"MABC" (space) message & send to 7575

تم سے جدا ہو کے

ماں کے قدموں سے لپٹے، آنسوئوں کے دریا بہاتے‘ کپکپاتے لرزتے وجود سے نکلتی ہوئی تھرا دینے والی سسکیاں رکنے میں نہیں آ رہی تھیں اکلوتا بیٹا ماں کے قدموں سے اس طرح چمٹا ہوا تھا کہ وہ کچھ ہی لمحوں بعد ملنے والی ہجر کی آگ میں جلا کر خود کو راکھ کا ایک ایسا ڈھیر بنا کر بکھیر دینا چاہتا تھا کہ اس کا وجود اپنی ماں کے پائوں میں موجود جوتیوں کے تلووں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چمٹ کر رہ جائے۔ اکلوتا بیٹا شاید بے خبر تھا کہ وہ ماں‘ جس کے قدموں سے لپٹ کر وہ خون کے آنسو بہا رہا ہے‘ اس کے دل پر اس وقت کیا بیت رہی ہے۔ وہ ماں بھی یہ جانتی تھی کہ اگلے چند لمحوں بعد ایک بار پھر لمبی مدت کیلئے اس کا بیٹااس کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا کہ اس کو سمندر پار لے جانے کیلئے سواری گھر کے باہر بالکل تیار کھڑی ہے اور اس کا اکلوتا بیٹا‘ جو چار بہنوں کا واحد سہارا ہے‘ اپنے خاندان کے ایک چھت‘ ایک سایہ دار شجر ہے‘ ایک بار پھر ان سے بچھڑکر ہزاروں کلومیٹر دور جانے والا ہے۔ وہ ماں صبر کا پہاڑ بنی اپنے وجود کو کاٹنے والی جدائی اور ایک نامعلوم مدت کیلئے اپنے اکلوتے بیٹے کو دیکھنے کی حسرت بھرا انتظار خود ہی سہے جا رہی تھی۔ اپنے وجود سے جنم دیے گئے اس بچے کو بوڑھی کمزور انگلیوں سے سہلاتی وہ اندر سے اس قدر ٹوٹی جا رہی تھی کہ لگتا تھا کہ یہ منظر زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کو رلا دینے کے لیے کافی ہو گا۔ اس بوڑھی ماں کے وجود کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا منظر دیکھ کر پتھر بھی پگھل جانے کو تیار تھے۔
عمران صدیقی جیسے لاکھوں بیٹے اس وقت اپنے بوڑھے والدین کی بہتر زندگیوں کیلئے دن‘ رات موسم کی تمام سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے کولہو کے بیل کی طرح کام کرنے کیلئے پاکستان سے باہر دنیا کے مختلف ممالک میں گئے ہوئے ہیں۔ ان میں چند ایک فیصد کے علاوہ‘ باقی سب تنہاہیوں میں پاکستان اور اس میں بسنے والے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کو جس کسک اور جس جذبے سے یاد کرتے ہیں اس کا اندازہ وطن میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھا کوئی بھی شخص نہیں لگا سکتا۔ عمران صدیقی جیسے لاکھوں تارکین وطن میں سے کوئی کامیاب بزنس مین، کوئی ڈاکٹر اور کوئی انجینئر بن چکا ہے لیکن ان کے اندر بسا ہوا پاکستانی اپنے پرچم سے اس قدر محبت اور عقیدت رکھتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانے کیلئے عمران کا دفتر دیکھیں جہاں اس کی میز کے ایک جانب جرمنی تو دوسری جانب سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے۔ اپنی ماں سے جدائی کی کسک کے بعد سب سے زیا دہ اسے اپنی دھرتی ماں پاکستان کی یاد ستاتی ہے‘ وہ اپنا عشق‘ اپنا وجود پاکستان کے بغیر نامکمل سمجھتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اپنی بقیہ زندگی دھرتی ماں میں بسنے والی اپنی ماں کے وجود کو سنوارنے میں گزار دے۔
پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد اوور سیز پاکستانیوں کے ساتھ جس طرح کا شرمناک سلوک کیا جاتا ہے‘ جس طرح سے وہاں تعینات عملہ ان پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے وہ ان کے دلوں میں پاکستان کیلئے مچلنے والے جذبات کو چکنا چور کر کے رکھ دیتا ہے اور یہ سلوک آج سے نہیں بلکہ اس ملک کے وجود میں آنے کے دن سے اس کے نصیب میں چلا آ رہا ہے۔ نجانے کیوں کوئی بھی صاحبِ اختیار اس غلط کلچر کا خاتمہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ آج اگر ملک دیوالیہ ہونے سے بچا ہوا ہے‘ آج اگر ہم اپنے ریاستی بینک کے زرمبادلہ کے مختصر سے ذخیرے کا حوالہ دے کر دنیا بھر سے تجارت کر رہے ہیں تو اس میں ہمارے جیسے ٹیکس چوروں کا نہیں، ملاوٹ اور رشوت خور مافیا کا نہیں، منی لانڈرنگ، کمیشن اور کک بیکس والے مگرمچھوں کا نہیں، مہنگائی کے کوڑے برسانے والے ذخیرہ اندوز تاجروں کا نہیں بلکہ اپنی مائوں اور بیوی بچوں کو روتا تڑپتا چھوڑ کر دنیا کے کونے کونے میں خود کو حالات کی بھٹیوں میں جھونک کر ڈالر، یورو، ریال، پائونڈ اور درہم کمانے والے انہی تارکین وطن کا خون‘ پسینہ شامل ہے‘ جن کے ساتھ ملک میں انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ میں نے جب کبھی کسی مظلوم، کسی بیوہ، کسی یتیم یا کسی ضرورت مند کی مدد کیلئے اپیل کی تو تارکین وطن نے اپنے دل کھول کر رکھ دیے۔ ایک اوور سیز پاکستانی نے مادرِ وطن کے ایک دیہی علاقے میں ایسا دستر خوان چلا رکھا ہے جہاں کسی سے بھی روٹی کی قیمت نہیں لی جاتی بلکہ مزدوروں، غریبوں اور کم آمدنی والے افراد کو اچھی سبزیوں اور گوشت سے تیار کیا گیا بہترین سالن بھی مفت مہیا کیا جاتا ہے۔ عمران بتا رہا تھا کہ جرمنی یا کسی بھی ملک میں بیٹھ کر جب اوور سیز پاکستانی اپنے ملک کے کسی ٹی وی چینل پر یہ خبر دیکھتے ہیں کہ اتنے ماہ میں اوور سیز پاکستانیوں نے اتنے ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ ملک بھیجا ہے تو اس وقت اپنا پیٹ کاٹ کر‘ اپنے بچوں کی بہت سی خواہشات کو اگلے ماہ تک اٹھا کر اپنے ملک میں اپنے ماں باپ کی ضروریات‘ ان کے علاج معالجے کیلئے بھیجی جانی والی وہ رقمیں ہماری روح کو اس قدر سکون مہیا کرتی ہیں کہ کئی کئی دن ہم اس خوشی اور مسرت کے احساس سے جھومتے رہتے ہیں کہ اس سے ہمارے ماں باپ کے ساتھ ساتھ دھرتی ماں کی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔
اولاد کی ماں سے اور ماں کی اولاد سے جدائی اور فراق کی گھڑیاں کتنی روح فرسا ہوتی ہیں اس کا مجھے آ ج سے تین دہائیوں قبل اس وقت احساس ہوا جب اپنی مرحومہ خوشدامن کی آنکھوں میں ہمہ وقت امڈتے آنسو دیکھے‘ جن کے تین بیٹے ملک سے باہر جانے کے بعد وہاں مستقل رہائش اختیار کر چکے تھے۔ میں انہیں اپنے بچوں کی یاد میں اکثر چپکے چپکے آنسو بہاتے دیکھا کرتا، اس وقت موبائل یا وڈیو کال کی سہولت تو میسر نہ تھی بلکہ برطانیہ سے بھیجے گئے خطوط بھی دس‘ پندرہ دنوں بعد ملا کرتے تھے۔ اَن پڑھ ہونے کے باوجود خوشدامن صاحبہ اپنے بیٹوں کے خطوط کو اپنی آنکھوں اور سینے سے لگا کر ساری ساری رات جاگا کرتی تھیں۔ وہ ایک ایک خط کو دن اور رات میں کئی کئی بار اپنی بیٹیوں سے سنتی تھیں۔ اس وقت کا ایک مشہور گیت وہ بڑے شوق سے سنا کرتی تھیں جس کے بول آج بھی میری سماعتوں میں گونجتے رہتے ہیں:
دیوانوں سے یہ مت پوچھو دیوانوں پہ کیا گزری ہے
ہاں! ان کے دلوں سے یہ پوچھو ارمانوں پہ کیا گزری ہے
ماں کا وجود کیوں تخلیق کیا گیا۔ ماں کے اندر ممتا کا کبھی نہ رکنے اور ہر دم بہنے والا سیلِ رواں اور پیار نجانے کیوں پرویا گیا۔ ماں کو اولاد کی جدائی برداشت کرنے کیلئے مضبوط حوصلہ کیوں عطا نہیں کیا گیا۔ ماں کو اس قدر کمزور کیوں بنایا گیا کہ اولاد کی معمولی سی تکلیف برداشت کرنے کی بھی اس میں ہمت اور طاقت نہیں ہوتی۔ وہ اولاد کے ایک ہلکے سے فقرے سے کیوں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ ماں اپنی اولاد کو گھر سے باہر جاتے ہوئے گلی، محلے اور بلاک کے آخری موڑ تک کیوں دیکھتی رہتی ہے۔ دنیا کی ہر محبت اور تعلق میں کہیں نہ کہیں غرض آ جاتی ہے لیکن اگر بے غرض محبت دیکھنی ہو تو وہ صرف ماں میں ملے گی کہ وہ بیٹا جو نالائق ہو اور جو ہر وقت اپنی ماں کی جیب خالی کرنے میں لگا رہتا ہے‘ وہی ماں کو سب سے زیادہ پیارا ہوتا ہے کیونکہ ماں کے پیار کو بچے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ عمران صدیقی کے ایک جانب اپنی ماں تو دوسری جانب دھرتی ماں کیلئے دعائیہ کلمات: ''یا رب! میری ماں کو لازوال رکھنا، میں رہوں نہ رہوں‘ میری ماں کا خیال رکھنا۔ میری خوشیاں‘ میری سانسیں لے لے مگر میری ماں کے گرد سدا خوشیوں کا جال رکھنا‘‘۔
قران پاک میں ارشادِ ربانی ہے ''اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے شفقت سے بچپن میں پالا، تُو بھی ان کے حال پر رحم فرما‘‘۔ عمران اور ان جیسے لاتعداد اوور سیز یہی دعا مادرِ وطن پاکستان کیلئے بھی مانگتے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں