"MABC" (space) message & send to 7575

ماضی اور حال کی کرکٹ

پاکستان میں جب کرکٹ میچوں کا احیا ہوا تو لاہور میں ہونے والے تمام انٹرنیشنل میچز لارنس گارڈن (جناح باغ) کے جم خانہ کلب کی گرائونڈ میں کھیلے جاتے تھے، گرائونڈ کی بائونڈری لائن سے کچھ ہی فاصلے پر سیڑھیوں کے تہہ در تہہ پھٹے رکھے جاتے جبکہ باقی حصوں میں اچھی کرسیاں اور صوفے ہوا کرتے تھے۔ پاکستان میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی اکثریت کا تعلق غریب‘ نچلے اور متوسط طبقے سے تھا، اس لئے ان کی مالی حالت انتہائی پتلی تھی۔ انہیں میچز کا برائے نام معاوضہ دیتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ شکر ادا کریں آپ کو پاکستانی ٹیم میں نمائندگی دے کر پہچان دی گئی ہے۔ بہت سے کھلاڑیوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس کرکٹ کِٹ اور جوتے بھی کم درجے کے تھے۔ ان میں سے اکثر کو کسی قسم کی سواری کی سہولت میسر نہ تھی بلکہ ایک مرتبہ تو یوں ہوا کہ آسٹریلیا کی ٹیم ایک ٹیسٹ سیریز کھیلنے کیلئے پاکستان آئی۔ آج کی طرح‘ اس وقت فائیو اور سیون سٹار ہوٹلز میں قیام و طعام جیسا تصور بھی نہیں تھا بلکہ لاہور میں رہائش رکھنے والے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اپنے طور پر میچز کھیلنے کیلئے کبھی پیدل تو کبھی تانگوں اور سائیکلوں پر باغ جناح کی کرکٹ گرائونڈ میں پہنچتے تھے۔ اس وقت کی تنخواہوں کی بات کی جائے تو یہ جان لیجئے کہ آج بھارتی کھلاڑی ویرات کوہلی کو ملنے والی تنخواہ اس وقت کی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کی مجموعی سالانہ تنخواہ اور الائونسز سے زیادہ ہے۔ کھلاڑیوں کو معاشرے میں باوقار مقام دلانے کیلئے عبدالحفیظ کاردار اور امتیاز احمد کو پاکستان ایئر فورس میں بطور فلائٹ لیفٹیننٹ اور پائلٹ افسر کمیشن دیا گیا۔ کاردار تو جلد ہی استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے لیکن وکٹ کیپر امتیاز احمد گروپ کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔
آسڑیلین ٹیم کے دورے کی بات ہو رہی تھی‘ تو لارنس گارڈن میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ٹیسٹ میچ شروع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی رہ گیا تھا لیکن اس میچ میں حصہ لینے کیلئے پاکستانی ٹیم کے بہترین بلے باز آغا سعادت اور فاسٹ بائولر خان محمد ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ ہوا یوں کہ میچ کھیلنے کیلئے وہ دونوں ایک ہی سائیکل پر لارنس گارڈن کی جانب رواں دواں تھے کہ لاہور کے ریگل چوک پر ٹریفک کانسٹیبل انہیں روک کر کھڑا ہو گیا اور ان کا چالان کاٹنے لگا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے مذکورہ کھلاڑی ٹریفک کانسٹیبل کو بتانے لگے کہ ہم پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہیں اور ہم نے ابھی گرائونڈ میں پہنچ کر آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم سے میچ کھیلنا ہے‘ لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہ تھا بلکہ ضد پر اڑ گیا کہ سائیکل پر جب دو سواریوں کی اجازت نہیں ہے تو وہ کیوں بیٹھے؟ اب اس حکم کی خلاف ورزی پر وہ چالان کیے بغیر نہیں جانے دے گا۔ (سائیکل کی ڈبل سواری کی پابندی اور چالان کی شق گورنر عتیق الرحمن نے ختم کی تھی) اسی دوران لاہور پولیس کے چند افسران کا وہاں سے گزر ہوا اور انہوں نے بھیڑ میں گھرے ہوئے آغا سعادت اور خان محمد کو پہچان لیا اور فوری طور پر ان دونوں کھلاڑیوں کی جان بخشی کرائی اور وہ جلدی جلدی پیڈل مارتے ہوئے لارنس گارڈن پہنچ گئے۔
لاہور میں ریگل چوک کے قریب‘ جہاں آج مسجد شہداء واقع ہے‘ وہاں ایک بہت ہی مشہور چنے والا (اسے لاہوری زبان میں چکڑ چھولے کہتے ہیں) بیٹھا کرتا تھا۔ جب میچ کے دوران کھانے کا وقفہ ہوتا تو قومی ٹیم کے کھلاڑی بھاگ کر اپنی سائیکلیں پکڑتے اور ریگل چوک سے چکڑ چھولے کھا کر لنچ کرتے۔ آج کرکٹ کے کھلاڑیوں کی قسمتوں کے ستارے اس طرح بلند ہوئے اور اس طرح چمکتے ہیں کہ ادھر قومی ٹیم میں شامل ہوئے ادھر بہت ہی پوش آبادی میں دو کنال کا سجا سجایا گھر خرید لیا۔ اُس دور میں سواری کیلئے سائیکل بھی کسی کسی کھلاڑی کے نصیب میں ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ دو قومی کھلاڑی ایک سائیکل پر ڈبل سواری کرتے ہوئے میچ کیلئے جا رہے تھے کہ چالان کیلئے بیچ سڑک کھڑے کر لئے گئے۔ اور یہ نہیں کہ یہ کوئی عام کھلاڑی تھے بلکہ اگر اس وقت کی محدود کرکٹ میں ان کی کار کردگی کو دیکھا جائے تو خان محمد صفِ اول کے بائولرز میں شامل تھے۔
تین صدیاں قبل جب ایک جنٹل مین کھیل کے تصور سے کرکٹ کا آغاز ہوا تو اس وقت سفید لباس منتخب کیا گیا جو 1976ء تک جاری رہا لیکن اس کے بعد آسٹریلیا کے مشہور میڈیا ٹائیکون کیری پیکر نے جب ''کرکٹ سرکس‘‘ کا آغاز کیا تو انہوں نے ون ڈے میچز کی ابتدا کرتے ہوئے رنگین یونیفارم متعارف کرائی۔ پھر 1992ء کے ورلڈ کپ میں پہلی مرتبہ تمام ٹیمیں اپنی مختلف رنگوں کی کٹس کے ساتھ انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کے میدان میں اتریں۔ جب کیری پیکر نے دنیا کے سب سے بہترین بائولر اور بیٹسمین اپنے ساتھ ملا لئے تو دنیائے کرکٹ کی ٹیمیں خالی ہو کر رہ گئیں۔ پاکستان سے کیری پیکر کے ساتھ جانے والوں پر پاکستانی میڈیا میں بہت تنقید کی گئی جس پر پاکستان کے کرکٹ حکام سے کہا گیا کہ آپ ہمیں جو معاوضہ دیتے ہیں اس سے تو سٹیڈیم تک آنے جانے کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے۔ آج کی زبان میں‘ کیری پیکر نے اس وقت فرنچائز کے طور پر کرکٹ کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ کیری پیکر سرکس نے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو بہترین معاوضہ دینا شروع کیا، ان کی رہائش، کھانے اور ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام کیا گیا اور یوں آسٹریلیا کے چینل نائن کے مالک کیری پیکر نے کرکٹ کھیلنے والوں کے معیارِ زندگی کو بہتر اور بلند کرنے کی بنیاد رکھی۔ آسٹریلوی بزنس مین کیری پیکر سیریز کا ایک مقصد اس کھیل کو کمرشل بنانا تھا تاکہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ معاضہ دیا جا سکے اور اس کھیل کو بطورِ بزنس استعمال کیا جائے لیکن کیری پیکر کو آسٹریلیا کے چوٹی کے کھلاڑی ہائر کرنے کی سزا دیتے ہوئے آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کیری پیکر خاندان کے ملکیتی ٹی وی چینل کو آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی کرکٹ ٹیسٹ سیریز کے نشریاتی حقوق دینے سے انکار کر دیا۔ کیری پیکر کو اس بات کا بہت دکھ اور افسوس تھا لیکن یہ ارب پتی تاجر ضد کا پکا تھا۔ اس نے ایسا بندو بست کیا کہ دنیا بھر میں ہونے والے کرکٹ میچز اپنے چینل سے دکھانا شروع کر دیے جس سے اس نے دولت کے انبار اکٹھے کر لئے۔ اپنی اس دولت سے اس نے دنیائے کرکٹ کے نامور کرکٹرز کو بھی مالا مال کرنا شروع کر دیا۔ یہیں سے کرکٹ کے کھلاڑیوں کیلئے اچھا کھانا، ٹرانسپورٹ اور اچھی تنخواہوں سمیت ہر میچ کیلئے پر کشش معاوضے کا آغاز ہوا۔ ریڈیو سے نکل کر جیسے ہی کرکٹرز کے چہرے ٹیلی وژن سے براہ راست دکھانے کا آغاز ہوا تو اشتہاری کمپنیاں بھی میدان میں اتر آئیں اور پھر پیسہ ان پرہُن کی طرح برسنے لگا۔
ابتدا میں کلائیو لائیڈ اور مائیکل ہولڈنگ، ٹونی گریگ، گریگ چیپل، ایان چیپل اور ڈینس للی جبکہ پاکستان سے جاوید میانداد، ماجد خان، عمران خان، سرفراز نواز، تسلیم عارف (تسلیم نے اس وقت تک کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا تھا)، ظہیر عباس، مشتاق محمد اور آصف اقبال جیسے بڑے کھلاڑی کیری پیکر کے کرکٹ سرکس میں شامل کئے گئے۔ کیری پیکر کی شروع کی گئی کرکٹ سیریز سے ہی محدود اوورز اور نائٹ کرکٹ کا تصور ملا تھا۔ کیری پیکر نے تین ٹیمیں تشکیل دیں جن میں ایک آسٹریلیا اور دوسری ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں جبکہ تیسری ٹیم پاکستان، انگلینڈ، جنوبی افریقہ کے کھلاڑی پر مشتمل تھی۔ بھارتی کھلاڑی اس وقت نہیں لئے گئے تھے۔ یوں تین ٹیموں کی تشکیل کے بعد ان میں ایک سیریز کھیلی گئی جسے کیری پیکر سیریز کا نام دیا گیا۔ رچی بینو نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر کیری پیکر کو کرکٹ کے محسن کا خطاب دیا جس نے کھلاڑیوں کو رہنے کیلئے گھر‘ سواری کیلئے موٹر اور اچھی خوراک فراہم کرنے کی بنیاد رکھی تھی۔ کرکٹ کے حوالے سے کچھ مزید باتیں اگلے کسی کالم میں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں