سوچتا ہوں کہ آسمان کیوں نہیں پھٹ گیا، پہاڑ ریزہ ریزہ کیوں نہیں ہو گئے، پتھروں کی موسلا دھار بارش کیوں نہ برسی،بلندو بالا عمارتیں اور عقیق جیسے قیمتی پتھروں سے سجے سجائے محل اور حویلیوں کو زمین سے اکھاڑ کر تہ و بالا کرنے والا بھونچال کیوں نہ آ گیا؟ سمندروں کی ہزاروں فٹ اونچی طوفانی لہریں سب کچھ بہا کر کیوں نہ لے گئیں، زمین و آسمان الٹا کیوں نہ دیے گئے؟ ہر وہ عذاب جس سے زمین پر بسنے والے انسانوں کے روپ میں حیوانوں اور درندوں کے جسم سینکڑوں ٹکڑوں میں کٹ کر رہ جائیں‘کیوں نہیں بھیجا گیا جب جیل میں قید ایک خاتون کے ساتھ رہنے والے اس کے بدقسمت آٹھ سالہ بچے کی معصومیت کو روندتے اور کچلتے ہوئے جیل کا عملہ اس سے جسم فروشی کراتا رہا؟ اس معصوم بچے کے ساتھ جیل کے اندر بیتنے جانے والی شرمناک داستان سننے کے بعد سے یہ دکھ‘ تکلیف اور دن رات کی اذیت کا عذاب جو مجھے خوفناک سیاہ چیونٹوں کی طرح اندر سے کاٹے جا رہا ہے‘ پاکستان کے تمام طاقتوروں اور اُن ذمہ داران کا مقدر کیوں نہیں بنا جن کا ان جیلوں میں حکم چلتا ہے؟ ان جیلوں کو چلانے والے بڑے افسران اور وزیر‘ جو قانون بناتے ہیں اور قانون نافذ بھی کراتے ہیں‘ وہ اس کی پکڑ سے کیونکر بچے ہوئے ہیں؟ جیلوں کے وہ بڑے بڑے رعب داب رکھنے والے‘ جن کیلئے سلاموں کے ساتھ دروازے کھولے جاتے ہیں، جنہیں اس قوم کی خون پسینے کی کمائی سے بڑی چمک دار گاڑیاں‘ محلات جیسے دفاتر اور شاندار بنگلے مہیا کئے جاتے ہیں‘ ان سے ان بچوں پر بیتے ہوئے ایک ایک لمحے کی قیمت کیوں وصول نہیں کی جاتی؟ اُن سے ان کو دی گئی کرسیاں اور ٹھاٹ باٹ کیوں نہیں چھین لیا جاتا؟ قوم کے پیسوں سے خریدی گئی بڑی بڑی گھومنے والی کرسیوں پر بیٹھے ان لوگوں‘ جنہیں نہ تو کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی ناک کے آگے کچھ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ سے محنت مزدوری جیسا کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ انہیں کسی اینٹوں کے بھٹے پر دو چار ماہ کیلئے بطور سزا کیوں نہیں بھیج دیا جاتا؟ ہر وہ شخص جس کی زبان اور ہاتھ اس ملک کی بڑی بڑی کرسیوں اور چمکتے دمکتے ٹھنڈے اور گرم دفاتر میں بیٹھ کر حکم چلاتے ہیں‘ جو معصوم بچوں پر ہونے والے شرمناک مظالم دیکھنے سننے کے باوجود ہر وقت بالائی آمدنی کی سوچوں میں مگن رہتے ہیں‘ ایسے افسران کے جسم اذیت ناک خارش اور کوڑھ کا شکار کیوں نہیں ہو جاتے؟ ان کے کانوں میں ہمہ وقت اس بچے کی دل فگار چیخیں انڈیلنے کی سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ جیلوں میں اپنی بدقسمت مائوں کے ساتھ قید ایسے معصوم بچے‘ جن کے جسم کے سودے کر کے چند اہلکار اپنے خاندان کو عیاشیاں کراتے ہیں‘ ایسے اہلکاروں کو تحفظ دینے والوں اور ان سے اپنا حصہ وصول کرنے والوں کو درد ناک سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟
گزشتہ دنوں پاکستان ٹیلی وژن کی ایک سابقہ رپورٹر کی زبان سے راولپنڈی کی جیل میں اپنی قیدی ماں کے ساتھ رہنے والے ایک آٹھ سالہ بچے پر گزری دلخراش کہانی کے درد و اذیت میں نچڑتے ہوئے الفاظ‘ جو اب وائرل ہو چکے ہیں‘ سنتے ہوئے میرا ذہن سن ہو کر رہ گیا۔ یہ الفاظ کیا تھے‘ پگھلے ہوئے سیسے کی لہریں تھیں جو میری سماعتوں سے ٹکرا کر انہیں ادھیڑ رہی تھیں۔ یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ جیل کے اندر فرائض انجام دینے والا عملہ اس قدر پست، گھٹیا اور وحشی بھی ہو سکتا ہے کہ سات‘ آٹھ سالہ معصوم بچے‘ جو اپنی قیدی ماں کے ساتھ جیل میں رہ رہا ہو‘ کوایک بیرک سے دوسری‘ دوسری سے تیسری‘ تیسری سے چوتھی بیرک تک ایک سے دو ہزار روپے قیمت وصول کرنے کے بعد چھوڑ آتا۔ دلالی کرتا جیل کا یہ عملہ شاید خود بھی شادی شدہ ہو گا‘ اس کے بچے بھی ہوں گے اور جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے ہیڈ وارڈن تک‘ ان کے بچوں کی عمریں بھی سات‘ آٹھ سال ہوں گی، انہیں بھی اس بچے کی طرح اﷲ نے اچھی شکل و صورت دی ہو گی‘ ان کی بیٹیوں اور بیٹوں کے بھی اس طرح کے بچے ہوں گے جو اپنے دادا اور نانا کی گود میں اچھلتے کودتے ہوں گے‘ ان پوتوں اور نو اسوں کو یہ سب اہلکار اور افسران خوب پیار بھی کرتے ہوں گے؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی انہیں اس مظلوم بچے کو دیکھ کر اپنے بچوں، پوتوں یا نواسوں کا خیال نہیں آیا؟ کیا ایک لمحے کو بھی اپنے بچوں میں انہیں جیل کے ان مظلوم بچوں کی جھلک دکھائی نہیں دی؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ بھی اپنے بچوں کو جیل لا کر وہاں چھٹے ہوئے بدمعاشوں، جرائم پیشہ افراد، ڈاکوئوں اور قاتلوں کو پیش کر کے ان سے ہرے اور نیلے نوٹ لے کر اپنی جیبوں میں ٹھونستے ہوں گے؟
کیا اس کی جگہ ان کے گھر کا کوئی بچہ ہوتا تو بھی یہ افراد اس معصوم بچے کو جیل کے وحشیوں کے حوالے کرنے کے بعد اس کی دلخراش چیخیں سنتے ہوئے ایک دوسرے کی جانب معنی خیز اشارے کرتے ہوں گے؟ خاتون رپورٹر کے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں مذکورہ واقعے کی دل چیر دینے والی داستان سنتے ہوئے مجھے یوں لگا کہ یہ کسی جنگل کی کہانی ہے جہاں نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی انسان بستے ہیں، جہاں سوائے حیوانوں اور درندوں کے‘ کسی اور کا حکم اور مرضی نہیں چلتی۔ جہاں نہ کوئی انسانیت، اخلاقیات کا کوئی تعلق ہو گا اور نہ ہی کسی کو اولاد کے پیار اور ممتا کا احساس ہوگا۔ جہاں نہ کوئی مذہبی اقدار ہوں گی اور نہ ہی آئین اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کی جاتی ہوں گی۔ جہاں نہ تو صاف ستھرے لباسوں میں چرچ جانے کی روایت ہو گی اور نہ ہی مساجد میں پانچ وقت خدا کے حضور سر بسجود رہنے کا شرف حاصل ہوتا ہو گا۔ خیال تھا کہ یہ خاتون رپورٹر جس جگہ کا واقعہ سنا رہی ہے‘ وہ کوئی ایسا گھنا اور بدبودار قسم کا جنگل ہوگا جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو چیرنے پھاڑنے کے علاوہ اور کوئی کام جانتا ہی نہیں ہو گا۔ اس جنگل میں نیکی‘ اچھائی اور پاکیزگی کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہوگا اور اس جنگل میں نہ تو کوئی کسی کا باپ ہو گا، نہ یہاں پر کسی کو ماں‘ بہن اور بیٹی جیسے مقدس رشتوں کی پہچان ہو گی اور نہ ہی معصوم چھوٹے چھوٹے بچے‘ بچیوں کیلئے نرمی اور پیار پایا جاتا ہو گا۔ یہ وہی جنگل ہو گا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں عزت و عصمت اور شرم و حیا جیسی کسی شے سے کوئی آشنا ہی نہیں ہوتا؟
ستمبر2019ء کی ایک صبح ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج رانا مسعود اختر اڈیالہ جیل کے معائنے پر تھے تو ایک نو عمر قیدی نے چلاتے ہوئے بتایا کہ جیل کا عملہ اسے ہر روز جنسی تسکین کے لئے جیل میں قید بااثر اور بدمعاش قسم کے قیدیوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ جج صاحب کے حکم سے اس نو عمر قیدی کا طبی معائنہ کرانے کے بعد اس میں ملوث گیارہ ملازمین کی معطلی کے احکامات جاری کئے گئے۔ یہ شرمناک کہانی مذکورہ جیل کے حوالے سے ملک بھر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بن چکی ہے اور اس حوالے سے وقتی طور پر معطل کئے گئے گیارہ ملازمین کو کیا سزا ملی‘ اس کی کوئی خبر نہیں۔ اس سے قبل جنوری 2019ء میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کو اسلام آباد پولیس کی دی گئی رپورٹ کے مطابق‘ گزشتہ پانچ برسوں میں صرف وفاقی دارالحکومت میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 3 سو سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 260 ایسے واقعات کا بھی علم ہوا جو کسی وجہ سے پولیس میں رپورٹ نہیں کرائے جا سکے۔ 2020ء کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت یومیہ 11 خواتین و بچے جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج ہونے والی شکایات سے اخذ کی گئی ہے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق‘ 2015ء سے اب تک مجموعی طور پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے ہیں جبکہ صرف 77 مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں اور صرف 18 فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچے۔ مذکورہ تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر ننھی زینب، حوضِ نور اور فرشتہ جیسی اَن گنت بچیوں اور بچوں کی تصاویر پر نظر ڈالتا ہوں تو بے اختیار یہ سوچنے لگتا ہوں کہ آسمان ٹوٹ کر کیوں نہیں گر جاتا، پہاڑ ریزہ ریزہ کیوں نہیں ہو تے؟