"MABC" (space) message & send to 7575

افغانستان‘ بچہ سقہ‘ آج اور کل …(3)

14 جنوری 1980ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں افغانستان کے خلاف روسی جارحیت پر قرارداد پیش ہوئی جسے 104 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ 18 ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے اور 18 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔ روسی فوجوں نے کابل میں کمیونسٹ مخالفوں کا قتل عام شروع کر دیا جس پر صرف جنوری 1980ء تک چار لاکھ کے قریب افغان شہری روسی فوجوں کے ظلم سے بچتے ہوئے اپنے خاندانوں سمیت پاکستان میں داخل ہو گئے اور روز بروز ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ پورے پاکستان میں ان کو بسانے کیلئے 344 مہاجر کیمپ قائم کیے گئے۔ جن میں سرحد (کے پی) میں 251، بلوچستان میں 76، پنجاب میں 16 اور سندھ میں ایک مہاجر کیمپ قائم کیا گیا۔ ان کیمپوں میں 31 لاکھ سے زائد مہاجرین کو آباد کیا گیا۔ 12 فروری 1980ء کو افغانستان‘ سوویت یونین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کا مرکز بن گیا۔ افغان مہاجرین کی اکثریت اپنے گھر والوں کو ان کیمپوں میں چھوڑ کر روسی فوج کے خلاف جہاد میں شامل ہو نے کیلئے افغانستان پہنچنا شروع ہو گئی، انہی افغانوں نے امریکا، یورپ، جاپان اور عرب ممالک کی بھرپور مدد سے روسی استعمار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
افغان جہاد تقریباً آٹھ سال تک جاری رہا اور ان آٹھ سالوں میں روس نے پاکستان کے خلاف سفارتی و فوجی دھمکیوں اور دہشت گردی سمیت ہر حربہ آزمایا۔ آج یہ باتیں بھولی بسری ہو گئی ہیں لیکن 1980ء سے مارچ 1989ء تک روس نے 2730 مرتبہ پاکستان کی فضائی حدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بمباری کی جس سے 1355 شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ 2599 مرتبہ روسی توپوں نے پاکستان کی حدود میں گولہ باری کی جس سے ایک ہزار سے زائد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ بھارت نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے افغان مہاجرین کی آڑ میں بلوچستان‘ گلگت بلتستان‘ کے پی اور قبائلی علا قوں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانا شروع کر دیا تو ساتھ ہی روسی کے جی بی اور افغانستان کی خاد نے ڈیورنڈ لائن کے دوسری طرف پاکستانی حدود میں اپنے قدم جمانا شروع کر دیے تاکہ یہاں سے مجاہدین جب افغانستان میں داخل ہوں تو ان کی باقاعدہ شناخت اور اطلاع کر دی جائے۔ افغان جہاد کی وجہ سے اب پاکستان ساری دنیا کی گزرگاہ اور سرائے بنتا جا رہا تھا۔ ہر طرح کے میڈیا کا ایک لشکر پاکستان میں مصروفِ عمل ہو گیا جس کے بھیس میں دنیا بھر کی ایجنسیوں بالخصوص اسرائیلی ایجنسیوں کے افراد بھی شامل تھے۔ ان آٹھ سالوں میں پاکستان میں تخریب کاری اور بم دھماکوں کی 617 وارداتیں ہوئیں جن میں 890 افراد ہلاک اور 3250 سے زائد زخمی ہوئے۔ افغان جہاد کے ساتھ ہی پاکستان میں اسلحہ کلاشنکوف ‘ہیروئن اور افیون کی بھرمار ہو گئی۔کلاشنکوف ایک عام کھلونے کی طرح معاشرے میں داخل ہو گئی۔
جب تک جمی کارٹر امریکی صدر رہے‘ افغانستان میں روس کے خلاف امریکی قدم دبا دبا سا رہا بلکہ یہاں تک بھی ہوا کہ بغیر کارمل حکومت کو تسلیم کیے‘ یورپین اکنامک کمیونٹی نے 14 مئی 1980ء کو کابل کو مدعو کر لیا۔ 25 جون 1982ء سے 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھی افسران کی طیارے حادثے کے نتیجے میں شہادت تک‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے دس دور ہوئے۔ دوسری طرف مجاہدین کی قربا نیاں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں۔ایک جانب مذاکرات کے نام پر مغربی پلاننگ کے مطابق سازشی کھیل کھیلا جا رہا تھا تو دوسری جانب قانونِ قدرت کارفرما تھا اور یکے بعد دیگرے روس کی تین اہم اور مضبوط ترین قیادتیں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ 15 نومبر 1982ء کو روسی صدر برزینف کی تدفین کے بعد یوری آندرو پوف روس کے صدر بنے جنرل ضیاء الحق جو برزنیف کی تدفین کیلئے ماسکو گئے تھے‘ انہوں نے یوری آندرے پوف سے ملاقات کی تو اس نے جنرل ضیا سے کہا ''اگر آپ چاہتے ہیں کہ روسی فوجیں افغانستان سے واپس چلی جائیں تو پاکستان سے مداخلت بند کر دیں‘‘۔ فروری 1984ء میں یوری آندرے پوف کا بھی انتقال ہو گیا اور Konstantin Chernenkoروس کے صدر مقرر ہو گئے لیکن صرف ایک سال بعد مارچ 1985ء میں ان کا بھی انتقال ہو گیا اور اب روسی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو نے میخائل گورباچوف کو روسی صدر مقرر کر دیا۔ گوربا چوف نے آتے ہی سوویت پالیسیوں میں تبدیلیاں لانا شروع کر دیں اور فروری 1986ء میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے 27ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یک دم یہ کہتے ہوئے دنیا بھر کو چونکا دیا کہ افغانستان ایک ''رستا ہوا ناسور ہے، اس لیے روس جلد ہی افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لے گا‘‘۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ صرف دو ماہ بعد مئی 1986ء میں ببرک کارمل کی جگہ نجیب اﷲ کو افغان کا صدر مقرر کر دیاگیا۔ 14 اپریل 1988ء کو محمد خان جونیجو کی طرف سے افغان امن کیلئے امریکا کے تیار کئے جانے والے جنیوا معاہدے پر رضامندی کی مہر ثبت کرنا دس سالہ افغان جدوجہد اور قربانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے‘ دنیا کی سپر پاور کو‘ جو ایک لاکھ فوج کے ساتھ پاکستان سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھی‘ جلال آباد اور قندھار سے آگے نہ بڑھنے دیا لیکن 14 اپریل 1988ء کو بعض امریکی یقین دہانیوں پر جونیجو نے افغان جہاد کے ہیرو جنرل ضیا الحق کی مرضی کے بغیر اس معاہدے پر دستخط کر دیے۔ 1980ء میں سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے کیلئے عجلت میں کیے گئے فیصلے کی اسے انتہائی قیمت ادا کر نی پڑی۔
جولائی 1989ء میں روسی وزیراعظم نکولائی نے اقرار کیا کہ جون 89ء تک روس کو اس جنگ میں 70 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 13 ہزار 310 روسی فوجی ہلاک، 35 ہزار 478 زخمی جبکہ 311 لاپتا ہوئے۔ روسی فوج کے 800 ٹینک، 1113 بکتر بند گاڑیاں، 7 ہزار 765 ٹرک اور جیپیں‘ 812 توپیں اور 1486 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر تباہ ہوئے۔ دوسری طرف افغانستان کے 95 ہزار فوجی ہلاک اور 80 ہزار زخمی ہوئے۔ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ سفید ریچھ اب یہاں سے کبھی نہیں نکلے گا اور گرم پانیوں تک پہنچنے کا اس کا دیرینہ خواب حقیقت بننے والا ہے لیکن جنرل ضیاء الحق نے اس کا یہ خواب چکنا چور کر دیا۔ جب تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان پہنچے تو سب نے کہا کہ اب تماشا ہو گا، پاکستان کے پاس تو اپنے کھانے کو کچھ نہیں‘ یہ ان تیس لاکھ مہاجروں کو کہاں سے کھلائیں گے؟ لیکن حیران کن طور پر ان آٹھ سالوں میں پاکستان میں ضروری اشیائے خور و نوش کی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ روسی فوج کا جنرل گوروموف جب آخری سپاہی کی حیثیت سے واپس جا رہا تھا تو دریائے آمو کے پل پر وہ جیپ سے نیچے اترا اور آنسو بہاتے ہوئے سر جھکاکر روسی سرحد میں داخل ہو گیا۔
ایک کثیر طبقہ اس وقت سے آج تک‘ جنرل ضیا کی افغان پالیسی پر تنقید کرتا رہتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تو کیا کرتا؟ کیا وہ روس کو خوش آمدید کہتا؟ پاکستان کو اپنی مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں کی بھی فکر پڑ جاتی جہاں کمیونسٹ اور بھارتی مل کر اسے تگنی کاناچ نچا دیتے۔ جنرل ضیا نے وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنیوا میں جو بھی معاہدہ ہو‘ اس میں افغان مجاہدین کو بھی شریک کیا جائے تاکہ وہ معاہدے کے باقاعدہ فریق ہوں لیکن یکطرفہ معاہدہ کر کے آٹھ سالہ جدوجہد کو سبوتاژ کر کے رکھ دیا گیا۔ اگر جنیوا معاہدے میں مجاہدین کو شامل کیا جاتا تو نائن الیون سے پہلے اور آج‘ افغانستان حالات بہت حد تک مختلف ہوتے۔ ایک بڑی طا قت کے وزیر خارجہ سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تو اس کا جواب تھا: This is in our best Interest۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں