جولائی 2020ء میں اٹلی پولیس نے اٹلی کی بندرگاہ سالرنو میں کارروائی کی تو ایک دوا ''ٹراما ڈال‘‘ کی 8 کروڑ 40 لاکھ گولیاں اس کے ہاتھ لگیں۔ یہ ذخیرہ جس کا وزن 14 ٹن بتایا گیا‘ ان گولیوں کا تھا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے شدت پسند تنظیم داعش اپنے جنگجوئوں کے استعمال میں لاتی ہے۔ اٹلی پولیس کے مطابق قبضہ میں لی گئی ان گولیوں کی مارکیٹ قیمت ایک بلین یورو یا 1.6 بلین ڈالر تھی۔
جب افغانستان میں داعش نے افغان طالبان کے ٹھکانوں پر حملے شروع کئے تو اقوام عالم کا چونک جانا ایک قدرتی امر تھا۔ پاکستان، ایران، چین اور خطے کے دیگر ممالک داعش کی موجودگی پر یکدم الرٹ ہو گئے کیونکہ داعش افغانستان میں وہی ایجنڈا پورا کرتی محسوس ہو رہی تھی جس پر افغان حکومت اور بھارت مل کر کئی برسوں سے کام کر رہے تھے۔ یہ حملے ثابت کر رہے تھے کہ داعش کے افغان دھڑے کو بھارتی ایجنسی را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ انہی دنوں بھارت سے بھی خبریں ملنے لگیں کہ کیرالا میں کچھ مدرسوں کے نوجوانوں کو داعش میں شمولیت کے حوالے سے سرکاری سرپرستی مل رہی ہے کیونکہ کیرالا سے نوجوانوں کی داعش میں بھرتی اور پھر وہاں سے ان کو افغانستان تک پہنچانا اور جدید قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود ان کے حوالے کرتے ہوئے انہیں طالبان کے ممکنہ ٹھکانوں تک بحفاظت حملے کے لیے بھیجنا بھارت اور افغانستان کے طاقتور حلقوں کی مدد اور اجا زت کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اس کے ساتھ ہی کیرالا سے یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ داعش کیلئے نوجوانوں کو تیار کرتے ہوئے ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور اس دوران انہیں ''کیپٹاگون‘‘ نامی گولیاں استعمال کرائی جاتی ہیں۔ داعش کے لوگوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں بسوں میں سوار لوگوں کو بہیمانہ طریقوں سے قتل کرنا شروع کیا‘ جن کی وڈیوز بھی موجود ہیں تو ان کے چہرے دیکھ کر صاف محسوس ہوتا تھا کہ یہ کسی عجیب قسم کے نشے کے زیر اثر ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو بھی ایسی ہی نشہ آور ادویات استعمال کرائی جاتی تھیں کیونکہ لوگوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلنا اور اس سارے وحشیانہ عمل کی وڈیو بنا کر جاری کرنا کسی عام جنگجو کی حرکت نہیں ہو سکتی۔
اٹلی پولیس نے جب مزید تفتیش کی تو علم ہوا یہ کہ گولیاں کارگو کے ذریعے لیبیا بھیجی جا رہی تھیں۔ پولیس نے مزید تفتیش کی تو ثابت ہوا کہ ان گولیاں کی کھیپ بھارت سے آئی تھی‘ انہیں پیپر کے بڑے بڑے رولز اور گاڑیوں کے گیئر بکس میں چھپایا گیا تھا۔ اب اس کے دو مقاصد ہی ہو سکتے تھے، پہلا یہ کہ ان گولیوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے دہشت گردوں کی مالی مدد کی جائے۔ دوسرا، بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے جنگجوئوں کی مزاحمتی قوت کو بڑھانا۔ ان گولیوں کی لیبارٹری رپورٹ صاف بتا رہی تھی کہ اس کے استعمال سے انسانوں کے اندر وحشیانہ جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ جب یہ گولیاں نائیجیریا میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے دہشت گردوں کو مہیا کی گئیں تو ان کے اندر وحشیانہ تشدد کا جذبہ کئی گنا زیادہ بڑھ گیا اور عقل وخرد اور انسانیت سے عاری وحشیانہ جوش کئی گنا زیادہ ابھرنا شروع ہو گیا۔ ان گولیوں کا ایک مقصد یہ بھی سامنے آیا کہ ان کے استعمال سے انسانی جسم اور سوچ میں پہلے سے موجود سفاکیت اور سفلی جذبات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ نومبر 2015ء میں پیرس کے Bataclan تھیٹر پر حملے‘ جس میں 90 افراد ہلاک ہوئے تھے‘ کے بعد گرفتار دہشت گردوں کے ٹھکانے سے بھاری مقدار میں ایسی ہی گولیاں برآمد کی گئی تھیں اور گرفتار دہشت گردوں سے کی جانے والی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان تمام حملہ آوروں کو تھیٹر پر حملہ مکمل کرنے سے قبل یہ گولیاں استعمال کرائی گئی تھیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے عراق اور شام میں جاری خونریز جنگوں میں داعش کے جنگجوئوں کے ظلم و بر بریت اور سفاکیت کی کبھی نہ بھولنے والی داستانوں میں زیادہ کردار ایسی گولیوں کا ہی رہا ہے۔
عموی طور پر ایسی نشہ آور ادویات کے مرکزی اجزا میں ایمفیٹامین (Amphetamine) ہوتا ہے لیکن جب اس میں کیفین یا کچھ دوسرے مادے شامل کر دیے جائیں تو ایسی ڈرگز استعمال کرنے والے افراد کی لڑنے کی صلاحیت اور جنون کئی گنا بڑھ جا تا ہے۔ یہ ادویات بعض بیماریوں کے علاج کے لیے بنائی گئی تھیں مگر جب ان کے شدید منفی اثرات سامنے آئے تو ان پر پابندی لگا دی گئی مگر بعض تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق‘ ان گولیوں کا استعمال گزشتہ دس برس میں تحریک طالبان پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ داعش کے بانی ابوبکر بغدادی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عراق اور شام میں واقع اپنے تمام تربیتی کیمپوں میں اس طرح کی ادویہ کا باقاعدہ استعمال کراتا تھا۔
اٹلی پولیس کے بعد نیدر لینڈ پولیس نے بھی ایک لیبارٹری سے اس قسم کی ادویات کی ایک کھیپ پکڑی۔ بعد ازاں ہیگ پولیس ان دو مشتبہ بھارتی افراد کو تلاش کرتی رہی جن کے بارے کہا گیا تھا کہ وہ ان پلز کی ترسیل میں ملوث ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اٹلی، نیدر لینڈ کے بعد آسٹریلیا میں بھی ایسی منشیات کی برآمدگی کا سب سے بڑا واقعہ سامنے آ چکا ہے۔ کیپٹا گون‘ جس کے متعلق مستند لیبارٹریز رپورٹ دے چکی ہیں کہ اس کے استعمال سے جنونی کیفیت اور انسانی دماغ میں سفاکیت تیزی سے جگہ بنانا شروع کر دیتی ہے‘ کی گولیوں کی ایک بڑی کھیپ آسٹریلیا کے جنوبی صوبے لیمبرگ سے پکڑی گئی۔ اس کے علاوہ یونان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے بھی ایک گھر سے ان ادویات کی 6 لاکھ گولیوں برآمد کی تھیں۔
یونائیٹڈ نیشنز آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم (UNODC) کی ایک رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک میں کیپٹاگون کی وسیع مقدار موجود ہے۔ وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ یونیورسٹیوں کے ایسے طالبعلم‘ جن کے امتحانات ہوتے ہیں‘ رات بھر جاگنے کیلئے بھی ان گولیوں کا استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عرب شہزادے کی سٹوری اخبارات کی زینت بن چکی ہے کہ جسے لبنانی حکام نے پرائیویٹ جہاز سے ایسی گولیاں برآمد کرنے کے بعد حراست میں لیے رکھا۔ بعض ممالک میں ایسی ادویات کی ایک گولی کی قیمت 20 ڈالر تک ہے۔ داعش کے ایک سابقہ جنگجو کا سی این این کو دیا جانے والا انٹرویو آج بھی آرکائیوز میں موجود ہو گا جس میں وہ تسلیم کرتا ہے کہ داعش کے لوگ ہمیں Hallucinogenic گولیاں کھلاتے تھے جس سے یہ ہوتا تھا کہ لڑائی پر جاتے ہوئے یہ فکر نہیں ستاتی تھی کہ ہم نے زندہ رہنا ہے یا مر جانا ہے۔
اقوام متحدہ کی Analytical Support and Sanctions Monitoring Team کی جاری کی جانے والی 26ویں رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ بھارت کی ریاست کرناٹک اور کیرالا میں داعش کی مؤثر تعداد کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کیرالا میں داعش کی موجودگی خطے کے امن کیلئے باعث تشویش ہے۔ بعد ازاں بھارت سے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ کیرالا سے نوجوانوں کو داعش میں بھرتی کر کے یہ کہہ کر افغانستان میں طالبان سے لڑنے کے لیے بھیجا جا رہا تھا کہ افغانستان سے طالبان کے خاتمے کے بعد وہاں داعش اپنی حکومت کا اعلان کرے گی۔