''ہمارا پی ڈی ایم سے صرف اتنا اختلاف تھا کہ استعفے دینے کی بات موخر کرتے ہوئے سب سے پہلے وزیراعظم سے ان کی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز چھین لو‘‘۔ اس بیان میں بلاول بھٹو زرداری کا اشارہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کی جانب تھا۔ پیپلز پارٹی کے پلان کے مطابق‘ اس کے بعد چودھری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا جانا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ''جب تحریک انصاف سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چھن جائے گی تو پھر مرکز میں ہمیں اس طرح واک تھرو مل جائے گا کہ ہمارے کچھ کرنے سے پہلے ہی وزیراعظم پر اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے دبائو آ جائے گا اور یہ دبائو ان کی اپنی جماعت کے اندر سے ابھرے گا۔ اس دوران اپوزیشن کے ووٹ پورے ہو چکے ہوں گے اور یوں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے گی جس کے بعد پی ڈی ایم کے لیڈران جس کی بھی حکومت بنائیں گے‘ اسے اکثریت آسانی سے مل جائے گی کیونکہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ چھن جانے کے بعد سب سے پہلے مرکز میں بغاوت ہو گی اور اگر یہ سب ہو جاتا تو سب نے دیکھنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ چند گنے چنے افراد ہی رہ جانے تھے لیکن افسوس نواز لیگ نے چودھری پرویز الٰہی کی چیف منسٹری کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پنجاب میں اگر کوئی چیف منسٹر ہو گا تو صرف نواز لیگ کا ہو گا۔ اس سلسلے میں پہلے مولانا فضل الرحمن ذاتی طور پر بھی جاتی امرا گئے اور شریف برادران کو قائل کرنے کی کوشش کی، ان کے بعد پیپلز پارٹی نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن لندن سے صاف انکار ہی ملتا رہا‘‘۔
گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم کے اختلافات کا سبب بیان کرتے ہوئے بہت بڑا راز بھی فاش کر گئے اور وہ یہ کہ چودھری برادران تحریک انصاف حکومت کے خلاف اتحاد میں شرکت پر آمادگی ظاہر کر چکے تھے۔ درحقیقت یہی عمران خان اور تحریک انصاف حکومت کا المیہ ہے کہ وہ بیساکھیوں کے سہارے پر کھڑی ہے اور اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جو کرنے کیلئے وہ میدان سیاست میں کودے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی اننگز دیکھنے کا مزہ اس وقت آنا تھا جب اپنی ٹیم پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ اتحادیوں کی شکل میں حکومت کے سر پر ایک تلوار مسلسل لٹک رہی ہے، اگر اس تلوار کی دھار دیکھنی ہے تو پنجاب کے ان چار اضلاع کی انتظامیہ کو دیکھ لیں جس کے آگے نہ تو بزدار حکومت کی چلتی ہے اور نہ وفاقی حکومت کی۔
جولائی2018ء کے انتخابات کے بعد جب پنجاب اسمبلی کے سپیکر کیلئے انتخاب کا مرحلہ درپیش آیا تو سب نے دیکھا کہ چودھری پرویز الٰہی کو تحریک انصاف اور ق لیگ کے اتحاد کے مجموعی ووٹوں سے بارہ ووٹ زیادہ ملے تھے۔ اس وقت بھی میں نے اپنے ایک مضمون میں ان اراکین اسمبلی‘ جنہوں نے نواز لیگ میں رہتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دیے تھے‘ کے بارے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے نام راقم کے علم میں ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ان بارہ ووٹوں میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پانچ ممبران کے ووٹ بھی تھے جنہوں نے نواز لیگ کے بجائے ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دیا تھا۔
اس وقت کے سیاسی منظر نامے کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ 2023ء میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا انتخابی اتحاد ہو جائے گا یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی۔ لنکا تو گھر کے بھیدی ہی ڈھاتے ہیں، یہ صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ سینیٹ کا الیکشن جہاں پی ٹی آئی حکومت کیلئے بے چینی پیدا کر رہا تھا‘ وہیں اس سے میں ایک خیر کا پہلو بھی نکل آیا کہ وہ جو تمام گلے شکوے ختم کرتے ہوئے آپس کی محبت، قربانی اور ایثار کے ناتوں سے بندھے ہوئے رشتے نبھانے کے عہد کر رہے تھے‘ چند قدم ساتھ چلنے کے بعد ہی ہاتھ چھڑا کر اس طرح بھاگ گئے جیسے شک ہو کہ ان میں کورونا وائرس سرایت کر گیا ہے۔
دوسری جانب بلاول بھٹو نے منصورہ میں محترم سراج الحق کے پہلو میں کھڑے ہو کر نواز لیگ پر جو تیر داغا تھا، اس سے پہنچنے والے زخموں سے مسلم لیگ ن کی قیادت ابھی تک کراہے جا رہی ہے۔ بلاول بھٹو نے لاہور میں جاتی امرا سے کچھ دور کھڑے ہو کر ببانگ دہل کہا ''اگر ہم سلیکٹڈ کی بات کریں گے تو پھر کون نہیں جانتا کہ لاہور کا ایک ایسا خاندان ہے جو ہمیشہ سے سلیکٹ ہوتا آیا ہے۔ اب اس سے بلاول بھٹو کی کیا مراد تھی‘ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ گلی محلے کے خوانچہ فروش بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کون سا خاندان ہے جو ہمیشہ سے سلیکٹ ہوتا آیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ گزشتہ دنوں نواز لیگ کو پھر ایسا چرکا لگایا کہ اس سے لگنے والا زخم مدتوں درد میں مبتلا رہے گا۔ بلاول بھٹو کا بیان صاف بتا رہا تھا کہ بھٹو‘ زرداری خاندان شریف برادران کو دل سے کبھی معاف نہیں کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ شروع سے میں کہتا چلا آ رہا ہوں کہ یہ دونوں خاندان زیا دہ دور تک ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ بڑے بڑے سیاسی دانشور میری اس رائے کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر یہ دونوں ایک دوسرے کو چھوڑنا بھی چاہیں تو نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ جس ڈوری سے یہ ایک دوسرے کے ساتھ باندھے گئے ہیں اس کا پاس ورڈ صرف مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔
بلاول بھٹو نے سینیٹ کا اجلاس شرو ع ہونے سے قبل اپنی ''اتحادی جماعت‘‘ پر کمال کی چوٹ کرتے ہوئے کہا ''جنہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرایا تھا‘ ہم انہی کے ووٹوں سے ان کو اہل کرا کر سینیٹ میں لے آئے ہیں اور کالا کوٹ پہن کر انہیں نااہل کرانے والے آج پریشان پھر رہے ہیں کہ وہی یوسف رضا گیلانی‘ جنہیں جلسوں میں للکارتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ گیلانی صاحب! یہ کرسی چھوڑ دو، استعفیٰ دے کر گھر جائو اور اگر عدالت تمہیں اہل قرار دے تو واپس آ جانا‘ وہی گیلانی آج سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہو گئے ہیں۔ بلاول بھٹو کے سلیکٹڈ والے بیان سے جاتی امراء اور ایون فیلڈ ہائوس کے مکین اس قدر ناراض نہیں ہوئے تھے جتنا اشتعال انہیں اس بیان پر آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود لیگی قیادت کو پیپلز پارٹی کو بھرپور جواب دینے کی ہدایات پہنچ چکی ہیں لیکن اس میں سب سے زیادہ پچھتاوا انہیں ہو رہا ہو گا جو بھٹو خاندان کے مزار پر جا کر اور اپنے آبائو اجداد کی کئی دہائیوں کی سیاست دفن کر تے ہوئے گڑھی خدا بخش کے ہزاروں کے مجمع کے سامنے ''پیپلز پارٹی زندہ باد‘‘ کے نعرے مفت میں لگواتے رہے۔
غالباً جولائی 1990ء کے وسط کی بات ہے‘ قصور ی خاندان سے تعلق رکھنے والے صاحبزادہ خضر حیات خان بطور ممبر قومی اسمبلی میاں نواز شریف سے ملاقات کر رہے تھے، چند منٹ کی ملاقات کے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو میاں نواز شریف‘ جو اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ ان کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے: خان صاحب! آپ قومی اسمبلی کے واحد رکن ہیں جنہوں نے آج تک مجھ سے کسی بھی سرکاری افسر کی پوسٹنگ یا ٹرانسفر کی بات نہیں کی، اگر مجھے پندرہ بیس آپ جیسے اراکین قومی اسمبلی مل جائیں تو ہم پیپلز پارٹی اور اس کی سیاست کو بحیرہ عرب میں غرق کر دیں گے۔ سیاست کے رنگ دیکھئے کہ انہی نواز شریف صاحب کی صاحبزادی‘ انہی کی اجازت سے گڑھی خدا بخش میں کھڑے ہو کر پیپلز پارٹی کیلئے زندہ باد کے نعرے لگواتی رہیں۔ درست کہتے ہیں کہ سیاست ایک شطرنج ہے اور سیاست کے کھلاڑی اپنے اندر ایک بروٹس لئے پھرتے ہیں۔ میاں نواز شریف پنجاب میں آصف زرداری صاحب کی شرط مانتے ہوئے عدم اعتماد کیلئے ساتھ دینے پر آمادہ ہو جاتے تو شاید پی ڈی ایم کی صفیں تو برقرار رہتیں مگر پھر بھی حکومتی صفوں کے بروٹس نے مجمع سے نکل کر آگے بڑھنا ہی تھا۔