ایک انگریزی جریدے کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق‘ گزشتہ برس کی نسبت کورونا کے با وجود پی آئی اے اپنے منافع میں ریکارڈ 43 فیصد اضافہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ 2019 میں 104 ارب تو 2020 میں 148 ارب زیادہ منافع دیکھنے کو ملا جبکہ 2018 میں جب ''انتہائی اہل‘‘ لوگوں کی حکومت تھی تو اسے 18 ارب روپے کے خسارے کا سامنا تھا۔
اپریل1980ء میں شائع شدہ ایک اشتہار ملاحظہ کیجئے لیکن اسے پڑھتے ہوئے آپ نے نہ تو رونا ہے اور نہ ہی گھبرانا ہے: ''پاکستان کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا انحصار ایسے ا داروں پر ہے جو خود کفیل ہوں اور باقاعدہ حکومتی خزانے میں ٹیکس دینے والے ہوں، وہ قومی خزانے پر بوجھ نہ ہوں اور اپنے تمام مصارف اپنی آمدنیوں سے پورے کرتے ہوں۔ ہم نہ صرف دیگر فضائی کمپنیوں کو انتظامی، فنی اور تربیتی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں بلکہ پی آئی اے کے بین الاقوامی ہوٹلوں کے قیام کیلئے بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی منڈی میں ہماری ساکھ اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ ہم نے اپنے ہی وسائل سے بوئنگ 747 جیسے دیو قامت طیارے خرید لئے ہیں، ہماری انتھک محنت‘ جدوجہد، پیشہ ورانہ مہارت اور کارکردگی دنیا بھر میں پاکستان کا بول بالا کر رہی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز: با کمال لوگ لاجواب پرواز‘‘۔
اس اشتہار کا ایک ایک حرف غور سے پڑھیں اور سوچیں کے پھر اس ''لاجواب پرواز‘‘ کو کیا ہوا، اسے کون کھا گیا؟ چالیس برس پہلے جو پی آئی اے ملک و قوم پر بوجھ نہیں تھی‘ آج ملک و قوم پر اسے بھاری بھر کم بوجھ کی صورت میں کون لاد گیا ہے؟ پی آئی اے کو برسوں تک گدھوں کی طرح نوچ کر اسے ہڈیوں کے ڈھانچے کی شکل کن لوگوں نے دی ہے؟ یہ قومی ادارہ‘ جس پر بحیثیت پاکستانی ہم دنیا بھر میں فخر کیا کرتے تھے‘ آج اس کا نام ندامت کا نشان کیوں بن چکا ہے؟ ملکی معیشت جو عالم نزع میں ہے‘ وہ پی آئی اے‘ جو کبھی ملکی خزانے کا بوجھ کم کیا کرتی تھی‘ کو قومی معیشت کا خون کیوں پلا رہی ہے؟ اس قومی ادارے کو ''لاجواب سے زوال‘‘ کی طرف کون لے کر گیا؟
اگر فرصت میسر ہو تو جولائی 2010ء کی وزارت خزانہ کی وہ رپورٹ بھی دیکھیں جس میں وزیر خزانہ ماتم کناں انداز میں کہہ رہے ہیں ''پاکستانی عوام کی بہتری پر خرچ کرنے کے بجائے ہمیں پی آئی اے اور سٹیل مل کے خسارے پورے کرنے کیلئے فوری طور پر 200 ارب روپے ادا کرنا ہوں گا (یاد رکھئے کی یہ آج سے گیارہ برس پہلے کے دو سو ارب روپے ہیں) ہر حکومت نے اپنے ہزاروں کارکنان کو بغیر کسی کام اور ضرورت کے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل میں ریوڑیوں کی طرح نوکریاں بانٹیں۔ بے تحاشا ملازمین کی فوج بھرتی کر کے ٹیکس ادا کرنے والے اداروں کو ملکی معیشت پر بوجھ بنانے کا آغاز 1985ء میں ہوا جب محمد خان جونیجو کی مسلم لیگی حکومت میں قومی اداروں میں سیاسی بنیادوں پر 447 بھرتیاں کی گئیں، پھر 1988ء میں بے نظیر حکومت نے 592 سیاسی بھرتیاں کرنے کے علاوہ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء ریگو لیشن 54 کے تحت نکالے گئے تمام ملازمین کو گیارہ سال بعد پچھلی تنخواہوں سمیت بحال کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔ 1990ء یعنی میاں نواز شریف کے پہلے دور میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے3901 ملازمین کا بوجھ پی آئی اے اور اس قوم پر لاد دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ قومی ادارے کے جنرل منیجرز کی تعداد جو 61 تھی‘ کو 1991ء میں بڑھا کر 473 کر دیا گیا اور پھر یہ تمام عہدے اپنے من پسند لوگوں میں بانٹ دیے گئے۔ ملکی و غیر ملکی ایئر پورٹس پر آتے جاتے ''زندہ باد‘‘ کے نعرے لگوانے کیلئے قومی فضائی کمپنی کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ تمام ایشیائی ایئر لائنوں میں فی ایئر کرافٹ 320 افراد پر مشتمل عملے کی ضرورت تھی لیکن پاکستان میں یہ تعداد 580 تھی۔ اس اضافی بوجھ سے یہ ہوا کہ فاضل اور ناکارہ عملے پر اٹھنے والے اخراجات جو 11.3 ملین روپے تھے وہ 1991ء میں بڑھ کر 265 ملین ہو گئے۔ زمینی مخلوق کے اس حملے سے پی آئی اے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسے 1991-92ء کے مالی سال میں 333.89 ملین روپے کا خالص خسارہ ہوا۔
درج بالا سطور میں آپ نے اپریل1980ء کے قومی ماہناموں میں دیے جانے والے اشتہار میں پڑھا ہو گا کہ پی آئی اے قومی خزانے میں باقاعدہ ٹیکس ادا کیا کرتی تھی لیکن اسی دور میں وزیراعظم نے خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے پی آئی اے کو ٹیکس ادا کرنے سے استثنا دے دیا۔ اس سے ایک طرف یہ نقصان ہوا کہ وہ ٹیکس جو قومی خزانے میں جمع ہوتا تھا‘ اب اللے تللوں، سیاسی بھرتیوں اور اقربا پروری کی نذر ہونا شروع ہو گیا‘ دوسری طرف یہ قومی ادارہ ملکی معیشت پر بوجھ بننا شروع ہو گیا۔ اگر پی آئی اے کو ٹیکس چھوٹ نہ دی جاتی تو 91ء میں قومی فضائی کمپنی کے خسارے کی کل رقم 733.89 ملین روپے ہو جاتی۔
پی آئی اے ٹرالیوں کے سکینڈل میں جب سینیٹ کمیٹی نے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو بلا کر یہ پوچھا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق پی آئی اے کی گیارہ سو ٹرالیاں غائب ہیں‘ وہ کہاں گئیں تو سینیٹ کمیٹی کو بڑے فخریہ انداز میں بتایا گیا کہ آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے‘ ہماری صرف 800 ٹرالیاں غائب ہیں۔ یاد رہے اس وقت ایک ٹرالی پی آئی اے نے پانچ ہزار روپے میں خریدی تھی۔ پی آئی اے میں کرپشن کی درجنوں یا سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں کہانیاں ہیں۔ کبھی فلائٹ کچن کے من پسند ٹھیکے تو کبھی حج کے باسعادت موقع پر ہزاروں من پسند افراد کو مفت ہوائی ٹکٹ کی فراہمی، بہترین ہوٹلوں میں سرکاری خرچے پر قیام کے حوالے سے بھی اقربا پروری کی مثالیں قائم کی گئیں۔ 1995ء کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ سات کروڑ روپے محض مفت ٹکٹ کی مد میں ہضم کر لئے گئے۔ نااہل اور سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کی بیرونِ ملک تھوک کے حساب سے تقرریاں کی گئیں۔ ایک تماشا یہ لگایا گیا کہ پی آئی اے کی آمدنی اور خسارہ‘ جو ہمیشہ ڈالرز میں لکھا جاتا تھا، اسے روپوں میں پیش کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت‘ آج کے دور کے برعکس‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مسلسل کم ہوتی جا رہی تھی‘ اس لئے بیلنس شیٹ کو ڈالرز کے بجائے روپوں میں ظاہر کرکے ملک و قوم کو دھوکا دیا جاتا رہا۔
تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل پاکستان سٹیل کو 191 ارب روپے کے سالانہ خسارے کا سامنا تھا۔ حالانکہ 2017ء میں قومی فضائی کمپنی کو 36.14 ارب روپے خسارے کا سامنا تھا ۔اس وقت کی جاری کی گئی ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق‘ پی آئی اے کو 117 ارب روپے کا سب سے بڑا نقصان نااہل انتظامیہ کی ایوی ایشن پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ ادویات کی خریداری میں ایک ارب اور ڈیلی ویجز کے نام پر غلط کنٹریکٹ ایوارڈ کرکے 1.7 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ 3.33 ارب روپے سیاسی رشوتوں کے ذریعے اور 33 ارب روپے ڈرائی لیز اور 10 ارب روپے ویٹ لیز کنٹریکٹ میں جھونک دیے گئے، حالانکہ دوسری فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں پی آئی اے نے خسارے والا ادارہ ہونے کے باوجود کئی گنا زیادہ ریٹ دیا۔آج پی ٹی آئی حکومت کے حکم پر لاہور اور اسلام آباد سے سکردو اور سوات کیلئے دوبارہ سے پی آئی اے کی پروازیں شروع ہو گئی ہیں جن سے ملکی سیاحت کو بھی Boost ملے گا۔ اب خود اندازہ لگا لیجیے کہ کون اہل ہے اور کون نااہل۔