بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ جب لکھنؤ میں نیو کمانڈ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ بھارتی فوج نے لداخ میں چین کے دانت کھٹے کر کے بھارتی جنتا کا دنیا بھر میں سر فخر سے بلند کر دیا ہے تو اس تقریب میں موجود میڈیا کا بڑا حصہ اپنی ہنسی روکنے میں نا کام رہا، اس بات کا منتظمین کی جانب سے سخت نوٹس بھی لیا گیا جس پر میڈیا کے کچھ لوگوں نے احتجاج کیا کہ آپ ہماری ہنسی پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کو تعداد کے حساب سے تو دنیا کی پانچویں بڑی فوج کہا جا سکتا ہے لیکن چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے ہاتھا پائی میں اپنے کرنل سمیت بیس جوان گنوانے والی فوج کو دنیا کی پانچویں ''بہترین‘‘ فوج کہنا مذاق نہیں تو کیا ہے؟
1962 میں جب نیفا میں بھارت کی چین کے ہاتھوں پٹائی ہوئی تو اس وقت بھی بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری نے ایسی ایسی فلمیں اور جنگی نغمے فلموں میں شامل کئے جنہیں دیکھ اور سن کر لگتا تھا کہ انڈین فوج نے مار مار کر چین کا بھرکس نکال دیا ہے لیکن جب بین الاقوامی میڈیا نے بھارت دعووں کی قلعی کھولنا شروع کی کہ اس کے لیے منہ چھپانا مشکل ہو گیا۔ اگست 2020ء کیلداخ جھڑپ کے بعد چین نے جن چوکیوں پر قبضہ کیا‘ وہ تاحال اس کے فوجیوں کے زیر قبضہ ہیں لیکن بھارت کا وزیر دفاع اپنی فوج اور قوم کو بیچ چوراہے میں شرمندہ کرنے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہا ہے کہ بھارتی فوج نے چینیوں کے دانت کھٹے کر دیے۔دو روز قبل بھی جب بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان اور چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو کمزور نہ سمجھا جائے اور یہ کہ مشرقی لداخ میں چینی فوج کے ساتھ مقابلے کے بعد دنیا کو پتا چل گیا کہ کوئی بھارت کے خلاف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تو انٹرنیشنل میڈیا کے افراد ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ اس بیان کا مقصد کیا ہے؟ کیا بھارتی وزیر دفاع اس قدر لاعلم شخص ہے کہ اسے نہیں پتا لداخ میں کیا ہوا تھا؟ اس سے ایک روز قبل ہی بھارتی میڈیا نے اروناچل پردیش کے ایک علاقے کی سیٹلائٹ تصاویر نشر کی تھیں جن میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ایل اے سی سے چار کلومیٹر اندر بھارتی علاقے میں چین نہ صرف ایک بستی بسا چکا ہے بلکہ سڑکیں تعمیر کر کے ایک ملٹری پوسٹ بھی قائم کر چکا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ اب چین اور پاکستان اپنی سٹریٹیجک پیش قدمی کیلئے بہت بڑی پیشرفت کرنے جا رہے ہیں جس نے مودی ٹولے کو تپتے توے پر بٹھا دیا ہے اور وہ لداخ میں اپنی فوجی قوت میں اضافے سے ایک نئے سفارتی ہتھیار کو استعمال کرنے کا سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ بھارت اپنے طور پر تبت کی جلا وطن حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے چین سے لداخ کا بدلہ چکانا چاہتا ہے لیکن شاید بھارتی یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے بعد نجانے بھارت کی کتنی جلا وطن حکومتیں چین اور پاکستان تسلیم کرنے لگیں گے۔ گزشتہ برس بھارتی ریاست منی پور نے نہ صرف بھارت سے علیحدگی اور آزادی کا اعلان کیا تھا بلکہ اپنا نیا جھنڈا بھی جاری کیا تھا۔
اب مودی ٹولے کو گرم توے پر بٹھانے کیلئے چین اور پاکستان گلگت بلتستان میں استور سے 800 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے تک 33کلومیٹر طویل ایک نئی شاہراہ تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ ضلع استور جو سکردو کے مغرب میں ہے اور لداخ سے زیادہ دور نہیں‘ میں نئی شاہراہ سے چین کے لیے لداخ میں بھارتی پوزیشن پر دبائو بڑھانے کے امکان بڑھ جائیں گے جبکہ چین گلگت بلتستان میں بھاری مشینری یا بھارتی میڈیا کے الفاظ میں ''بھاری توپ خانہ‘‘ پہنچانے کے قابل ہو جائے گا۔ بھارت کی تمام فوجی قیادت اور مودی ٹولہ سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ کس طرح اسلام آباد میں بیٹھی عمران سرکار کو اس سڑک کی تعمیر سے باز رکھا جائے کیونکہ اگر چین کی معاونت کرتے ہوئے یہ شاہراہ تعمیر ہو گئی تو لداخ میں چین کے آہنی ہاتھوں کی گرفت بھارت کی گردن پر آ جائے گی اور بھارتی فوج آگے اور پیچھے‘ ہر دو اطراف سے چین کے گھیرے میں آ جائے گی۔ بھارتی فوج کے دفاعی ماہرین نے نریندر مودی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد کی 33 کلومیٹر کی یہ نئی سڑک تعمیر ہونے کے بعد چین کیلئے گلگت بلتستان میں بھاری توپ خانہ اور ٹینک لانے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹاور مشکلات نہیں رہیں گی اور اس سے لداخ اور مقبوضہ کشمیر کا دفاع بھارت کیلئے تقریباً ناممکن ہو جائے گا کیونکہ اس طرف سے چین کا حملہ روکنا بھارت کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔ گلگت بلتستان کے چودہ اضلاع میں سے استور کی ایک نہایت ہی خستہ اور پتلی سی سڑک عید گاہ ا ور قراقرم کو آپس میں ملاتی ہے۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سڑک کی تعمیر کے بعد پاکستان اور چین اگر کشمیر میں کسی بھی قسم کی کارروائی کرنا چاہیں تو ان کو ہر قسم کی آسانیاں مہیا ہو جائیں گی اور اگر وہ چاہیں تو یہاں سے بھارت پر دو طرفہ حملہ بھی کر سکتے ہیں اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ آنا مشکل ہو جائے گی تاوقتیکہ کہ نئی دہلی اس اقدام کے خلاف بھرپور جنگ کی پوزیشن میں آ سکے۔
چین اور پاکستان یقینا بھارتی فوج اور اس کی دفاعی سٹریٹیجی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کیلاش رینج کے جنوبی حصے پینگونگ جھیل پر 29 اگست کو کئے گئے چینی قبضے کے بعد سے بھارت کی نئی چوکیوں اور فوجی کمک کے جوابی حملے کی تیاریوں کی اطلاعات مل رہی ہیں لیکن انڈیا کی تینوں افواج نے واضح کر دیا ہے کہ اگر چین اور پاکستان‘ دونوں طرف سے حملہ کیا گیا تو ان کو روکنا ناممکن ہو جائے گا، اس لئے جنگی محاذ کہیں دور منتقل کیا جائے‘ جہاں ہمارے اتحادی انہیں مل کر گھیر لیں۔انڈیا نے جاپان اور امریکی معاونت سے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ چین پر کسی بھی وقت جھپٹ سکتے ہیں اور ان کا نشانہ وہ تجارتی جہازوں کا راستہ (ANI) ہو گا جو انڈیمان (Andaman) اورNicobar Islands سے گزر تا ہے جسے انڈیا نے انڈر سِی سینسر چین یا بحری جنگی اصطلاح میں FISH HOOK سے منسلک کیا ہوا ہے۔ اسے نیوی اور شپنگ کی زبان میں SOSUS بھی کہتے ہیں۔ اس سے پہلے سمندر میں جاپان اور امریکا چین کے بحری جہازوں اور آبدوزوں کو مانیٹر کرنے کیلئے یہ سسٹم قائم کر چکے تھے۔ANI اس وقت 572 چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ہے اور یہ اپنے سکڑائو کی وجہ سے کسی بھی بحری قوت اور تجارتی مقاصد کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اوپر فش ہک کی بات کی گئی، یہ سائونڈ سرویلنس سسٹم کی ایک جدید اصطلاح ہے جسے امریکا نے1950ء کی دہائی میں روس کی آبدوزوں اور جنگی جہازوں سمیت اس کے تجارتی جہازوں پر نظر رکھنے کیلئے استعمال کیا تھا لیکن اس وقت جو سسٹم چین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے وہ اس کی انتہائی جدید ترین اور حساس شکل ہے۔چین اپنے گرد بنے حصار کو توڑنے کے لیے امریکا اور جاپان سمیت ان کے اتحادیوں بھارت‘ آسٹریلیا‘ ویتنام‘ فلپائن اور تائیوان کی جنوبی چین کے سمندروں میں کی جانے والی تمام تیاریوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت امریکا‘ جاپان اور بھارت استور سے قراقرم کو ملانے والی 33 کلومیٹر کی مجوزہ سڑک منصوبے سے پریشان ہوئے جا رہے ہیں کیونکہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ چینی حکومت کے سینئر اور اہم ترین مشیر سڑک اور ریل کے ایک ایسے منصوبے کی تکمیل پر زور دے رہے ہیں جس سے چین کے جنوبی سمندری جزیروں پر مشتمل صوبے Hainan کو ریل اور سڑکوں کے جال کے ذریعے شاہراہ قراقرم سے ملا دیا جائے گا، اس سے ایک تو ان سمندری جزیروں کی معاشی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی تو ساتھ ہی چین کو اپنے جنوبی سمندر میں کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
جنوبی سمندروں پر مشتمل چین کا Hainan صوبہ پیپلز لبریشن آرمی کا نیول بیس ہے‘ اور یہ بیس سمندر میں لنگر اندازاپنے طیارہ برادر جنگی جہازوں کی حفاظت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق اب اسے کنونشنل آبدوزوں کے بجائے ایٹمی آبدوزوں کا مسکن بنایا جا رہا ہے۔ گلوبل سکیورٹی ڈاٹ کام کے مطا بق انٹیلی جنس ذرائع نے چار سب میرینز بیڑوں کی نشاندہی کی ہے جن میں سے ہر ایک میں 16 ایٹمی آبدوزیں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ریل منصوبے سے چین بھارت کے مشرق سے مغرب تک اور سڑک منصوبے سے لداخ سیکٹر تک رسائی حاصل کر لے گا اور بھارت کو چہار اطراف میں چین ہی چین دکھائی دے گا۔