیکنڈ کا غصہ ایک پورے خاندان کو اجاڑ گیا ۔