"MABC" (space) message & send to 7575

عالمی ضوابط کے بوسیدہ اوراق

کسی ملک، ریا ست، بین الاقوامی ادارے یا فورس کے منظور کردہ قوانین اور قواعد و ضوابط جب صرف دکھاوے کیلئے رہ جائیں، جب کوئی بھی ٹاسک فورس یا ادارہ دنیا میں کسی گروپ یا ریاست کے کسی غیر قانونی اقدام کو روکنے یا اس سے اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا وہ اپنے قوانین کے ساتھ مخلص نہ رہے اور میزانِ انصاف میں ایسی ڈنڈی مارتا ہو کہ قانونی نکات اور اس کے نتیجے میں عائد کی جانے والی پابندیوں کو ہوا میں اڑا کر رکھ دیا جائے یا قانون شکن ادارہ، فرد یا ریاست تمام ضابطوں کو اپنی طاقت، غرور اور گھمنڈ کا ذریعہ بنائے تو پھر ان قوانین، قواعد و ضوابط حتیٰ کہ ان اداروں کی اپنی حیثیت بھی بوسیدہ اوراق پر نظر آنے والی ٹوٹی پھوٹی تحریروں کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔
1950ء میں نہرو‘ لیاقت معاہدے کے آرٹیکل C اور پیرا 8 کا مطالعہ کریں اور اس کے ساتھ 1972ء کے شملہ معاہدے کے آرٹیکل 2 کو سامنے رکھئے۔ 1936ء کے انٹرنیشنل کنونشن برائے براڈ کاسٹنگ برائے امن کو دیکھیں اور اس کے تحت پاکستان کے آرٹیکل 4‘ جس کا نفاذ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، پھر ویانا کنونشن کی روشنی میں ہوا تھا، پھر Law Of Traeaty 1969‘ ان سب کے تحت پاکستان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی حدود میں بھارت کی ٹیرر فناسنگ کو رکوانے کیلئے اقوام متحدہ کے آرٹیکل 33 کے تحت سکیورٹی کونسل سے رجوع کر ے۔ بین الاقوامی ضابطوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ARSIWA (Articles on Responsibility of States for Internationally Wrongful Acts) کی نافذ کی گئی پابندیاں ہی کافی ہیں جس کے انٹرنیشنل لا کمیشن آف سٹیٹس کی شق1، 35، 37 اور 40 اور یونائیٹڈ نیشنز سکیورٹی کونسل کے کنونشن 1953ء کی شق انٹرنیشنل رائٹ آف Correction کی رو سے پاکستان پوری دنیا سے سوال کر سکتا ہے کہ اس کنونشن کے آرٹیکل 11(1) کی دھجیاں بکھیرنے والی بھارتی حکومت کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟
بھارت کی جانب سےSoft Lawfare Violation پوری دنیا کا منہ چڑا رہی ہے جس کے تحت پاکستان کو بھارت کے خلاف کارروائی کیلئے اب مزید کوئی وقت ضائع کئے بغیر یورپی یونین کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ اس سلسلے میں دفتر خارجہ کو اُس ریاست‘ ان اداروں اور ان این جی اوز‘ جہاں سے ملک کے خلاف جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کا کھیل کھیلا جا رہا تھا‘ کے خلاف تمام سیاسی اور سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے مطالبہ کرنا ہو گا کہ اس معاملے کی مکمل تفتیش اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی اس سلسلے میں باقاعدہ درخواست دی جانی چاہئے اور اس کیلئے انٹرنیشنل الائنس فار ڈیفنس آف رائٹس اینڈ فریڈم کے تحت پاکستان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ان تمام ہیومن رائٹس تنظیموں کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کرے جن کے ناموں اور دفاتر سے پاکستان کو پندرہ برسوں تک دنیا بھر میں بدنام کیا جاتا رہا۔ ان تمام میڈیا آئوٹ لیٹس اور این جی اوز کی چھان بین کرنے سے ہی پتا چل سکے گا کہ ان کا کوئی حقیقی وجود بھی تھا یا نہیں۔ ان تنظیموں اور این جی اوز کو استعمال کرنے والے باقی دنیا میں بھی اپنا کوئی نام اور وجود رکھتے تھے یا ان کے تمام سلسلے بھارت میں ہی پھیلے ہوئے تھے۔ بھارتی سفاکیت اور فراڈ دیکھئے کہ اپنے ایجنڈے اور پروپیگنڈے کیلئے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 10 جعلی این جی اوز کو پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا۔
اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا دیکھئے کہ اس قدر بے خوفی اور دریدہ دہنی سے 750 جعلی میڈیا سنٹرز دنیا کے 116 ممالک میں قائم کئے گئے جن کے ذریعے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے بھارت کو شائننگ اور پاکستان کو ایک دہشت گرد اور اقلیتوں کے حوالے سے جابر ملک کے طور پر بدنام کیا جاتا رہا۔ 550 بوگس ویب سائٹس بنائی گئیں جن کو صبح‘ شام ایک ہی کام سونپا گیا کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر ہر قسم کی گندگی اچھالی جائے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں اور وزارتِ خارجہ کی جانب سے ہیومن رائٹس کے نام پر پندرہ‘ بیس برسوں سے قائم جعلی تنظیموں اور مدتوں پہلے دنیا سے رخصت ہو جانے والے بڑے بڑے دانشوروں کے ناموں سمیت جعلی میڈیا آئوٹ لیٹس اور تھنک ٹینکس کا بوگس استعمال اب کوئی ڈھکی چھپی بات تو رہ نہیں گئی۔ فوت شدہ میڈیا پرسنز اور سماجی کارکنوں کے ناموں سے پاکستان کے خلاف مضمون لکھنا اور شائع کرانا بھارت کا گھٹیا ترین اور بھیانک جرم ہے۔ یہ فیک جرنلزم،Impersonation of Institutions اور identity theft جیسے جرائم ہیں۔ بھارت کا یہ فراڈ عالمی اداروں اور دنیا بھر کی این جی اوز، ہیومن رائٹس تنظیموں اور میڈیا کی عزت و وقار اور اس کے اعتبار پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے کہ اس قسم کے جھوٹے اور مکار ملک کو کھلا چھوڑنا اور کوئی کارروائی نہ کرنا کس حد تک درست ہے؟اب تو یہ معاملہ ہے کہ جن دانشوروں اور انسانی حقوق کی معروف شخصیات کا نام بھارت استعمال کرتا رہا‘ ان کے خاندان کے افراد بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کے نا م کیونکربھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا۔ ان کے ناموں سے جو کچھ کہا اور شائع کرایا گیا وہ ان کی شہرت کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔ جب ای یو ڈس انفو لیب نے ان تمام کے کھوج لگانا شروع کیے تو شیطان کے بل کی طرح اس تک پہنچنے والی تمام رسیاں بھارتی گورکھ دھندوں اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے گرد لپٹی ہوئی نظر آئیں۔ ویانا سے بلجیم تک پھیلے جعلی میڈیا پرسنز اور مشکوک این جی اوز‘ سب بھارتی پرچم میں لپٹے مزے کرتے دکھائی دیے۔
ایف اے ٹی ایف، یورپی یونین، اقوام متحدہ یا کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ جو اپنے قوانین اور ضابطوں کی پابندیوں اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے فروغ کیلئے کسی بھی صورت میں کی جانے والی فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہتا ہے‘ کیا اسے بھارت کی ''حوالہ منی‘‘ سے متعلق کوئی اطلاع نہیں؟ یا وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ بھارت کی دنیا کے مختلف علاقوں ٹیرر فنانسنگ سے متعلق ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کی جا چکی ہیں لیکن ایسا کرنے سے حقائق اور سچائی چھپائی نہیں جا سکتی۔ ٹیرر فنانسنگ کیلئے بھارت میں سرکاری سطح پر کی جانے والی منی لانڈرنگ کیسے انجام پاتی ہے‘ اس کے لیے امریکی محکمہ خزانہ کی تیار کردہ ایک رپورٹ ہی کافی ہے‘ جس کے مطا بق بھارت وہ واحد بڑا ملک ہے جو دنیا بھر میں خفیہ طور پر ''حوالہ منی‘‘ کے ذریعے فنڈنگ بھیجتا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی 2020ء کی جاری کردہ رپورٹ اس بات کا سرٹیفکیٹ دے چکی ہے کہ بھارتی حکومت نے بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود ابھی تک منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کو اپنے ایجنڈے میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا جبکہ پاکستان اس سلسلے میں اپنی گزشتہ تمام غفلتوں پر مکمل طور پر قابو پا چکا ہے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ بھارت کو کوئی خوف نہیں کہ اس کے خلاف اس لا پروائی یا دہشت گردی کیلئے کی جانے والی فنڈنگ پر پوچھ گچھ بھی ہو سکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکی بینکوں کی جانب سے بھارت کے 44 سرکاری اور نجی بینکوںکو بھیجی گئی رپورٹس میں مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ رپورٹ پاکستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک میں بھارت کی جانب سے کسی بڑی دہشت گردی کے منصوبے کی جانب اشارہ بھی کرتی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے بعد ایف اے ٹی ایف پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ بھارت کے مشکوک مالی معاملات کا جائزہ لے اور اس پر نظر رکھے وگرنہ ان عالمی اداروں اور ان کے قوانین کی حیثیت بوسیدہ اوراق سے زیادہ نہیں جن پر درج قوانین مخصوص ممالک اور ریاستوں کے خلاف ہی عمل میں آتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں