"MABC" (space) message & send to 7575

واشنگٹن کا جلسہ اورفارن فنڈنگ

26 جنوری کو دنیا نیوز کے انتہائی پسند کئے جانے والے پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں شریک مہمان ماڈل بتا رہی تھیں کہ ان کی ہمدردیاں تو کسی اور سیاسی جماعت سے ہیں مگر ان کے والد کا تعلق دوسری سیاسی جماعت سے ہے اور جیسے ہی ٹی وی پر حکومت کے کسی اچھے پروگرام کی خبر آتی ہے تو وہ افسردہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سیاسی مخالفت کو ذاتی بغض و عناد بنا لیا جاتا ہے، بعض ایسے بھی تنگ نظر ہیں کہ ایک سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کی دشمنی میں ملک کے حوالے سے بدخواہی کرتے ہیں، جیسے ہی کسی حادثے اور ملک کے نقصان یا بدامنی کی کوئی خبر آئے تو ان کا چہرہ دمکنے لگتا ہے۔ بھارت کا سری واستو گروپ جب بے نقاب ہوا تو بھارتیوں کیلئے دنیا بھر میں شرم سے منہ چھپانا مشکل ہو گیا۔ جب ای یو ڈس انفو لیب کے منیجنگ ڈائریکٹر کی جانب سے یورپی یونین کو دنیا کے سب سے بڑے سائبر فراڈ کا ریکارڈ حوالے کرنے کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو اس پر بجائے خوشیاں منانے اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوشل میڈیا پر بھارتی جعل سازی اور دھوکے بازی کو بے نقاب کرنے کے‘ ایک مخصوص سوشل میڈیا سیل اور کچھ نام نہاد لبرلز اس طرح منہ لٹکا کر بیٹھ گئے ۔یہ بد قسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی مخالفت کے بجائے سیا سی دشمنی کی رسم چل پڑی ہے۔
جولائی 2019ء میں واشنگٹن کا جلسہ عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم پاکستان بہت کامیاب جلسہ تھا۔ عمران خان کا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کا پردہ چاک کرنے والا حقائق سے بھرپور خطاب دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں نے بھرپور جوش سے دیکھا تھا۔ اس جلسے میں امریکہ کی دور دراز ریاستوں کے علاوہ یورپ، کینیڈا اور برطانیہ سے بھی سینکڑوں پاکستانی اپنی فیملیوں سمیت شریک ہوئے تھے۔ امریکہ میں مقیم سندھ سے تعلق رکھنے والے بدر قریشی اوریاسین بھائی بتا رہے تھے کہ ان کی کمیونٹی میں سینکڑوں پاکستانی برسوں سے عمران خان کو شوکت خانم، نمل یونیورسٹی اور ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو انتخابات کیلئے چندہ دیتے آئے ہیں۔ اگر واشنگٹن جلسے میں ٹکٹ خرچ کر شریک ہونے والے حاضرین کی تعداد کو پچاس سے پانچ سو ڈالر تک ضرب دی جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کو کتنا چندہ جمع ہوتا ہو گا۔ پی ٹی آئی کی فنڈنگ کا اندازہ کرنا ہے تو 2013ء اور 2018ء کے انتخابات سے دس‘ پندرہ روز پہلے کا فلائٹ ریکارڈ چیک کر لیا جائے کہ کتنے اوور سیز پاکستانی صرف ووٹ کاسٹ کرنے پاکستان آئے۔ کم از کم بھی یہ تعداد درجنوں ہزاروں میں بنتی ہے اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں امریکا، خلیجی ممالک اور یورپ سے پاکستان آنے کیلئے پی آئی اے سمیت بین الاقوامی پروازوں پر کتنے اخراجات آئے ہوں گے۔ صرف اپنا اور اپنی فیملی کا ووٹ عمران خان کیلئے کاسٹ کرانے کے لیے پاکستان پہنچنے والے سخت گرمی میں تحریک انصاف کے بیجز لگائے اپنے اپنے پولنگ سٹیشنوں پر صبح سویرے ہی قطاریں بنا کر کھڑے تھے۔ اگر ایک شخص ایک ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے دو تین لاکھ روپے خرچ کرکے امریکا یا کسی دوسرے ملک سے پاکستان آ سکتا ہے تو اس کیلئے عمران خان کی اپیل پر پانچ‘ دس لاکھ روپے چندہ دینا کون سا مشکل کام تھا؟ 2014ء کے دھرنے میں جب پی ٹی آئی نے عوام سے چندے کی اپیل کی لاکھوں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں نے ایک ایک ہزار روپے پی ٹی آئی کو فنڈز دیے تھے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ کے سامنے عمران خان کی ڈس کوالیفکیشن کیلئے جب نواز لیگ کے وکیل اکرم شیخ دلائل دے رہے تھے تو یکم اگست2017ء کو دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے (جو کورٹ ریکارڈ کا حصہ ہیں) کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو ملنے والے فنڈز ''Prohibited Sources‘‘ سے وصول ہوئے ہیں تو وہ فنڈز بحق سرکار ضبط ہو سکتے ہیں لیکن ا س سے پارٹی یا اس کے چیف کی نااہلی نہیں ہو سکتی (یہی قانونی نکتہ چند روز قبل معروف قانون دان اعتزاز احسن نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بیان کیا تھا)۔ اس لئے یہ کنفیوژن سب کو دور کر لینی چاہئے کہ اگر فارن فنڈنگ کے حوالے سے تحریک انصاف کسی قسم کی بے ضابطگی یا غیر قانونی طریق کار کی مرتکب پائی جاتی ہے تو محض اس کیس کا فیصلہ ہی حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔ یہ محض پیالی میں طوفان برپا کرنے والی بات ہے۔ پی ڈی ایم اور اس کے حامی میڈیا طبقے نے جان بوجھ کر ایسا تاثر پھیلا رکھا ہے۔ بعض قانون دانوں کی رائے میں ایسا کوئی قانون ہی موجود نہیں کہ کسی ایک فیصلے سے ساری حکومت ختم ہو جائے۔اس حوالے سے ہمیں 16 دسمبر 2017ء کو عدالت عظمیٰ کا دیا جانے والا وہ فیصلہ سمجھنا ہو گا جو حنیف عباسی کی جانب سے عمران خان کے خلاف غلط حلفیہ بیان دینے کے سلسلے میں دائر کیس کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔ اس فیصلے میں Foreign-Aided Party & Prohibited Fundingکی تفریق کرتے ہوئے اسے Prohibited سے نکال دیا تھا۔
پی ڈی ایم کے جلسوں میں اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن فارن فنڈنگ کے حوالے سے ایجنٹ‘ ایجنٹ کی تکرار کئے ہوئے ہیں۔ اگر فارن فنڈنگ کی جانچ پڑتال کی رسم چل ہی پڑی ہے تو بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی جانب سے دورۂ پاکستان کے دوران چار سدہ میں ایک سیا سی جماعت کے سربراہ کو نوٹوں سے بھرا تھیلا دان کرنے کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کی جائیں جس کی تصاویر آج بھی پی ٹی وی کے آر کائیو اور اس وقت شائع ہونے والے اخبارات کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ یہ خبر اس وقت یادوں کے دریچوں سے نکل کر اچانک سامنے آ گئی جب الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر اُس سیاسی جماعت کے لیڈران کو پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے مظاہرہ کرتے دیکھا۔ اب اگر کیس چلانا ہی ہے تو تجزیہ کار مظہر عباس کی اس بات کو بھی فارن فنڈنگ کیس میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے کہ ایک مذہبی سیاسی شخصیت کو دبئی ایئر پورٹ پر کیوں روکا گیا؟ (اس سلسلے میں راقم کے پاس دبئی کے پاکستانی سفارت خانے کے اس وقت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی بتائی پوری کہانی مو جود ہے) تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب نے الیکشن کمیشن میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف بھی فارن فنڈنگ کا کیس داخل کر دیا ہے اور اس حوالے سے مولانا کی اپنی پارٹی کے بعض افراد کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ آج کل محترمہ بینظیر بھٹو کی وہ وڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے میاں نواز شریف کے اسامہ بن لادن سے دس ملین ڈالر لینے کا بتا رہی ہیں۔ کیا کبھی اس پربھی ایکشن لیا جائے گا؟ گو کہ اس فنڈنگ کے دو چشم دید گواہ اب اس دنیا میں موجود نہیں رہے لیکن تیسرا گواہ جو ایک انگریزی اخبار کا سابق چیف ایڈیٹر تھا‘ ابھی زندہ و سلامت ہے۔اس وقت سخت حیرت ہوتی ہے جب ایسے دانشور اور قلمکارآج ان سیاسی جماعتوں کے ترجمان بنے نظر آتے ہیں جو کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیمپ میں تھے، اگر ان کی پرانی تحریریں اکٹھی کی جائیں تو ان کے اپنے قلم فارن فنڈنگ کے چرچے کرتے نظر آئیں گے۔ یہ جو درجنوں کی تعداد میں بے نامی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں‘ ان سے نظریں کیوں چرائی جا رہی ہیں؟ بیرونِ ملک سے اگر کوئی ٹی ٹی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ یا اس کے خاندان کے کسی فرد کے ذاتی اکائونٹ میں آتی ہے تو کیا اسے جائز کہا جا سکتا ہے؟ فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کو ان کی انتخابی مہم کیلئے لیبیا کے صدر معمر قذافی نے فنڈنگ کی تھی اور معمر قذافی کے دورِ حکمرانی میں پاکستان کی ایک معروف سیاسی شخصیت نے طرابلس کے متعدد نجی دورے کیے‘ جہاں سے مبینہ طور پر انہوں نے کروڑوں ڈالر بطور عطیہ وصول کیے، ان کے اکائونٹس کی چھان بین کیوں نہیں کی جا رہی؟ صرف پی ٹی آئی کی جانب ہی ساری توپوں کا رخ کیوں ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں